اگر آپ چھپا نہیں سکتے
جان ایف کینیڈی امریکا کے 35 ویں صدر تھے، یہ صدر بننے کے بعد اپنے والد جوزف پیٹرک کینیڈی سے ملنے گئے، جوزف پیٹرک عرف عام میں جو کینیڈی کہلاتے تھے، وہ انتہائی پڑھے لکھے، سمجھ دار اور تجربہ کار تھے، امریکا کے سیکیورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن اور میری ٹائم کمیشن کے چیئرمین بھی رہ چکے تھے اور دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ میں امریکا کے سفیر بھی، یہ جوزف کینیڈی کا کمال تھا امریکا میں 1947ء سے کینیڈی فیملی کا کوئی ایک فرد فیڈرل اسٹیبلشمنٹ میں اعلیٰ عہدے پر ضرور فائز رہتا ہے۔
جان ایف کینیڈی والد کو اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے چنانچہ یہ ان کے پاس گئے اور کہا "میں پریشان ہوں" والد نے سگار کا کش لیا اور پوچھا "تم صدر بن کر کیوں پریشان ہو" جان ایف کینیڈی نے جواب دیا " میری درجن بھر معشوقائیں ہیں، میں صدر بننے کے بعد لائم لائیٹ میں آ جاؤں گا چنانچہ مجھے خطرہ ہے میں اب اپنی بیوی سے اپنے معاشقے نہیں چھپا سکوں گا" والد نے سگار کا ایک اورکش لیا اور مسکرا کر کہا "تم ٹھیک کہتے ہو، تم واقعی صدارت کے قابل نہیں ہو" جان ایف کینیڈی نے حیران ہو کر پوچھا "کیا مطلب" والد نے مسکرا کر جواب دیا "میرے بچے جو شخص اپنی بیوی سے اپنے معاشقے نہ چھپا سکے، اسے واقعی امریکا کا صدر نہیں ہونا چاہیے"۔
یہ واقعہ اسٹیٹ کرافٹ کی ایک معمولی سی مثال ہے، حکمرانی ایک انتہائی نازک کام ہوتا ہے، دس بیس کروڑ لوگوں اور بعض اوقات پوری دنیا کا مقدر حکمران کے ایک فیصلے کی دوری پر موجود ہوتا ہے، ہٹلر کے ایک فیصلے نے 1939ء میں پوری دنیا کو جنگ کے جہنم میں دھکیل دیا تھا، دنیا آج 79 سال بعد بھی ہٹلر کے اس فیصلے کے اثر سے باہر نہیں آ سکی، صدرہیری ٹرومین کے ایک فیصلے نے ناگاساکی اور ہیرو شیما کو ایٹم بم سے اڑا دیا تھا، جاپان آج تک ان دو حملوں کے اثر سے باہر نہیں آ سکا، ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں صنعتوں کو قومیانے کا فیصلہ کیا، پاکستان اس ایک فیصلے کے نتیجے میں ایشین ٹائیگر سے ایشین کیٹ بن گیا۔
یہ آج تک دوبارہ ٹائیگر نہیں بن سکا، جنرل ضیاء الحق نے افغان وار میں کودنے کا فیصلہ کیا، ہم آج تک اس کے اثرات بھگت رہے ہیں، جنرل پرویز مشرف نے نائین الیون کے بعد امریکا کو ایک ہاں کی، ہم آج بھی اس ایک ہاں کے نتیجے میں سکون سے نہیں سو پا رہے اور میاں نواز شریف نے پاناما اسکینڈل کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس ایک فیصلے نے پوری پارٹی اور پورے خاندان کی جڑیں ہلا دیں، شریف خاندان اب اس فیصلے کے اثرات سے کبھی باہر نہیں آ سکے گا، ریاست اور ریاست پر حکمرانی کتنا نازک، کتنا باریک اورکتنا اہم کام ہوتا ہے؟
آپ اورنگزیب عالمگیر کی مثال سے دیکھئے، اورنگزیب عالمگیر کو اپنے جذبات، اپنے خیالات پر انتہائی کنٹرول تھا، وہ اپنے خیالات کا سایہ تک اپنے چہرے پر نہیں آنے دیتا تھا لیکن ایک دن بادشاہ کے ایک خادم نے یہ پوچھ کر حیران کر دیا "حضور آپ دکن کی مہم کے لیے کب روانہ ہو رہے ہیں" بادشاہ نے حیرت سے پوچھا "تم کو کس نے بتایا، میں دکن پر حملہ کر رہا ہوں" خادم نے جواب دیا "جناب میں آج صبح جب آپ کو وضو کرا رہا تھا تو آپ نے داڑھی کا پانی صاف کرتے ہوئے دکن کی طرف منہ کرکے دو بار فرمایا تھا۔
ان شاء اللہ، میں نے اس سے اندازہ لگایا آپ نے دکن پر حملے کا فیصلہ کر لیا ہے" بادشاہ خادم کی فراست پر حیران رہ گیا کیونکہ اس نے یہ فیصلہ وضو کے درمیان کیا تھا اور خادم وضو ختم ہونے سے پہلے اس کا ارادہ بھانپ چکا تھا، اسٹیٹ افیئرز اتنے نازک ہوتے ہیں، پاکستان میں یہ کنٹرول صرف صدر غلام اسحاق خان کو تھا، اگست 1990ء میں صدر نے بے نظیر کی حکومت ختم کرنے کافیصلہ کیا، محترمہ نے ٹوہ لینے کے لیے امریکی سفیر رابرٹ اوکلے کو ایوان صدر بھجوایا۔
امریکی سفیر نے واپس آ کر وزیراعظم کو تسلی دی صدر اسمبلیاں نہیں توڑ رہے لیکن پھر اچانک صدر نے سہ پہر کے وقت حکومت اور اسمبلیاں توڑ دیں، بے نظیر بھٹو نے ٹیلی ویژن پر خبر دیکھ کر صدر کو فون کیا اور کہا "آپ نے اگر حکومت توڑنی تھی تو آپ دوپہر کو امریکی سفیر کو بتا دیتے" غلام اسحاق خان نے جواب دیا "میں نے یہ فیصلہ دوپہر کے بعد کیا تھا"۔ ریاست چلانے کے لیے یہ ضبط، یہ کنٹرول چاہیے ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف دونوں اس خوبی سے محروم ہیں چنانچہ لوگ سوچ رہے ہیں جو لوگ اپنا کنٹرول کھو بیٹھتے ہیں، وہ نیو کلیئر پاکستان کے گھمبیر ایشوز کو کیسے کنٹرول کریں گے؟
پاکستان کے مستقبل کے حکمرانوں کی حالت یہ ہے پاکستان تحریک انصاف کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے لیے ناصر کھوسہ کا نام دیا، نام پر محمود الرشید اور شہباز شریف میں اتفاق ہوگیا لیکن تیسرے دن نام واپس لے لیا گیا، وجہ پوچھی گئی تو جواب آیا، ہم طارق کھوسہ اور ناصر کھوسہ میں کنفیوژ ہو گئے تھے اور میڈیا پر بھی بڑی اپوزیشن ہوئی تھی، میڈیا پوچھتا ہی رہ گیا جناب وہ اخبار، وہ ٹی وی اور وہ کریڈیبل ویب سائیٹ تو بتائیے جس پر لوگوں نے ناصر کھوسہ کی مخالفت کی ہو اور دوسرا آپ لوگوں نے جب ناصر کھوسہ کا نام فائنل کیا تھا تو کیا پوری پارٹی میں کسی شخص کو ناصر کھوسہ اور طارق کھوسہ کے فرق کا علم نہیں تھا جب کہ اصل حقیقت یہ ہے ناصر کھوسہ شوکت عزیز کے دور میں جہانگیر ترین کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔
جہانگیر ترین اسپیشل اینی شیٹوز کے وفاقی وزیرتھے، ناصر کھوسہ وزارت زراعت میں ایڈیشنل سیکریٹری تھے اور یہ ریکارڈ مدت میں پورے ملک کے کھالے پکے کرکے ترین صاحب کے دل میں اتر گئے تھے، ناصر کھوسہ کو نگران وزیراعلیٰ بنانے کی تجویز بھی جہانگیر ترین نے دی تھی لیکن لیڈر کا کہنا ہے یہ طارق کھوسہ اور ناصر کھوسہ میں فرق نہیں کر سکے، منظور آفریدی کے معاملے میں بھی یہی ہوا، عمران خان نے انھیں نگران وزیراعلیٰ تسلیم کر لیا، ملاقات بھی کر لی، مبارکباد بھی دے دی، مٹھائی بھی کھا لی لیکن پھر اچانک پتہ چلا منظور آفریدی کی شہرت اچھی نہیں اور آپ نے ان کا نام واپس لے لیا۔
آپ کو فاروق بندیال کے بارے میں بھی پتہ نہیں تھا جب کہ آپ اس کے کزن کرم الٰہی بندیال کو ایم پی اے کا ٹکٹ دے رہے ہیں، سمیرہ ملک نے اس کے خلاف سوشل میڈیا پر کمپیئن چلا دی اور آپ نے فاروق بندیال کے گلے سے اپنی چادر اتار لی، کسی نے شبنم کا جعلی اکاؤنٹ بنا کر آپ کا شکریہ ادا کر دیا، آپ نے اکاؤنٹ کی تصدیق تک نہ کی اور خوشیوں کے شادیانے بجانا شروع کر دیے۔
نگران وزیراعلیٰ کے ناموں پر فواد چوہدری اور میاں محمود الرشید کا تماشہ پوری قوم نے دیکھا، گوندل برادرز اپنی اربوں روپے کی کرپشن کے ساتھ پی ٹی آئی میں آ گئے، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو آپ نے آگے بڑھ کر گلے لگا لیا، آپ نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے آصف علی زرداری کو ووٹ دیے، نجم سیٹھی کے 35 پنکچر ہوں، شہباز شریف پر دس ارب روپے کا الزام ہو یا پھر افتخار محمد چوہدری پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام ہو، بے ثبوت الزامات، بے احتیاط گفتگو کوئی حد ہوتی ہے، عائشہ گلا لئی آج بھی اپنے موبائل میں "ٹیکسٹ میسجز" لے کر پھر رہی ہے۔
ماروی میمن بھی چار سال سے لوگوں کو پیغامات اور ایک تصویر دکھا رہی ہے اور ریحام کی کتاب ابھی مارکیٹ میں نہیں آئی لیکن آپ نے خود ہی اپنے کپڑے اتارنا شروع کر دیے، ریحام کی کتاب میں انیلا خواجہ، وسیم اکرم کی مرحومہ بیوی، زلفی بخاری اورمراد سعید کا نام آئے یا نہ آئے لیکن آپ نے ان سب کو پوری دنیا میں بدنام کرا دیا، ریحام خان یہ جرات کرے یا نہ کرے لیکن آپ نے خود ہی کیچڑ اٹھا کر اپنے منہ پر مل لیا، کیا یہ لیڈر شپ ہے؟
ملک کا کوئی بھی ارب پتی اٹھتا ہے اور یہ سیدھا آپ کے ڈرائنگ روم میں جا بیٹھتا ہے، کیوں؟ اور آپ نے کبھی اپنے آگے پیچھے پھرنے والے لوگوں کے بارے میں سوچا، یہ کون ہیں، ان کا بیک گراؤنڈ کیا ہے اور لوگوں میں ان کی رائے کیا ہے؟ آپ کے پرانے دوست آپ سے کیوں ناراض ہیں، خاندان کہاں چلا گیا اور لوگ مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟ آپ نے کبھی ایک لمحے کے لیے سوچا! ۔
عمران خان کو وزیراعظم بننے سے پہلے سنجیدگی سے اپنا تجزیہ کرنا ہوگا، انھیں بری شہرت کے حامل ساتھیوں کو بھی آف لوڈ کرنا ہوگا، پارٹی کو بھی ری آرگنائز کرنا ہوگا، اپنی فیصلہ سازی کی قوت کو بھی بہتر بنانا ہوگا اور اپنی میڈیا پالیسی بھی تبدیل کرنا ہوگی، دنیا میں لیڈر کریکٹر سے بنتے ہیں اور زبان کے ہاتھوں ختم ہوتے ہیں اور عمران خان ان دونوں محاذوں پر مار کھا رہے ہیں، یہ برے انسان نہیں ہیں، پاکستان نے آج تک تین بین الاقوامی شخصیات پیدا کی ہیں، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر عبدالقدیر اور عمران خان، لوگوں کو عمران خان میں امید نظر آتی ہے، لوگ ان کے لیے تن، من اور دھن قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس کے باوجود ان کے کریکٹر پر انگلیاں اٹھتی رہیں اور آج 66 سال کی عمرمیں بھی اٹھ رہی ہیں۔
عمران خان کو زبان پر بھی قابو نہیں، یہ اضطراری لہر میں بول دیتے ہیں اور پھر پوری پارٹی وضاحت کرتی رہ جاتی ہے، آپ شادی کے بعد ریحام کے بارے میں عمران خان کے انٹرویودیکھ لیں اور پھر فواد چوہدری کی 5 جون کی پریس کانفرنس ملاحظہ کر لیں آپ کے سارے طبق روشن ہو جائیں گے، یہ خامیاں عمران خان سے زیادہ ملک کو نقصان پہنچائیں گی، آپ اگر اپنی ذاتی زندگی کونہیں چھپا سکتے۔
آپ اگر اپنے الفاظ کنٹرول نہیں کر سکتے اور آپ اگر پارٹی کے مختلف دھڑوں کو اکٹھا نہیں رکھ سکتے تو پھر آپ لیڈر کس چیز کے ہیں، آپ ملک کیسے چلائیں گے؟ مجھے خطرہ ہے عمران خان نے اگر اپنی خامیوں پر قابو نہ پایا یا پھر کسی بادشاہ گر نے انھیں کنٹرول نہ کیا توان کی حکومت کسی حمود الرحمن کمیشن پر ختم ہوگی اور قوم دہائیوں تک ہاتھ ملتی رہے گی، کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟