وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
کتاب میں لکھا ہے: بحر و بر فساد سے بھر گئے اور یہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور نہ اپوزیشن۔ افسوس کہ کوئی ایک بھی ایسا نہیں، جس پہ بھروسہ کیا جا سکے۔ امید جس سے باندھی جا سکے۔ ع
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
بالکل ہی غیر متوقع ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کا فیصلہ حیران کن ہرگز نہیں۔ خلا کبھی باقی نہیں رہتا۔ ایک ادارہ فرائض انجام نہ دے تو دوسراآتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں سرپھٹول پر تلی ہوں تو فوج آگے بڑھتی ہے۔ قوت فیصلہ سے انتظامیہ محروم ہو جائے تو قاضی کو فیصلہ کرنا ہوتاہے۔
بگڑی قوم کو ایسے ہی حاکم نصیب ہوتے ہیں۔ ٹی وی کے بے معنی مباحثوں اور اخبار کے سطحی مضامین سے فرصت نصیب ہو تو کتاب پڑھنی چاہئیے۔ تاریخ، وہ دانا لوگ، عمر بھر کا سوچ بچار جو الفاظ اور اوراق میں متشکل کر گئے۔ سرکارﷺ کے فرامین، قندیلیں جو ہمہ وقت ہمہ جہت روشن رہتی ہیں۔ ایک ایک لفظ آپﷺ کا محدثین نے محفوظ رکھا ہے۔ ان لوگوں نے، جو جوہریوں اور کمسن بچوں کی ماؤں سے زیادہ محتاط تھے۔ اللہ کی آخری کتاب، جس کی حفاظت کا ذمہ خود پروردگار نے لیا ہے۔
تاریخ سے سیکھ کر بہت کچھ مغرب نے سنوار لیا۔ ہمارے سامنے تو اور چراغ بھی تھے۔ پروردگار اور اس کے سچّے رسولﷺکے ارشادات۔ فرمایا: تمہارے اعمال ہی تمہارے حاکم ہوں گے۔ جیسی قوم، ویسے لیڈر۔ جواں سال سید ابو الاعلیٰ مودودی نے کہا تھا: جیسا دودھ، ویسا مکھن۔ اجلے، شائستہ اور ایثار کیش آدمی۔ ہاں! مگر جوسبق دوسروں کو پڑھایا تھا، 1954ء میں خود کو بھی بھلا ڈالا۔ الیکشن میں حصہ لیا اور بری طرح ناکام ہوئے۔ نظرِ ثانی کا موقع ملااور بار بار مگر ڈٹ گئے۔ سچ کہا شیخِ ہجویرؒ نے، عامی ہو یا عالم، اس کی اپنی ذات ہی اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ آدمی خود ہی اپنی راہ کا ہمالیہ ہے۔
ایک الجھا ہوا معاشرہ۔ حکومت کا تو کیا رونا، انتہا یہ ہے کہ قال اللہ اورقال الرسولﷺکا ورد کرنے والوں کو بھی کسی اصول کی کوئی پرواہ نہیں۔ زائرین کو معاف کیا جا سکتاہے۔ وبا کی سنگینی کا ادراک تب معلومات کے بہترین ذرائع رکھنے والے حکمرانوں کو بھی نہیں تھا۔ یورپ مارا گیا، امریکہ مارا گیا۔ حکومتِ پاکستان ذمہ دار ہے، سلیقے سے جو زائرین کی دیکھ بھال نہ کر سکی۔ وزیرِ اعظم نے بہانہ یہ تراشا کہ وہ ایک ویرانہ تھا۔ اتنے بے شمار ادارے ہیں، اتنے بے شمار وسائل۔
پانچ لاکھ افراد پر مشتمل وہ فوج ہے، جو بدترین مواقع پر بھی چشم زدن میں بروئے کار آتی ہے۔ یہاں تک بھی گوارا لیکن پھر تبلیغی اجتماع کی اجازت دی گئی۔ اس وقت یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ یہ بہت خطرناک ہوگا۔ لاپرواہی الگ کہ ہوائی اڈوں سے کورونا کے مریض دیہات اور شہروں میں پھیل گئے۔ حکومت ڈر گئی اور ڈری رہی۔ نرمی بجاکہ ہر چیز کو خوبصورت بنا دیتی ہے لیکن اگر خوف کا عنصر شامل ہو جائے تو یہ نرمی نہیں رہتی، فرار ہوتا ہے فرار۔ صدر عارف علوی علما کے سامنے اس طرح جھکے کہ جھک ہی گئے
گریز کشمکشِ زندگی سے مردوں کا
اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست
انسانی جبلتوں کا تعامل عجیب ہے۔ خوف ایک بار زندگی میں شامل ہو جائے، غلبے کی آرزو کے تحت اقتدار کا لالچ غالب آچکے تو حکمران حکمران نہیں رہتے، بھکاری ہو جاتے ہیں۔ خوف ایک ایسا پودا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خودبخود جو تناور ہوتا چلا جاتاہے۔ مشاورت بجا بلکہ لازم، انصاف پر قائم ہوں تو قانون نافذ کرنے والے التجا نہیں کیا کرتے۔ ایوانِ صدر میں عارف علوی ناموزوں نہیں لگتے۔ شائستہ ہیں، خوش اطوار ہیں مگر ایک حکمران کے اوصاف ان میں نہیں پائے جاتے۔ حکمرانی کے بعض تیور کپتان میں یقیناہیں۔ یہ الگ بات کہ ذہن سیاسی نہیں اورمشیر بدترین، چنانچہ ہمیشہ کنفیوژن کا شکار۔
ہوائی اڈوں پر سرکاری اہلکار اور تبلیغی جماعت والے اپنا کارنامہ انجام دے چکے تو دوسرے مکاتبِ فکر پیچھے کیوں رہتے۔ پیہم ایک جنگ ہے، جو مختلف فرقوں میں جاری رہتی ہے۔ یومِ شہادتِ امیر المومنینؓ پر جلوس ہمیشہ نکلا کرتے ہیں۔ مجالس ہمیشہ برپا ہوتی ہیں۔ کبھی کسی کو اعتراض نہ تھا اور ہوتا بھی کیوں لیکن اب کی بار پابندی لگی تو سرکاری حکم کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ اسی پر بس نہیں، خلاف ورزی پر کچھ لوگ گرفتار ہوئے تو حکومت کو دھمکیاں دی گئیں۔ ایک مشہور عالمِ دین کی تقریر سوشل میڈیا پہ وائرل ہے۔ چیخ چیخ کر وہ کہہ رہے ہیں: تم ہوتے کون ہو، یہ بتانے والے کہ ہم جلوس نکالیں یا نہ نکالیں۔ وہ خوب جانتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کے اس فرمان سے یقینا آگاہ ہوں گے کہ چھوٹے سر والا کوئی حبشی بھی تمہارا امیر بنا دیا جائے تو اس کی بھی اطاعت کرو۔ مسئلہ وہی ہے۔ اپنی ذات اور اپنے گروہی مفادات ہی جب اہم ہوں تو اہم ترین اصول بھی خس و خاشاک بن کے اڑ جاتے ہیں۔ ایران میں ہوتے تو ساری زندگی جیل میں بتا دیتے۔ یہ پاکستان ہے، سرزمینِ بے آئین۔
کورونا کے باوجود کاروبارِ حیات مستقل طور پر معطل کرنا ممکن نہ تھا۔ پہلے دن سے یہ بات واضح تھی کہ رفتہ رفتہ اسے کھولنا ہوگا۔ رفتہ رفتہ، اہتمام اور قرینے کے ساتھ۔ صرف اس لیے نہیں کہ خدا کی مخلوق بھوک کے حوالے نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے بھی کہ معیشت مرجھا جائے تو حکومت باقی رہ سکتی ہے اور نہ ملک کا دفاع ممکن ہے۔ حکمران ہوش مند ہوتے اور اپوزیشن مخلص تو منصوبہ بندی کے تحت ایک کے بعد دوسرا دروازہ کھول دیتے۔ وہ نہ کر سکے تو عدالتِ عظمیٰ کو فیصلہ کرنا پڑا اور وہ بھی عجلت میں۔ سپریم کورٹ کا خیر مقدم کیا گیا۔ دن بدن معیشت کا دم گھٹتاجا رہا تھا۔ تاجر اور صنعت کار بے تاب تھے، مزدور نڈھال۔ قائدِ اعظمؒ کے بعد ریاست اور افراد میں اعتماد کا رشتہ کبھی تھا ہی نہیں۔ سول سروس کرپٹ ہے یا اللہ کی مخلوق سے بے زار۔ سیاست دان ریاکار ہیں اور حکومت ناکردہ کار۔ ایسے میں یہی ہونا تھا۔
عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں اور ایک عامی کی جرات بھی کیا کہ اعتراض کرے۔ لیکن پھر یہ خیال آتا ہے: کیا یہ ممکن نہ تھا کہ ایک آدھ دن اور دیا ہوتا۔ دوسروں کی سنتے۔ عبوری حکم جاری کیا ہوتا۔ اس جملے نے دل کو دکھ سے بھر دیا کہ حفاظتی انتظامات کی خلاف ورزی کے باوجود کوئی دکان بند نہ کی جائے گی۔ بہت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ حکومت کو زنجیر پہنا دی جائے تو کیا پھر بھی وہ حکومت رہے گی؟ اور اگر حکومت نہ رہے گی تو کیا ہوگا۔
کتاب میں لکھا ہے: بحر و بر فساد سے بھر گئے اور یہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور نہ اپوزیشن۔ افسوس کہ کوئی ایک بھی ایسا نہیں، جس پہ بھروسہ کیا جا سکے۔ امید جس سے باندھی جا سکے۔ ع
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ