مجدّد
خود اپنے بارے میں یہ ارشاد کیا تھا: یا رب میری فکر کا سرچشمہ اگر قرآن نہیں ہے تو روزِ قیامت مجھے سرکارﷺ کے بوسۂ پا سے محروم کر دینا۔ جواں سال سید ابوالاعلی مودودی کو اقبال ؔکے انتقال کی اطلاع راستے میں ملی۔ لاہور میں ملاقات کے بعد دلی جا رہے تھے کہ راہ میں خبر ہوئی۔ فوراً ہی "اقبالؔ میرا نفسیاتی سہارا" کے عنوان سے انہوں نے ایک مضمون لکھا۔ کہا کہ قرآن اقبالؔ کے لیے شاہ کلید تھا۔ وہ چابی جس سے ہر تالا کھل سکتا ہے۔ لکھا: جس فلسفے کے دوچار جام پی کر لوگ بہکنے لگتے ہیں، مرحوم اس کے سمندر پیے بیٹھا تھا۔ جوں جوں اس کی تہہ میں وہ اترتا گیا، قرآن کریم پر اس کا ایمان پختہ سے پختہ تر ہوتا گیا۔
عجیب بات یہ ہے کہ جن دو عظیم نادر روزگار ہستیوں نے مسلم برصغیر پہ نجات کا دروازہ کھولا، دونوں مغرب کی تعلیم یافتہ تھیں۔ دونوں قرآن کریم کے طالب علم تھے۔ عام طور پر قائد اعظم کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ وہ دینی علوم سے شغف نہ رکھتے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ نہ صرف وہ خود قرآن کریم کا مطالعہ کرتے بلکہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی اس کارِ خیر میں ان کی مدد کیا کرتی تھیں۔ قرآن کے اوراق میں چندے انہماک کے بعد، وہ نوٹس بناتیں اور بھائی سے مکالمہ کیا کرتیں۔
انہیں دنوں کا ایک واقعہ یہ ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے علماء کا ایک وفد قائد اعظم کی خدمت میں روانہ کیا۔ ان سے یہ گذارش کی کہ دین اور سیاست دو الگ چیزیں نہیں۔ جیسا کہ ان کا مزاج تھا، آپ نے دلائل پیش کرنے کی درخواست کی۔ بحث تمام ہو چکی تو آپ نے فرمایا: آج کے بعد میں یہ بات نہیں کہوں گا۔ پھر ان میں سے ایک نے جھجکتے ہوئے کہا: اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک ذاتی گذارش بھی ہے: پابندی سے آپ کو نماز پڑھنی چاہئے۔ اپنی کرسی پر آپ ذرا سا آگے جھکے اور یہ کہا: آپ کا حق ہے کہ مجھے نصیحت کریں اور میرا فرض ہے کہ سنوں۔ اب تک مجھ سے کوتاہی ہوتی رہی۔ کوشش کروں گا کہ آئندہ نہ ہو۔
قائد اعظم کو جو لوگ ایک سیکولر رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، سامنے کا ایک نکتہ وہ بھول جاتے ہیں۔ نصف صدی پر پھیلی اپنی پوری سیاسی زندگی میں ایک بار بھی "سیکولرازم" کا لفظ انہوں نے استعمال نہیں کیا۔ یہ 1895ء تھا جب پہلی بار یہ اصطلاح منظر عام پر آئی۔ پوپ کی طرف سے ہولی اوکس نام کے ایک پادری کو انجیل کا ایک نسخہ مرتب کرنے کا فرض سونپا گیا۔ اپنا کام وہ نمٹا چکا تو وہ انجیل سے منحرف ہو چکا تھا۔
یہ راز اس پر کھل چکا تھا کہ انجیل اب اللہ کا کلام نہیں رہا۔ بہت کچھ اس میں مسخ ہو چکا۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ مذہب سے بیزار ہی ہوگیا۔ ناراض آدمی کی اب رائے یہ تھی کہ مذہب کو قومی زندگی کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ آئن سٹائن سے بھی ایک قدم آگے، جس نے کہا تھا: کائنات کا آہنگ یہ کہتا ہے کہ ضرور اس کا کوئی پروردگار ہے۔ زندگی اربوں اور کھربوں نازک توازنوں پر قائم ہے اور یہ کسی خالق کے بغیر ممکن نہیں لیکن میں ایک ذاتی خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتا۔ آدمی کا اگر ایک ذاتی خدا نہ ہو تو پھر وہ کیسا خدا ہے۔
یہ اقبالؔ کے دن ہیں۔ وہ حیرت انگیز آدمی جس کی ایک مکمل سوانح کبھی نہ لکھی گئی۔ شاید لکھی ہی نہیں جا سکتی۔ قوم کے ادبار پر غور کرتے ہوئے اقبالؔ آج بہت یاد آئے۔
آہ کس کی جستجو رکھتی ہے آوارہ تجھے
راہ تو راہرو بھی تو رہبر بھی تو منزل بھی تو
کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا
ناخدا تو بحر تو کشتی بھی تو ساحل بھی تو
اے بے خبر تو جوہر آئینۂ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
شاید ہی کوئی نظم اور کوئی غزل اقبالؔ کی ایسی ہو، جسے پڑھتے ہوئے قرآن کریم کی کسی آیت یا حدیثِ رسولﷺ کا خیال نہ آئے۔ عالی مرتبتﷺ کے اقوال میں سے ایک یہ ہے: زندگی ایک سواری ہے۔ اگر تم اس پر سوار نہ ہو گے تو وہ تم پر سوار ہو جائے گی۔
فارسی زبان کے سب سے محبوب شاعر حافظ شیراز کے بارے میں کہا جاتا ہے اوّل اوّل اپنے ہنر میں وہ ناکام رہے۔ مشاعروں میں جو تب ایرانی ثقافت کا ایک اٹوٹ حصہ تھے، کبھی داد نہ پا سکے۔ گاہے تمسخر کا نشانہ بنتے۔ پھر ایک دن وہ بابا کوہیؒ کے مزار پر گئے۔ روئے اور فریاد کی: یا رب میں نے تجھ سے ایک مصرعہ موزوں کے سوا کیا مانگا تھا۔ پھر شعر کے آفتاب پر اس طرح دمکے کہ آج تک دمک رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایسی ہی کوئی شب، یا ایسی ہی کوئی سویر اور شام اقبالؔ کے دل و جان پر بھی بیتی ہوگی۔ وہ آدمی جو ابتدا میں اس طرح کی نظمیں لکھتا رہا ؎
اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
آخر کو اس رفت میں پہنچا کہ تاریخ میں اس کی کوئی دوسری نظیر نہیں۔ 1992ء میں تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں دس لاکھ کا مجمع سحر سے شام تک اقبالؔ کا ایک مصرعہ پڑھتا رہا ع
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
اس گہرے خواب، اس گہرے خواب، اس گہرے خواب سے جاگ اٹھو۔ جہادِ افغانستان کے اولین برسوں میں افغان قیدی سگریٹ کی خالی ڈبیوں پر اقبالؔ کے اشعار دوسروں کو تحفے کے طور پر بھجوایا کرتے۔ ایرانی انقلاب کے ہنگام اقبال کاؔ پرچم انقلابیوں کے ہاتھ میں تھا۔ جب ان سے سوال کیا جاتا کہ وہ خود اپنے شاعروں کو کیوں بھول گئے تو جواب ملتا: انقلاب کی رزم گاہ میں صرف اقبالؔ ہی ہماری شمشیر اور ڈھال ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کشمیر کی تحریک آزادی میں اقبالؔ کی شاعری کا کردار کتنا اور کس قدر اہم ہے۔
شدید ترین مصروفیات میں سید علی گیلانی نے ان کی سوانح رقم کی۔ قوم کو ترغیب دی کہ وہ اپنے اس عظیم محسن سے اکتساب فیض کریں۔ ایک ممتاز مسلم مفکرنے کہا تھا: عالم اسلام میں دانشور تین طرح کے ہوتے ہیں۔ اوّل وہ جو کسی بھی موضوع پر قرآن کریم اور احادیث کے سب متون یکجا کر سکیں۔ دوسرے وہ جو ان سے درست نتائج اخذ کرنے کی تاب رکھتے ہوں۔ لیکن ان سے بڑھ کر ایک اور آدمی بھی ہوتا ہے جسے عارف کہنا چاہیے۔ وہ نہ صرف قرآن کریم اور سنت رسول کا ادراک رکھتا ہے بلکہ پوری انسانی تاریخ کے تناظر میں بات کر سکتا ہے۔ اقبالؔ یہی تھے، اپنے عصر کے مجدد۔
پوری انسانی تاریخ میں کبھی کسی شاعر نے اتنے بہت سے معاشروں کو اس قدر متاثر نہیں کیا۔ اردو زبان کا لب و لہجہ انہوں نے بدل ڈالا۔ اسے مردانگی عطا کی۔ عصر حاضر کی سیاست کا اس قدر غیر معمولی فہم تھا کہ ہندوستان کے مسئلہ کا بالآخر وہی حل قابل قبول ٹھہرا، جو آپ نے تجویز کیا تھا۔ دنیا سے اٹھے تو اس معاشرے کو وہ بدل چکے تھے۔ 63برس پہلے جس میں انہوں نے جنم لیا تھا۔ قائد اعظم نے کہا تھا: اگر پاکستان کے گورنر جنرل شپ اور اقبالؔ میں سے کسی ایک کا انتخاب مجھے کرنا پڑے تو بلا تامّل میں اقبالؔ کا انتخاب کروں گا۔
خود اپنے بارے میں یہ ارشاد کیا تھا: یا رب میری فکر کا سرچشمہ اگر قرآن نہیں ہے تو روزِ قیامت مجھے سرکارﷺ کے بوسۂ پا سے محروم کر دینا۔