آسان حج
فریضہ حج کی ادائیگی اور روضہ رسول ﷺ کی زیارت ہر کلمہ گو کی دلی خواہش ہے اور اس مقصد کے لئے عاشقان رسول ﷺ زندگی بھر پائی پائی جوڑ کر زاد راہ اکٹھا کرنا کارثواب سمجھتے ہیں اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ جب مطلوبہ رقم جمع ہو جاتی ہے اور عشاق تیاری شروع کر دیتے ہیں تو اچانک اخراجات حج بڑھنے کا مژدہ سننے کو ملتا ہے ساری تیاریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں، چند روز قبل ایک خوش رو، خوش طبع، خوش لباس اجنبی میرے دفتر تشریف لائے، اپنا تعارف میاں عمران احمد کے نام سے کرایا اور بتایا کہ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو آسان حج کا ایک منصوبہ ارسال کیا تھا اور تجویز دی تھی کہ حکومت حج پالیسی میں استفادہ کرے، اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے اجلاس میں اس منصوبے پر غور کیا اور میاں عمران احمد کو ڈاکٹر قبلہ ایاز نے باضابطہ طور پر اطلاع دی مگر تاحال عملدرآمد کا آغاز نہیں ہو سکا، میاں عمران احمد چاہتے ہیں کہ حکومت پاکستان ملائشیا کے تابونگ حج منصوبے کا جائزہ لے اور اس کی روشنی میں ایک ادارہ تشکیل دے جو حج کے خواہش مند غریب اور متوسط طبقے کے افراد کی معاونت کر سکے۔ میاں عمران احمد تجویز کرتے ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان تابونگ حاجی کے کامیاب ماڈل کو اپنے سامنے رکھیں اور اس کا موازنہ پاکستان میں رائج اسلامک سرمایہ کاری کے نظام سے کریں کیونکہ دونوں نظاموں میں کافی مماثلت نظر آتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس بھی یہ نظام موجود ہے اور کام کر رہا ہے لیکن بس حکومتی عدم دلچسپی کے باعث ہم اس نظام سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔
اسلامی سرمایہ کاری کے نظام سے فائدہ اٹھانے اور عام آدمی کے لئے حج کو آسان بنانے کے لئے سرکاری سطح پر حج فنڈ، کے نام سے ایک پروجیکٹ متعارف کروایا جائے جس کی نگرانی تمام مکتبہ فکر کے علما اور مفتیان حضرات پر مشتمل ایک شرعی بورڈ سرانجام دے۔
چونکہ اب حج کے اخراجات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ہر کسی کے لئے اس کو انجام دینا ناممکن بنتا جا رہا ہے، اس لئے لوگوں کی آسانی کے لئے حکومت کیا کر سکتی ہے، اس حوالے سے چند تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔ ابتدائی طور پر اس پروجیکٹ کے کھاتے تمام اسلامی بینکوں اور ڈاک خانوں میں کھولے جائیں۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں حج فنڈ، کے نام سے علیحدہ کائونٹرز بنائے جائیں۔ حج فنڈ کا ممبر بننے کے لئے ممبر شپ فارم اسٹیٹ بنک کے ساتھ ساتھ تمام اسلامی بینکوں اور ڈاک خانوں پر بھی رکھے جائیں۔
حکومت ابتدائی طور پر کھاتے کھولنے کے لئے ایک لاکھ روپے کی رقم مختص کر سکتی ہے اور جو شخص حج فنڈ کا ممبر بن جائے اسے ایک اکائونٹ نمبر الاٹ کیا جائے تاکہ کھاتہ دارجب چاہے اسٹیٹمنٹ نکلوا سکے۔ حج کی ادائیگی سے پہلے رقم نکلوانے پر پابندی ہو لیکن اگر حج کی ادائیگی کے بعد منافع بچ جائے تو وہ واپس کر دیا جائے \جہاں تک کھاتہ داروں کی رقم سے سرمایہ کاری کرنے کا معاملہ ہے تو اس کے لئے مشارکہ، مضاربہ، مرابحہ، تکافل، صکوک، اجارہ اوربیع المعجل جیسے بہترین اسلامی سرمایہ کاری کے قوانین ہمارے پاس موجود ہے۔
شرعی بورڈ کی منظوری کے بعد حج فنڈ کی رقم سے حلال کاروبار میں حلال طریقے سے سرمایہ کاری کی جائے اور نفع و نقصان کو بھی انہی قوانین کے مطابق تقسیم کیا جائے۔ حکومت پاکستان کے پاس حلال کاروبار میں سرمایہ کرنے کے سینکڑوں آپشن ہر وقت موجود رہتے ہیں اور یہ سرمایہ کاری اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی ہو سکتی ہے۔ پھر اس سرمایہ کاری سے کمائے گئے منافع اور سرمائے کی رقم ملا کر کھاتہ داروں کے حج کے اخراجات برداشت کئے جائیں۔
حج کی ادائیگی کے لئے لوگوں کا انتخاب "پہلے آئو پہلے پائو" کی بنیاد پر کیا جائے۔ پھر جن لوگوں کا انتخاب ہو جائے مگر ان کے منافع اور سرمائے کی رقم ملا کر بھی حج کی ادائیگی کے اخراجات مکمل نہ ہوئے ہوں تو حکومت اس فنڈ میں موجود دوسرے کھاتہ داروں سے قرض لے کر ان کے حج اخراجات کی ادائیگی کرے اور مستقبل میں ہونے والے منافع سے اس قرض کی ادائیگی کر دے۔ لیکن اگر منافع اور سرمایہ حج اخراجات سے زیادہ ہو جائے تو پھر بونس کی شکل میں کھاتہ داروں کو یہ رقم واپس کر دی جائے۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ پاکستانی عوام کی بڑی تعداد صاحب نصاب تو ہے مگر حج کے لئے صاحب نصاب نہیں بلکہ صاحب استطاعت ہونا ضروری ہے۔ پاکستانی عوام کے لئے صاحب استطاعت ہونے کا معیار ریاست نے تقریباً 5لاکھ روپے مقرر کیا ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ حج کی استطاعت کے معیار پر پورا نہیں اتر پا رہے۔ لیکن حج فنڈ کے قیام سے ہو گا یہ کہ لوگ بتدریج صاحب استطاعت ہوتے چلے جائیں گے اور یوں ان کے لئے حج کی ادائیگی نسبتاً آسان ہو سکتی ہے۔ اہم بات یہ کہ ایسا کرنے سے نہ تو حکومت کا اضافی سرمایہ خرچ ہو گا اور نہ ہی اس پر سبسڈی کا بوجھ پڑے گا لیکن عوام حج جیسے فرض کی ادائیگی سود سے پاک اور حلال کمائی کے ذریعے کر سکیں گے۔
یہ کام ہو گا کیسے؟ وزارت مذہبی امور حکومت کے پاس ہے، ملک میں اسلامی بینکوں کا جال بچھا ہوا ہے، پوسٹ آفس کا نظام پہلے سے بہتر ہو گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مفتیان کرام، جیّد علماء اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے بھی ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کے پاس حج فنڈ قائم کرنے اور کامیابی سے چلانے کے لئے تمام چیزیں موجود ہیں، بس کرنے کا کام یہ ہے کہ ان سب وسائل کو ان کی جائز اور مناسب جگہ پر رکھ کر بہترین طریقے سے استعمال کر لیا جائے۔
اسلامی سرمایہ کاری کو عملی شکل دینے کے لئے علماء اور مفتیان کی کئی کئی سالوں کی محنت ہے۔ اگر حکومت ان سے فائدہ اٹھا لے تو لوگ اپنے ہی حلال سرمائے سے حج کے لئے صاحب استطاعت بن جائیں گے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ حج کے لئے سبسڈی دینا ریاست پر فرض نہیں ہے لیکن عوام کی استطاعت بڑھانا یقینا ریاست کی ہی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری حج فنڈ قائم کر کے پوری کی جا سکتی ہے۔
عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ میں بدلنا چاہتے ہیں۔ ریاست مدینہ میں شہریوں کے لئے حج کا سفر آسان ہو تو وزیر اعظم کی دنیا اور آخرت دونوں سنورنے کا امکان ہے۔ حجاج کی دعائوں کی قبولیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔