Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. 480 Talib e Ilm Muntazir

480 Talib e Ilm Muntazir

480طالب علم منتظر

پہلی کہانی چک نمبر345تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ کی جویریہ نورین کی ہے، اس کا والد ان پڑھ اور بے ہنر تھا، وہ مزدوری کرکے بمشکل اتنے پیسے کماتا تھا جس سے گھر کا چولہا جل سکتا تھا، چاربہن بھائیوں میں صرف جویریہ نورین کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا، گاؤں کے سرکاری اسکول میں پڑھ کر اس نے میٹرک میں 82 فیصد نمبر حاصل کیے۔

علاقے کے کچھ نیک دل لوگوں نے مالی تعاون کیا اور یہ بچی ایف ایس سی میں داخل ہوگئی، جویریہ نورین سال اول میں تھی تووالدہ وفات پا گئی، ایک سال بعد و الد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا، تین بہنیں اور بڑا بھائی شادی شدہ تھے لہٰذا یہ اکیلی رہ گئی۔

اس غربت اور نفسیاتی دباؤ کے باوجود اس نے ایف ایس سی کا امتحان بھی ا علیٰ نمبروں سے پاس کر لیا، والدین کا سایہ سرپر نہیں تھا اور بہن بھائی اس کی روزمرہ ضروریات کے لیے مدد نہیں کر سکتے تھے۔

لہٰذااس نے ٹیوشن پڑھانا شروع کردی، ایف ایس سی اعلیٰ نمبروں سے پاس کرنے کے باوجود میڈیکل کالج میں داخلے کا خواب پورا نہ ہوسکا، ٹیوشن کی کمائی اور ایک بہن کے مالی تعاون سے اس نے گورنمنٹ کالج فار ویمن یونیورسٹی فیصل آباد میں بی ایس آنرز (فزکس) میں داخلہ لے لیا، اب ٹیوشن پڑھا کر رقم کمانا بھی ممکن نہیں رہا تھا۔

تعلیم اور میس کے اخراجات دینے مشکل ہوئے تو اس نے اساتذہ سے مدد کی درخواست کی، یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اسے کاروان علم فاؤنڈیشن کا بتایا، اس نے اسکالرشپ کے لیے درخواست ارسال کی تو اسے فاؤنڈیشن کی طرف سے تمام تعلیمی ضروریات کے لیے مالی مدد فراہم کی جانے لگی، آج یہ طالبہ بی ایس آنرز کے آخری سمسٹر میں زیر تعلیم ہے۔

دوسری کہانی بستی بوہڑ والا ضلع مظفر گڑھ کے فہیم عباس کی ہے، گھر میں غربت اور والدین میں ناچاقی کا ماحول تھا، بچپن میں ایک حادثے نے اسے دائیں بازو سے معذور کر دیا، جب وہ دس سال کا تھا تو والد نے دوسری شادی کرلی، یہ پانچ بھائی والدہ کی ذمے د اری بن گے، والدہ نے گھروں میں صفائی اور برتن دھو کر بچوں کو رزق کھلانا شروع کر دیا، ماں نے فہیم عباس کو بتا دیا تھا اگر وہ تعلیم حاصل کرے گا تو ان کے حالات بدلیں گے۔

فہیم عباس نے چھٹی کلاس سے ہی گاؤں کی ایک دکان پر ملازمت کرلی تھی، وہ صبح دکان پر صفائی وغیرہ کرکے اسکول چلا جاتا، واپسی پر پھر دکان پر آجاتا، شام کے بعد چھٹی ملتی، رات کو باقی گھر والے سو رہے ہوتے تو وہ اسکول کا "ہوم ورک" کررہا ہوتا، یہ سلسلہ جاری رہا، اس نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا، کسی نے مشورہ دیا لائیو اسٹاک اسسٹنٹ کا ڈپلومہ کرلو تو جلد برسرروزگار ہو جاؤ گے۔

محلے داروں اور عزیز و اقارب کی مدد سے اس نے گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں داخلہ لے لیا، اساتذہ اور دوست ا حباب کے تعاون سے میس کا خرچ پورا ہونے لگا، والدہ بھی کبھی کبھا ر گھر سے رقم بھیج دیتی تھی لیکن وہ ا گلے دو سمسٹرز کی فیس نہ دے سکا، چوتھے سمسٹر کی فیس بھی واجب الادا تھی۔

یونیورسٹی کے ایک کلرک نے اسے کاروان علم فاؤنڈیشن کا بتایا، اس نے درخواست ارسال کی اورفاؤنڈیشن نے اسے فوری طور پر اسکالرشپ جاری کردیا، دوران تعلیم اس طالب علم کی تمام تعلیمی ضروریات کے لیے کاروان علم فاؤنڈیشن مدد کرتی رہی، آج یہ نوجوان برسرروزگارہوکر اپنے خاندان کا سہارا بن چکاہے۔

تیسری کہانی جام سمیع اللہ کی ہے جس کا تعلق تحصیل جتوئی کے نواحی گاؤں سے ہے، اس باہمت نوجوان کے والد معذور تھے اور وہ ایک بک شاپ پر کتابیں جلد کرکے بمشکل اتنے پیسے کماتے تھے کہ دو وقت کی روٹی پوری ہوسکتی تھی۔

جام سمیع اللہ اپنے چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، گھر کی غربت اور گاؤں کا ماحول اسے مایوسی کے اندھیروں کی نذر کرنے کے درپے تھالیکن اس کے معذور والد نے اسے قدم قدم پر تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کی، وہ اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی کام کرنا چاہتا تھا لیکن والد نے کہا کہ ہم روکھی سوکھی کھا لیں گے تم ساری توجہ تعلیم پر رکھو، اچھی تعلیم دلوانے کے لیے اسے ملتان کے ایک نجی اقامتی اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔

اسکول انتظامیہ نے اس کی قابلیت دیکھتے ہوئے اس کی فیس اور ہاسٹل کے اخراجات معاف کر دیے، میٹرک کے امتحان میں اس نے 95فیصد نمبر حاصل کیے تو ایک نجی کالج نے اسے اسکالرشپ پرایف ایس سی کی آفر کردی۔

جام سمیع اللہ نے تعلیم کے ساتھ چھوٹی چھوٹی ملازمتیں بھی شروع کر دیں، کبھی کسی ہوٹل پر برتن دھونے اور کبھی کسی اسٹور پر سیلزمین کاکام کیا، تعلیم اور کام اکٹھے جاری رکھنے کے باوجود اس نے ایف ایس سی کے امتحان میں 90فیصد نمبر حاصل کیے، اس کی اگلی منزل ایم بی بی ایس میں داخلہ لینا تھا۔

چھوٹی چھوٹی نوکریوں سے کمائے گئے پیسوں سے نجی اکیڈمی کی فیس دے کر انٹری ٹیسٹ کی تیاری کی اور اس کا داخلہ نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان میں ہوگیا، رشتہ داروں اور دوستوں نے مالی مدد کی اور اس نے ایم بی بی ایس میں داخلہ لے لیا، اخراجات زیادہ تھے لہٰذا اس نے تعلیم کے ساتھ ساتھ نوکری بھی جاری رکھی۔

دوسرے سال میں تعلیمی بوجھ اتنا بڑھا کہ اسے نوکری چھوڑنی پڑگئی، تعلیم کو وقت دینے سے مالی مشکلات نے گھیر لیا، ایک دوست نے اسے کاروان علم فاؤنڈیشن کا بتایا، اس نے اپنی روداد لکھ بھیجی اور کاروان علم فاؤنڈیشن نے اس باہمت نوجوان کو بھی اسکالرشپ جاری کر دیا۔

جام سمیع اللہ نے کاروان علم فاؤنڈیشن کی اسکالرشپ سے ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی اور یہ اس وقت دکھی انسانیت کی خدمت کررہاہے۔

جویریہ نورین، فہیم عباس اور جام سمیع اللہ جیسے ہزاروں نوجوان ہیں جن کے خوابوں کو تعبیر دینے میں کاروان علم فاؤنڈیشن کلیدی کردار ادا کررہی ہے، یہ ادارہ2002 سے اب تک7821طلباء کو24 کروڑ روپے کے اسکالرشپ جاری کر چکا ہے۔

ان میں 1431یتیم طلباء اور 479خصوصی طلبہ (نابینا، پولیوزدہ اور حادثات کی وجہ سے معذور) شامل ہیں، مالی اعانت حاصل کرنے والوں میں ایم بی بی ایس (ڈاکٹر) کے 1835، بی ڈی ایس(ڈاکٹر آف ڈینٹل سرجری) کے 72، فزیوتھراپی(ڈاکٹر آف فزیوتھراپسٹ) کے 77، ڈی وی ایم (ڈاکٹر آف ویٹرنری سائنسز) کے 154، ڈی فارمیسی (ڈاکٹر آف فارمیسی) کے 152، بی ایس آنرز (ہیلتھ سائنسز) کے 95، ایم ایس سی کے 178، ایم اے کے 148، ایم کام کے41، ایم بی اے کے 68، ایم فل کے32، بی ایس سی انجینئرنگ کے 1815، بی کام آنرز کے176، بی ایس آنرز کے 1316، بی سی ایس کے 80، بی ایس آئی ٹی کے 51، بی بی اے کے 107، اے سی سی اے کے 24، سی اے کے 04، بی ایس ایڈ، بی ایڈ کے 75، ایل ایل بی کے29، بی اے آنرز کے67، بی اے کے89، بی ٹیک کے 24، ڈپلومہ ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کے 169، ایف ایس سی کے731، ایف اے کے 115، آئی کام کے59، ڈی کام کے08، آئی سی ایس کے 30طلباء و طالبات کو کروڑوں روپے کے اسکالرشپ جاری کیے گئے۔

کاروان علم فاؤنڈیشن کے دروازے ضرورت مند طلباء کے لیے سارا سال کھلے رہتے ہیں، جہد مسلسل سے میٹرک اور انٹر پاس کرنے والے غریب گھرانوں کے طلباء اس امید اور آس پر رابطہ کرتے ہیں کہ انھیں اعلیٰ تعلیم کے لیے اس ادارے سے اسکالرشپ مل جائے گی۔

کاروان علم فاؤنڈیشن امید ا ور آس کایہ چراغ مخیر پاکستانیوں کے تعاون سے روشن کیے ہوئے ہے، مستحق طلباء کواسکالرشپ فراہم کرنے کا انتظام اتناشان دار ہے کہ ہر طالب علم کو اس کی ضرورت کے مطابق مالی مدد فراہم کی جاتی ہے اس کے علاوہ اسکالرشپ ہولڈر ز طلباء کی بیوہ ماؤں اور ضعیف والدین کو روزمرہ اخرجات اور علاج معالجے کے لیے بھی مالی مدد فراہم کی جاتی ہے تاکہ پاکستان کے ذہین نوجوان مکمل اطمینان کے ساتھ تعلیمی سفر جاری رکھ سکیں۔

گزشتہ برس سیلاب کی تباہ کاریوں سے جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں کے سفید پوش گھرانوں کے طلباء وطالبات بھی اسکالرشپ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کاروان علم فاؤنڈیشن مشکل کی اس گھڑی میں ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں میڈیکل، انجینئرنگ، سائنس و ٹیکنالوجی، کامرس، مینجمنٹ اور سوشل سائنسز کے شعبہ جات میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کا تعلیمی سفر جاری رکھنے میں ہر ممکن مدد کے لیے کوشاں ہے۔

میں ہر سال پاکستان اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اس ادارے کے ساتھ تعاون کی درخواست کرتاہوں کیوں کہ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے ہم پاکستانی معاشرے سے غربت، بے روزگاری اور بدامنی ختم کرسکتے ہیں، اس وقت کاروان علم فاؤنڈیشن کے پاس 480طلبہ کی درخواستیں زیر غور ہیں جنہیں اسکالرشپ جاری کرنے کے لیے پانچ کر وڑ روپے سے زائد رقم درکارہے، یہ رقم اتنی بڑی نہیں ہے۔

پاکستان میں ایسے ہزاروں مخیرحضرات موجود ہیں جو 480 طلبہ کی اکیلے مالی مدد کرکے ان کا مقدر بدل سکتے ہیں۔ میں تمام مخیر پاکستانیوں سے درخواست کرتا ہوں ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ان480 طلبہ کا تعلیمی سفر جاری رکھنے میں مالی تعاون کریں، چند سال بعد یہ نوجوان ملک کے فعال شہری بھی ہوں گے اور اپنے خاندان کا سہارا بھی۔ آپ کاروان علم فاؤنڈیشن کو زکوٰۃ و عطیات حسب ذیل اکاؤنٹ میں ارسال کرسکتے ہیں۔

اکاؤنٹ ٹائٹلKarwan-e-ilam Foundation:

اکاؤنٹ نمبر0240-0100882859:

عطیات کے چیک مکان نمبر604 بلاک Cفیصل ٹاؤن لاہور کے پتے پر ارسال کیے جاسکتے ہیں۔ تفصیلات کے لیے موبائل نمبر 0300-1103030 پر رابطہ کیجیے یا ویب سائٹ

۔ pk www۔ kif۔ com ملاحظہ کیجیے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Netherlands

By Zaigham Qadeer