آزمائش
فیصلہ اب میاں نواز شریف کا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ہی نہیں نیب مقدمات میں ماتحت عدالت کی سزا کالعدم کرانا وطن واپسی کے بغیر ممکن نہیں اور پاکستان پہنچنے پر گرفتاری کا خطرہ ہے، جیل یاترا کاخطرہ مول لئے بغیر نہ تو عدالت سے ضمانت مل سکتی ہے نہ ماتحت عدالتوں سے ملنے والی سزائوں سے بریت کی اُمید۔ ؎
غرض دو گونہ عذاب است جان مجنوں را
بلائے صحبت لیلیٰ و فرقت لیلیٰ
میاں صاحب نازو نعمت میں پلے بڑھے، کسی آدرش، اعلیٰ مقصد کے لئے نہیں، اقتدار کے مزے لوٹنے، کاروباری فوائد حاصل کرنے اور سرکاری اہلکاروں کے ناروا دبائو، ناقابل قبول فرمائشوں سے بچنے کے لئے کوچہ سیاست میں وارد ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق نے 1988ء میں اسمبلیاں توڑ کر شریف النفس سیاستدان محمد خان جونیجو کی حکومت برخاست کی تو میاں صاحب مسلم لیگ پنجاب کے صدر تھے، شریف خاندان کے دائمی خیر خواہ ایک بزرگ صحافی نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ جونیجو صاحب کا ساتھ دیں کہ فوجی آمر نے ان سے زیادتی کی ہے۔ میاں صاحب کا جواب تھا"بزرگو آپ نے تو لٹیا ہی ڈبو دی، میں نے ضیاء الحق کو ناراض کیا تو میری سیاست ختم، میں تو اپنے مربّی کا ساتھ دوں گا اور کل نگران وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھا رہا ہوں"
جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے وہ عادی ہیں نہ کبھی اپنی خوشی سے انہوں نے پوزیشن کی سیاست کی، حالات کے جبر نے انہیں 1999ء میں ایک فوجی آمر کے بالمقابل لاکھڑا کیا تو وہ ایک سال بعد سیاست اور ملک بدری کا دس سالہ سمجھوتہ کر کے جدہ چلے گئے اور اس وقت واپس آئے جب جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کو این آر او دے کر اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری، امریکیوں نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے مل کر اس کی اقتدار سے رخصتی کا فیصلہ کر لیا، 2018ء میں بھی انہیں حالات کے جبر کے تحت جیل جانا پڑا تو وہ جلد ہی اس سے اُکتا گئے اور پھر بغرض علاج لندن چلے گئے۔ مجید نظامی صاحب مرحوم جدہ میں میاں صاحب سے اپنی ملاقات کے حوالے سے برملا بتایا کرتے تھے کہ جب میں نے اُن سے رضاکارانہ جلا وطنی کا سبب معلوم کیا تو میاں صاحب نے جواب دیا " نظامی صاحب جیل کاٹنا مشکل ہے"۔ یہ آج سے بارہ چودہ سال پہلے کی بات ہے جب آتش جواں نہ سہی، بوڑھا ہرگز نہ تھا، دل کا مرض، شوگر اور بلڈ پریشر اس پر مستزاد۔
بیرون ملک روانگی کے بعد توقع یہ تھی کہ مریم نواز شریف بھی والد کی عیادت کے بہانے لندن چلی جائیں گی اور شریف خاندان سازگار حالات کا انتظار کرے گا۔ جنرل پرویز مشرف کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ میاں شہبازشریف پاکستان میں خاندانی کاروبار اور سیاست کو سنبھالیں اور بڑے میاں صاحب لندن، پیرس، نیو یارک میں سیر سپاٹا کریں، برگر کھائیں لیکن عمران خان شائد یہ نہیں چاہتے، ایک فائٹر کی طرح وہ میاں صاحب اور آصف علی زرداری کو ملک کے اندر مدمقابل دیکھنا چاہتے ہیں۔ محترمہ مریم نواز کو انہوں نے باہر نہیں جانے دیا اور اب میاں صاحب کی وطن واپسی پر بضد ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے اگلے ہفتے وطن واپسی کا حکم دے کر میاں صاحب کے لئے مشکل پیدا کر دی ہے، جولائی 2018ء میں میاں صاحب وطن واپس آئے تو اُمید کا دیا روشن تھا شائد انتخابات میں مسلم لیگ (ن) پورے ملک میں نہ سہی پنجاب کی حد تک پانسہ پلٹ دے، میاں شہباز شریف کا دائو لگ جائے اور وہ غیر معمولی روایتی سیاسی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر پنجاب حکومت بنا لیں مگر اب حالات مختلف ہیں، کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے اپوزیشن نے جو توقعات وابستہ کی تھیں، وہ نقش برآب ثابت ہوئیں۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو علم تھا کہ دونوں جماعتوں نے ملک میں صحت کے شعبے کو جو نقصان پہنچایا، ملکی معیشت جس ابتری کا شکار ہے، اس کے سبب پاکستان میں کورونا سے امریکہ، سپین، اٹلی جیسے حالات پیداہو سکتے ہیں اور عمران خان کی حکومت اس کا بوجھ نہیں سہار سکتی، لیکن تھوڑی بہت حکومت کی کوششیں اور زیادہ تر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان اس بحران سے نکل آیا، معیشت بھی سنبھل رہی ہے اور سول ملٹری تعلقات میں بھی تاحال کوئی دراڑ نظر نہیں آتی، میاں صاحب کو وطن واپس آ کر جیل کے علاوہ نئے مقدمات کا سامنا کرنا پڑیگا اور کم از کم 2022ء تک ان کے لئے راوی چین نہیں لکھتا۔
محض جیل یاترا اور نئے مقدمات کا سامنا کرنے کے لئے میاں صاحب وطن واپسی پر تیار ہوں گے؟ ایں خیال است و محال است و جنوں، میاں شہباز شریف وطن واپسی کا مزہ چکھ چکے ہیں تاحال ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کا مرحلہ طے نہیں ہوا، مزید ریلیف ملنا درکنار۔ عدالت سے ریلیف ملنے کی سو فیصد اُمید، "خلائی مخلوق" کی طرف سے شفقت کا ایقان اور عمران خاں کی حکمرانی کو خطرات لاحق ہونے کا امکان ہی میاں صاحب کی وطن واپسی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے ورنہ میاں صاحب کچی گولیاں کھیلے ہیں نہ کروڑوں روپے فیس بٹورنے والے وکیلوں اور خوش فہم مسلم لیگی لیڈروں یا کارکنوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آنے والے۔ 2018ء کا تجربہ سامنے ہے جب ان کے لاہوری بلکہ پنجابی جانثار ایئر پورٹ کا راستہ بھول گئے اور طوطا چشم ووٹروں نے آنکھیں پھیر لیں۔ میاں صاحب کی خواہش ہو گی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی اپیلوں پر لمبی تاریخ پڑ جائے یا عدم موجودگی میں کیس چلتا رہے اور اتنا طول کھینچے کہ پاکستانی سیاست کوئی ڈرامائی موڑ مڑے میاں شہباز شریف کی درپردہ کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوں، عوام عمران خان کی پالیسیوں سے بیزار ہو جائیں یا سول ملٹری تعلقات ہموار نہ رہیں، تبھی وطن واپسی مفید ہے۔ لندن کی آسودہ فضا سے منہ موڑ کر محض جیل یاترا کے لئے لاہور واپسی خسارے کا سودا ہے جو شریف خاندان نے ماضی میں کبھی کیا ہے نہ آئندہ کرنے کا ارادہ۔
اپوزیشن نے FATFبل کی منظوری میں رکاوٹ ڈال کر بظاہر عمران خان اور حکومت کے لئے مشکل پیدا کی مگر در حقیقت اپنی بیڑی میں پتھر ڈال دیے، منی لانڈرنگ کے حوالے سے سخت قانون سازی ریاست کی ضرورت اور ایف اے ٹی ایف کا تقاضا ہے، ریاستی ادارے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل کی منظوری کے لئے حکومت کے پشت پناہ ہیں اور اس کا فائدہ اٹھا کر منی لانڈرنگ میں ملوث اپوزیشن رہنمائوں کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنا حکومت کے لئے آسان، کراچی میں آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف کی ملاقات کے بعد اپوزیشن نے یہ تاثر پختہ کر دیا ہے کہ وہ دبائو کا شکار اور متحد ہو کراس دبائو سے نکلنا چاہتی ہے۔ ایسے میں میاں نواز شریف وطن واپسی کی غلطی کیوں کریں؟ علاج کے لئے کسی ہسپتال میں داخل ہونا اور اسی بہانے مریم نواز کو لندن بلانا الگ بات ہے، ممکن ہے اپوزیشن کی اے پی سی اور احتجاجی تحریک کی تیاری مریم نواز کی بیرون ملک روانگی میں مددگار ثابت ہو کہ عرسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے دستور بھی ہےمجھے تو میاں صاحب کی وطن واپسی کے آثار نظر نہیں آتے کہ ایک بیمار شخص اپنے آپ کو خواہ مخواہ مصیبت میں کیوں ڈالے، پہلے ڈال کر کیا ملا؟