سیّدالطائفہ
"اللہ کے نزدیک عقلِ انسانی کا سب سے بڑا مغالطہ ترجیحات کی ترتیب میں برپا ہوتاہے۔ اگر ترجیح اول پروردگار نہیں تو زندگی کی بساط سے آدمی ناکام اٹھے گا"۔ یہ عصرِ رواں کے عارف کا قول ہے۔
دارا شکوہ ایسا شخص ہی یہ جسارت کر سکتا ہے کہ ایک نظر ڈال کر میاں میرؒ نے اسے ولایت بخش دی۔ مقامات اس طرح نہیں ملتے۔ عمر بھر کی کمائی ہوتی ہے۔ ایک ایک دھاگا بٹا جاتا ہے، حتیٰ کہ پیراہن سی لیا جائے۔ نامور افسانہ نگار اشفاق احمد مرحوم نے درویش سے پوچھا کہ کیا وہ صوفی بن سکتے ہیں؟ جواب ملا: خان صاحب! اس عمر میں؟ اتنی بڑی انا کے ساتھ؟ اسی بات پرآدمی یقین کرتا ہے، جو اسے خوش آئے۔ الحاد کی تحریکوں کے زیرِ اثر دارا شکوہ کو صوفی مان لیا گیا، اورنگ زیب عالمگیر کو مجرم۔
نواحِ جھنگ میں کھیتی باڑی کرنے اور عام آدمی کی زندگی جینے والے حضرت سلطان باہوؒ کی شہادت مختلف ہے۔ عالمگیر کو وہ ولی مانتے ہیں۔ مانتے ہی نہیں، بادشاہ کی رہنمائی کے لیے "اورنگِ شاہی" کے عنوان سے ایک کتاب آپ نے رقم کی۔ اگر آپ دانشور ہیں تو آسان نسخہ یہ ہے کہ آپ اس کتاب کو جعلی کہہ دیں۔ اگر یہ بھی نہیں تو سلطان باہوؒ کو صوفی تسلیم کرنے سے انکار کر دیں۔
لوحِ زماں سے فقیر کا نقش مگر مٹایا نہیں جا سکتا۔ جس شخص کو اگلے ادوار نے شاعری سے پہچانا، خود اس کا زمانہ اسے عارف کے طور پہ جانتا تھا۔ شاعری تو اس شاخ کا صرف ایک پھول تھا۔ مولانا روم کی طرح کوئی اقبالؒ میسر آتا تو ہمارے آفاق پہ ہر طرف وہ دمک رہے ہوتے۔ خیر، دمک تو اب بھی رہے ہیں۔ باہونے فرمایا:
ہو سکا، جس پہ نہ دربارِ رسالت سے کرم
بند اس کے لیے انوارِ خدا کے درشن
اور یہ فرمایا:
یہ اجازت شہِ کونین سے باہو کو ملی
خلق کو بہرِ خدا فقر کی تلقین کرے
یہ شاعری نہیں۔ اللہ کے آخری رسول ﷺکا فرمان ہے کہ جس نے کوئی بات آپﷺ سے منسوب کی، آگ میں ڈالا جائیگا۔ پھر ایک صاحبِ ایمان اللہ سے کوئی بات کیونکر منسوب کر سکتا ہے، ایک بندہ ایک تسلیم و رضا۔ کتنے شاعر ہیں کہ فقط شاعر مگر ہم انہیں صوفی مانتے ہیں، حتیٰ کہ وارث شاہ کو۔ گستاخی معاف، بلہے شاہ بھی نہیں۔ متصوّف وہ ضرور تھے۔ صوفیا کے ہم نشیں ان کے اساتذہ سے ہم آشنا ہیں۔ اپنے دور کے مذہبی ریاکاروں کا پردہ جس شجاعت کے ساتھ بھلّے شاہ نے چاک کیا، شعر کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں۔ مگر بلہے شاہ کے سامنے اگر کوئی انہیں صوفی کہتا تو ان کے عتاب کا شکار ہوتا۔ شاہ عنایتؒ کو اس زنجیر کی اوّلین کڑی کہا جاتا ہے۔ اہلِ صفا میں سے تھے، اگرچہ بَھگتی تحریک سے بھی تھوڑے متاثر اور سلطان باہونے یہ کہا:
کسی کو شرع سے باہر کہاں نکلنے دے
وہیں وہیں ہے طریقت، جہاں جمالِ یقیں
ایک نکتہ ہے جو عالمِ دین اور درویش کے درمیان خطِ امتیاز کھینچتا ہے۔ ہر عارف عالم ہوتا ہے مگر ہر عالم عارف نہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے لکھا ہے کہ دو بار انہیں خلق میں جانے کا حکم دیا گیا۔ انہوں نے معافی اور استثنیٰ کی التجا کی، حتیٰ کہ تیسری بار ارشاد ہوا۔ فرمایا: میں نے گزارش کی: مخلوق سے مجھے آزمایا نہ جائے۔ فقر، حسنِ نیت کا نام ہے، جو حسنِ علم کی راہ سے حسنِ عمل میں ڈھلتا ہے۔
جنیدِ بغدادؒ نے ایک فقیر کا حال بیان کیا ہے۔ ببول کے کانٹوں پر پڑا تھا۔ کہا: یادِ الٰہی کا ایک لمحہ کھو گیا تھا، اس کے فراق میں ہوں۔ وہ اس کے لیے دعا کرتے رہے۔ ایک مدّت کے بعد اسی راہ سے گزرے تو فقیر کو اسی حال میں پایا۔ اس نے اقرار کیا کہ کھوئی ہوئی وہ ساعت اسے مل گئی تھی۔ تعجب سے پوچھا، اب کیوں خودکو اذیت دیتے ہو۔ کہا: جس مقام سے یہ نعمت عطا ہوئی، اسے ترک کیسے کروں؟
ناچیز کو یقین نہ ہوتا اگر غنیتہ الطالبین اور کشف المحجوب میں اس سے بھی زیادہ حیران کن واقعات پڑھے نہ ہوتے۔ کشف المحجوب میں لکھا ہے: میرے مرشد امام ابوالفضل ختلی کے مزار سے ایک سفید کبوتر نکلا اور آسمان کو پرواز کر گیا۔ حیرت کا مارا میں سوچتا رہا۔ خواب میں شیخ کی زیارت نصیب ہوئی تو یہ فرمایا: یہ صفائے قلب کی شہادت ہے، جو پروردگار کی رحمت سے عطا ہوئی۔
شیخ کے اقوال میں سے ایک یہ ہے "یہ دنیا ایک دن کی ہے اور اس دن کا ہم نے روزہ رکھ لیا " اعلان نہیں، یہ عمل تھا۔ سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ نے لکھا ہے: کیچڑ میں سے شیخ گزرے مگر پاؤں آلودہ نہ ہوئے۔ تعجب کیا تو فرمایا: اللہ کے ساتھ بندے کا معاملہ جب ٹھیک ہو جاتا ہے تو ایسا بھی ہوتا ہے۔
جنیدِ بغداد نے کہا تھا: دنیا کو دل کے دروازے پہ بٹھا رکھا ہے۔ جس چیز کی ضرورت ہو، ہاتھ بڑھا کے لے لیتے ہیں۔ دل میں داخل ہونے کی اسے اجازت نہیں۔ تمام آئندہ زمانوں نے شیخ کے قول پر شہادت دی۔ اسی لیے انہیں سیدالطائفہ کہا گیا۔ وہ منتخب لوگ، اللہ جن کی ترجیح اوّل و آخر ہے۔ شکر گزاری کیساتھ ہمہ وقت جو اس کی بندگی کرتے ہیں۔ یقین کی دولت عطا ہوتی ہے: الا ان اولیاء للّٰہ لا خوف علیہم ولاھم یحزنون۔ اللہ کے دوست، خوف اور غم سے آزاد۔ سلطان العارفین کے چند اشعار نقل ہیں۔
یہ کھینچ دیتا ہے ہر غیر پر خطِ تنسیخ
یہ کھول کھول دے، اسرارِ ذوالجلال، یقیں
اسی سے ملتی ہے تقریبِ اولیا میں جگہ
شکستِ غیر یقیں، منزلِ وصال یقیں
"کہو کہ اللہ ایک ہے۔ وہ بے نیاز ہے۔ کسی نے اسے جنا اور نہ کوئی اس سے جنا گیا" ہاں مگر اس کی ہمسائیگی ممکن ہے۔ جو آرزو رکھتا ہے، پالتا اور سینچتا ہے، وہ اسے پا لیتا ہے۔
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
سبھی محترم، صوفیا کی اگر مانی جائے تو سلطان العارفینؒ کا مرتبہ شاہ عنایت، بلّہے شاہ، میاں محمد بخش ایسے شعرا سے بہت بلند ہے، حتیٰ کہ مولانا رومؒ، اور عطارؒ سے بھی، حالانکہ عطارؒ وہ ہیں، جن کے بارے میں مولانا رومؒ نے یہ کہا تھا:
ہفت شہر عشق در عطار گشت
ما ہنوز اندر خمِ یک کوچہ ایم
علماء نے عشق کے سات شہروں کی سیاحت کی۔ میں تو ابھی تک ایک کوچے کے موڑ پر کھڑا ہوں۔ خواجہ غلام فرید کی عظمت میں کوئی کلا م نہیں۔ اقبال نے کہا تھا: جس قوم میں فرید ایسا شاعر موجود ہو، وہ مجھے کیوں پڑھے گی۔ اقبال کی قسمت مگر ایک مقامِ بلند لکھا گیا، کارِ تجدید۔ پروردگار جسے چاہتا ہے، چن لیتا ہے۔
خواجہ غلام فرید کے برعکس جوچاندنی میں دمکتے ریت کے ٹیلوں سے تشبیہات اخذ کرتے ہیں، سلطان باہو فلک نشیں ہیں۔ زندگی کو زمین سے نہیں، آسمان سے دیکھتے ہیں۔ ایک اعتبار سے ملٹن کی طرح۔ وجد کی ایک سرشاری"The Paradise Lost" کی ایک ایک سطر میں جھلکتی ہے۔ سلطان باہوؒ میں اس سے کہیں بڑھ کر، ایسی کہ صدیوں سے آدمی حیران ہے۔ فیض احمد فیض ؔنے کہا تھا کہ ملٹن کا انہوں نے ترجمہ کرنے کی کوشش کی مگر راہِ سلوک کا ایک مسافر بازی لے گیا۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور کا ایک طالبِ علم تھا۔ تو آئیے، وہ جملہ پھر سے پڑھیں۔ اللہ اگر توفیق دے تو اس پر غور کریں۔ "اللہ کے نزدیک عقلِ انسانی کا سب سے بڑا مغالطہ ترجیحات کی ترتیب میں برپا ہوتاہے۔ اگر ترجیح اول پروردگار نہیں تو زندگی کی بساط سے آدمی ناکام اٹھے گا۔ "