آج اور کل
فوج کی ایک حکمت عملی ہوتی ہے "لیٹ اِٹ ہیپن (Let it happen) یعنی ہونے دیں، جب ہو جائے گا تو پھر دیکھیں گے، ہم اسے پسپائی کی اسٹرٹیجی بھی کہہ سکتے ہیں۔
فوج پر جب حملہ ہوتا ہے تو یہ جان بوجھ کر پیچھے ہٹنے لگتی ہے اور جارح فوج فتح کے زعم میں آگے بڑھتی چلی جاتی ہے اور جب اسے چاروں طرف سے گھیر لیا جاتا ہے تو اس کے بعد اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے، ریاست کی طرف سے عمران خان کو مسلسل ڈر گئے ڈر گئے، پیچھے ہٹ گئے، پیچھے ہٹ گئے کا تاثر دیا جاتا رہا تھا اور عمران خان اسے اپنی کامیابی سمجھ کر آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔
خان کی صفوں کا ہر تیسرا شخص جاسوس تھا، یہ زمان پارک کی ہر خبر حکومت کو دیتا تھا اور ساتھ ہی خان کو ہلہ شیری، عمران خان صورتحال کو سمجھ نہ سکا اور یہ کامیابی کی مستی میں آگے بڑھتا چلا گیا، عمران خان کو یہ تاثر تک دے دیا گیا تھا ادارے تقسیم ہو چکے ہیں، اکثریت ہمارے ساتھ ہے، آپ گرفتار نہیں ہونگے اور اگر ہو گئے تو ملک میں انقلاب آجائے گا، سڑکوں اور گلیوں میں لڑائی ہوگی اور دوسری صف کے لوگ پہلی صف کے لوگوں کو ہٹا کر اقتدار پر قابض ہو جائینگے اور پھر عوام آپ کو امام خمینی اور نیلسن مینڈیلا کی طرح زمان پارک سے نکال کر وزیراعظم ہائوس پہنچا دینگے اور پوری فوج آپ کو سیلوٹ کرے گی۔
یہ بھی بتایاگیا پنجاب میں ہر صورت مئی میں الیکشن ہونگے اور جون میں آپکا وزیراعلیٰ حلف اٹھائیگا، یہ بھی تاثر دیا گیا چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے پہلے پورے ملک میں الیکشن کرائینگے، عمران خان کو دو تہائی اکثریت ملے گی اور یہ پارلیمنٹ میں پہنچ کر چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں تین سال اضافہ کر دینگے، عدالت نومبر 2022 کی تمام تقرریوں کو غلط اور منسوخ بھی قرار دے دیگی، عمران خان نے بس ایک کام کرنا تھا، اس نے گرفتاری کے بعد پورے ملک میں آگ لگوا دینی تھی اور اس کے بعد "گیم ہمارے ہاتھ میں ہوگی"۔
یہ سب کچھ پلان کے مطابق ہوا لیکن عمران خان تین باتیں بھول گیا، اول، پاکستان جیسے ملکوں میں اسٹیبلشمنٹ اتنی کمزور نہیں ہوتی کہ یہ ایک دو دن کے احتجاج سے تبدیل ہو جائے یا پسپا ہو جائے، دوم، فوج خواہ کانگو کی بھی ہو یہ اپنی بے عزتی برداشت نہیں کرتی جب کہ ہماری فوج نیوکلیئر بھی ہے اور دنیا کی چوتھی بڑی فوج بھی، یہ اپنی تنصیبات پر حملے کیسے برداشت کریگی اور سوم جو فوج اپنے سابق قائدین کا ساتھ نہیں چھوڑتی وہ موجودہ قیادت کو کیسے چھوڑ دے گی؟
فوج کا کوئی جوان آج بھی جنرل یحییٰ خان اور جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کو اون نہیں کرتا لیکن جب یہ دونوں فوت ہوئے تھے تو انھیں باقاعدہ پرچم میں لپیٹ کر سیلوٹ کے ساتھ دفن کیا تھا لہٰذا اس فوج سے اپنے چیف کے خلاف بغاوت کی توقع حماقت ہی ہو سکتی تھی، فوج میں چین آف کمانڈ بہت تگڑی ہے، جونیئر افسر اپنے سینئرز سے لاکھ اختلاف کریں لیکن جب سینئر فیصلہ کر دیتا ہے تو پھر یہ اُف نہیں کرتے، لال مسجد آپریشن فوج کے لیے مشکل ترین آپریشن تھا۔
دوسری طرف مسجد بھی تھی اور مدرسہ بھی لیکن جب آرڈر آیا تو یہ آپریشن بھی ہوا تھا چنانچہ آپ آج دیکھ لیں وہ ریٹائرڈ جنرلز بھی جو عمران خان کے ساتھی کہلاتے تھے وہ بھی آج نو مئی کو سیاہ ترین دن اور ناقابل برداشت قرار دے رہے ہیں، وہ بھی عمران خان کی حمایت کا رسک نہیں لے رہے، بہرحال عمران خان کے ساتھ لیٹ اِٹ ہیپن ہوا اور یہ گہری کھائی میں جا گرے۔
عمران خان 9 مئی کو اڑھائی بجے گرفتار ہوئے، تین بجے احتجاج کی خبریں آنا شروع ہوئیں اور پھر شام تک ہر طرف سے خوفناک اطلاعات آنے لگیں، جی ایچ کیو پر بھی حملہ ہوگیا، کور کمانڈر لاہور کا گھر بھی جلا، میانوالی میں جہاز کے ماڈل کو بھی آگ لگا دی گئی، قلعہ بالاحصار پشاور پر بھی حملہ ہوا، سرگودھا میں یادگار شہداء بھی توڑ دی گئی، پشاور ریڈیو اسٹیشن اور سوات ٹول پلازہ بھی جلا دیا گیا، کراچی میں رینجرز کی چوکی بھی جلا دی گئی اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر بھی حملہ ہوگیا۔
سویلین پراپرٹیز، پولیس تھانوں، پولیس اہلکاروں پر حملے اور میٹرو اسٹیشن بھی جلا دیے گئے، سپریم کورٹ نے ان واقعات کے بعد عمران خان کو پیش کرنے کا حکم دے دیا اور عمران خان سپریم کورٹ میں وزیراعظم جیسے دبدبے کے ساتھ داخل ہوئے، چیف جسٹس نے انھیں وزیراعظم کی سیکیورٹی اور پروٹوکول بھی دیا، گڈ ٹو سی یو بھی کہا اور اسی پولیس لین میں مہمان بھی بنا دیا جس میں یہ دو راتیں ملزم بن کر رہے تھے، اس کے بعد نوے فیصد عوام نے یہ سمجھنا شروع کر دیا ملک میں واقعی انقلاب آچکا ہے، اداروں کے اندر بھی بغاوت ہو چکی ہے۔
ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا شرپسند چار چار گھنٹے فوجی تنصیبات پر حملے کرتے رہے لیکن انھیں کسی نے نہیں روکا، کور کمانڈر کی رہائش گاہ جلتی رہی مگر فوج آئی، رینجرز آئے اور نہ کوئک ریسپانس فورس آئی، کسی نے مظاہرین کو روکا اور نہ اپنا کور کمانڈر بچانے کی کوشش کی، سپریم کورٹ کو بھی روکنے کی کوشش نہیں کی گئی اور عمران خان کو حراست میں فون کی سہولت بھی دے دی گئی، یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا فوج کمزور اور ریاست ناتواں ہو چکی ہے؟
اس سوال نے پوری قوم کے اعصاب ہلا کر رکھ دیے، بہرحال 15 مئی کو کور کمانڈرز کی اسپیشل میٹنگ ہوئی، فوج کا اعلامیہ آیا، چیف جسٹس آف پاکستان دو قدم پیچھے ہٹے اور مجرم گرفتار ہونے لگے تو لوگوں کی سانس میں سانس آئی، صدر صاحب کو بھی ہوائوں کی تبدیلی کی اطلاع دے دی گئی اور یہ بھی استغفار کی تسبیح پڑھنے لگے اور پھر چیزیں تبدیل ہوگئیں۔
آج صورت حال یہ ہے مجرموں کے ٹرائلز کے لیے اسپیشل اسٹینڈنگ کورٹس بن رہی ہیں، مجرموں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے والوں کے کیس اسپیشل اسٹینڈنگ کورٹس جب کہ سویلین پراپرٹیز پر حملہ آوروں کے خلاف سول عدالتوں میں کیس چلیں گے لیکن فیصلے فوراً ہونگے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا ملے گی، عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف تمام ثبوت جمع ہو چکے ہیں، ملزموں کے اعترافی بیانات بھی آ چکے ہیں اور وہ واٹس ایپ گروپ بھی پکڑے گئے ہیں جہاں سے حملوں کے پیغامات آئے تھے۔
سرکاری اہلکاروں اور سرکاری سہولت کاروں کا ڈیٹا بھی جمع ہو چکا ہے، ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلے گا، عدلیہ میں موجود عمران خان کے ساتھیوں کے ثبوت بھی جمع ہو چکے ہیں، کون کس کو پیغام دیتا تھا اور کون سا فیصلہ کس کے کہنے پر ہوا تھا یہ رپورٹس بھی مرتب ہو چکی ہیں چنانچہ اب کسی بھی وقت کارروائی اسٹارٹ ہو جائے گی، دوسری طرف پارٹی کے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ شروع ہے، پارٹی ویسے بھی کھوکھلی تھی، یہ ون مین شو تھا، مین گیا، شو گیا، دوسرا پارٹی کی ٹیوب میں اسٹیبلشمنٹ نے ہوا بھری تھی، یہ ہوا بھی اب نکل چکی ہے۔
رہی سہی کسر اداروں کے اندر موجود سہولت کاروں کے خلاف کارروائی سے پوری ہو جائے گی، کس جج کی اہلیہ کس افسرکی بیگم کے ساتھ رابطے میں تھی اور کون سا افسر کس کافی شاپ میں کس سے ملتا تھا اور کون زمان پارک کا پیغام کس کو پہنچاتا تھا اور عمران خان نے مسرت چیمہ کو 9 مئی کو کس سے رابطہ کرنے کا کہا تھا یہ بھی ریکارڈ پر آ چکا ہے، صدر صاحب کا کیا کردار تھا اور ذلفی بخاری کو کس نے ملک سے بھگایا اور کس سفارتخانے سے کون کون رابطے میں تھا یہ بھی معلوم ہو چکا ہے چنانچہ اب کوئی چیز خفیہ نہیں رہی۔
عمران خان کو بھی اپنی غلطی کا ادراک ہو چکا ہے، آپ ان کی آج کی تقریریں، رہائی سے بعد کی تقریر اور پچھلے ہفتے کی تقاریر کا تقابل کرکے دیکھ لیں آپ کوعمران خان میں تبدیلی نظر آئے گی، عمران خان کی پوری ٹائیگر فورس بھی اندر ہو چکی ہے، زمان پارک کی رونقیں بھی اجڑ چکی ہیں اور خدائی محافظ بھی روپوش ہو چکے ہیں، اب بس فائنل کارروائی باقی ہے۔
عمران خان میں بیشک بہت خوبیاں ہیں، یہ شخص واقعی ملک کا مقدر بدل سکتا تھا، لوگ آج بھی اس سے اندھی محبت کرتے ہیں، یہ اپنے ان اندھے عاشقوں کو قوم کا سرمایہ بنا سکتا تھا مگر افسوس عمران خان کا غرور، انا اور سیاسی حماقتیں اس کی قبر کھودتی رہیں اور یہ اس میں اترتے رہے، عمران خان کسی کے ساتھ ہاتھ ملانا تک گناہ سمجھتا ہے، یہ ہر شخص کو تم کہہ کر مخاطب ہوتا ہے، اس نے زندگی میں کسی کا جنازہ نہیں پڑھا حتیٰ کہ اپنے اوپر جان وارنے والے کارکن بھی اپنی غائبانہ نماز جنازہ میں اپنے قائد کی محبت سے محروم رہے۔
خان کسی کا شکریہ ادا کرنا بھی اپنی توہین سمجھتا ہے، یہ 12مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے نہیں نکل رہا تھا، اس کا خیال تھا اسے گرفتار کر لیا جائے گا، جج حضرات نے حل پوچھا تو ہمارے لیڈر نے کہا، آپ آئی جی اسلام آباد کو حکم دیں یہ مجھے بحفاظت لاہور پہنچا کر آئے، جج صاحب نے آئی جی کو حکم دے دیا، آئی جی نے چھ سرکاری گاڑیاں بھی ساتھ کر دیں اور عمران خان کی ایک سائیڈ پر ڈی آئی جی اور دوسری سائیڈ پر ایس ایس پی بٹھا دیا، عمران خان زمان پارک پہنچا، گاڑی رکی اور یہ تیزی سے اندر چلا گیا، اس کو ان افسروں کا شکریہ تک ادا کرنے کی توفیق نہ ہوئی جو اپنی جان دائو پر لگا کر اسے گھر پہنچانے آئے تھے۔
آپ دنیا میں کوئی ایک شخص بتائیں جس کے ساتھ عمران خان نے وفا کی ہو یا اس کے احسان کو احسان سمجھا ہو حتیٰ کہ جنرل باجوہ اسے اقتدار میں لے کر آئے اور ہمارے خان نے ان کے ساتھ کیا کیا اور وہ علیم خان اوروہ جہانگیر ترین جنھوں نے اپنا سب کچھ اس پر وار دیا تھا ان کا کیا انجام ہوا اور وہ ملک جس نے عمران خان کو وزیراعظم بنایا تھا عمران خان اور اس کے ساتھیوں نے نو مئی کو اس کے ساتھ کیا کیا بہر حال یہ دنیا ایک عبرت کدہ ہے اور تاریخ ایک قبرستان، اس قبرستان، اس عبرت کدہ میں خدا کے لہجے میں بات کرنے والے ہر شخص کا یہی انجام ہوتا ہے، یہ بس خبر بن کر رہ جاتا ہے۔