ماتمِ یک شہر آرزو
کب تک، آخر کب تک تاریخ کے چوراہے پرہم پڑے رہیں گے؟ کب ہماری آنکھ کھلے گی۔ کب سوچیں گے؟ کب تجزیہ کریں گے؟ سوئے منزل کب روانہ ہوں گے؟ پاکستان الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے تنازعے کو چھوڑیے۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
سوال یہ ہے کہ آئے دن اداروں میں تصادم کیوں ہے۔ کیسا یہ سماج ہے، بنیادی تضادات بھی جو حل نہیں کر سکتا۔
کہا یہ گیا تھا کہ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہوگا۔ سماجی اور معاشی انصاف کا نمونہ، پولیس، عدلیہ اور افسر شاہی آسانی سے جہاں عدل عطا کرے گی۔ حکمران جواب دہ ہوں گے۔ صدیوں سے چلے آتے جبر سے جہاں عام آدمی نجات پائے گا۔ ایک ایسا ملک دنیا جسے رشک کی نگاہ سے دیکھے گی۔ پاکستان کا پہلا پاسپورٹ ڈاکٹر محمد اسد کو پیش کیا گیا۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر۔ پھر ایک نظریاتی ادارے کے سربراہ بنائے گئے کہ اسلام کے ابدی اصولوں کی روشنی میں مستقبل کی صورت گری کرسکیں۔
قرآنِ کریم کے مفسر کہ آج بھی فیض جاری ہے۔ ایک یہودی النسل خاندان سے تھے۔ پچھلی صدی کے اوائل میں وقائع نگار کی حیثیت سے مشرقِ وسطیٰ گئے۔ بدوؤں کے باطن میں جھانک کر دیکھا تو مسلمان ہو گئے۔ لیبیا سمیت، جس کے افسانوی کردار عمر المختار سے ان کا تعلق رہا، مسلم دنیا میں آزادی کی کتنی تحریکوں کا ہاتھ بٹایا۔
سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز سے ذاتی مراسم رہے، جن کے بارے میں لکھا "دائمی عظمت سے وہ بس ایک قدم پیچھے رہ گئے۔" بدوؤں میں رہے تو عربی زبان پہ دسترس پائی۔ ان کی خودنوشت Road to Meccaکو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ ریاض کی لائبریری میں پابندی سے آنے والے ایک چودہ سالہ لڑکے کو دیکھا۔ کہتے ہیں کہ تب پہلی بار اس کے والد سے ملاقات کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس نوجوان کا نام شاہ فیصل تھا۔
پھر برصغیر آئے۔ اقبالؔ کے ذاتی دوست۔ پاکستان کے لیے خود کو وقف کر دیا، قائدِ اعظم جسے ماڈرن مسلم سٹیٹ کہا کرتے۔ یہ الگ بات کہ آخر کار مایوس ہو کر لوٹ گئے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں بابائے قوم نے کہا تھا: کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام سے الگ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل ہم چاہتے ہیں۔ کیا ہم ایک پاکیزہ معاشرے کی جستجو میں ہیں؟
کیا یہ واقعی ایک ریاست بھی ہے یا نیم ریاست؟ کیا یہ ایک قوم بن چکی یا محض افراد کا ایک مجموعہ کہ ہر فرد کو اپنی فکر لاحق۔ وہ سرزمین جو کبھی لشکروں کی رہ گزر تھی، اب نظریات کی ہے۔ مغرب کے دریوزہ گر یا کٹھ ملّا۔
نواز شریف کے نفسِ ناطقہ احسن اقبال کہتے ہیں کہ اپوزیشن متحد ہو تو چوبیس گھنٹے میں حکومت گر جائے۔ ادھر اسلام آباد کے تاجروں نے کرونا کے باوجود چھ بجے کاروبار بند کرنے سے انکار کر دیا۔ پولیس والے پہنچے توبند کر کے باہر سے تالے لگا دیے۔
یہ کیسی اسٹیبلشمنٹ ہے؟ یہ کیسی حکومت ہے اور ہم کیسے لوگ۔ ابھی ابھی دودھ کا جو گھونٹ میں نے پیا ہے کیا واقعی وہ دودھ ہے؟ جو شہد خریدا تھا، اس کے فروخت کنندہ سے پوچھا کہ کیا کبھی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا ہے؟ اگرچہ بھلا آدمی ہے، کہنا اس کا یہ تھا کہ وہ قابلِ اعتماد لوگوں سے خریداری کرتاہے۔ اس پر مگر مائل نہ ہو سکا کہ تجزیہ کروالے۔ ماضی میں زندہ رہنے پر ہم کیوں مصر ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے اس قدر گریز کیوں؟ اپنے تصورات کی دنیا میں آسودہ رہنے پر تلے ہوئے کیوں۔
گوالے یا تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کرنے والی کمپنیاں، سب جانتے ہیں کہ بازاری د ودھ مشکوک ہوتاہے۔ شہباز شریف میں کبھی ولولہ جاگ اٹھتا تو گوالوں کا گھیراؤ کیا جاتا۔ سینکڑوں من دودھ سپردِ خاک کر دیا جاتا۔ خوراک کے ماہرین میں سے ایک ہمیں بتاتا ہے کہ بیسن کے نام پر جو چیز ہم خریدتے ہیں، دراصل مونگ، مسور اورماش کی گھن کھائی دالیں ہوتی ہیں۔ پیس کر ان میں رنگ ملا دیا جاتا ہے۔ بہت سے قصاب گوشت میں پانی ملاتے ہیں کہ وزن بڑھ جائے۔ معلوم نہیں، اب عالم کیا ہے، دو سال پہلے یہ شکایت عام ہوئی کہ لاہور کے قصاب گدھے کا گوشت بیچتے ہیں۔ لکشمی چوک میں، جس کے کھانے لاہوریوں کو مرغوب ہیں، مکھن کے نام پر جو چیز استعمال ہوتی ہے، اصلاً بناسپتی گھی ہوتاہے۔ تھوڑے سے دہی میں بہت سا گھی انڈیل کر بلو لیا جاتا ہے کہ مکھن کی خوشبو آئے۔ خوشبو تو ہے۔ ہر دائرے میں، ہر کہیں، بس دکھاوے کی خوشبو، باطن جعلی اور آلودہ۔
دعوے ہیں اور نعرے ہیں۔ تقاریر ہیں اور تمنائیں ہیں۔ شخصیات ہیں اور ان کی پوجا۔ ملک میں ایک بھی پارٹی نہیں، جو سیاسی جماعت کے معیار پر پوری اترتی ہو۔ سیاسی پارٹی وہ ہوتی ہے، اوپر سے نیچے تک، جس کے عہدیدار منتخب ہوں، باقاعدگی سے جس میں الیکشن ہوں، جو ٹکٹوں کی تقسیم کا ایک مستقل نظام وضع کرے، منشور قابلِ اعتماد ہو۔ نمائندوں کے انتخاب میں مقامی کارکنوں کی رائے فیصلہ کن ہو۔ ایسا کیا کبھی ہوگا؟
عمران خان کہتے ہیں، ٹکٹ میں خود جاری کروں گا۔ زرداری اور نواز شریف کا طریق بھی یہی ہے۔ فقط ایک جماعتِ اسلامی ہے، کارکنوں سے جو پوچھتی ہے کہ کون امیدوار ان کے لیے قابلِ قبول ہوگا۔ یہ الگ بات کہ ناقص ترجیحات اور حکمتِ عملیوں کے باعث نمک کی طرح وہ تحلیل ہوتی جا رہی ہے۔ یہ معاشرے کا عیب ہے یا خود اس کا۔ دانشوروں کو فرصت مہیا نہیں کہ غور کریں۔ پارٹی سے پوچھیں تو شاید عوام کو قصوروار ٹھہرائے۔ کتنے زمانے بیت چکے۔ سیاست کی نوعیت وراثتی ہے۔
کوئی پکاروکہ ایک عمر ہونے آئی ہے
فلک کو قافلہء صبح و شام ٹھہرائے
عبد الغفار خاں، پھر ان کے فرزند عبد الولی خان، پھر ان کی اہلیہ نسیم ولی خان، عبد الولی خان کے فرزند اسفند یار، اب ان کے صاحب زادے۔ ذوالفقار علی بھٹو، پھر مادام نصرت بھٹو، صاحبزادی کے حق میں والدہ دستبردار ہو گئیں۔ خود اپنی ماں سے اس طرح کا سلوک روا رکھا کہ چیخ کر انہوں نے کہا: یہ تو ضیاء الحق سے بھی بدتر ہے۔ بیچ بازار بیچاری بے نظیر ماری گئی تو شوہر آصف علی زردری، پھر بلاول بھٹو۔ مفتی محمود کے بعد ان کے صاحبزادے بلکہ پورا خاندا ن۔ عبد الصمد اچکزئی کے صاحب زادے محمود اچکزئی پارٹی کے تخت پر براجمان ہو ئے۔ پہلی بار الیکشن میں سرخرو ہوئے تو ایک ایک رشتے دار کو نوازا۔ قبیلہ اور کارکن منہ تکتے رہ گئے۔
یاللعجب، ہم کیسے لوگ ہیں؟ ریاستی ادارے ہیں کہ خلقِ خدا سے بے نیاز۔ ہمیشہ باہم الجھتے ہوئے، بے حسی بلکہ پتھر دلی کے نمونے۔ اقبالؔ نے کہا تھا:ہر چیز کی پروا ہ ہے، اگر نہیں تو اخلاق کی، اگر نہیں تو علم اور اقدار کی
تیرے امیر مال مست، تیر ے غریب حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی
کب تک، آخر کب تک تاریخ کے چوراہے پر سوئے پڑے رہیں گے؟ کب ہماری آنکھ کھلے گی۔ کب سوچیں گے؟ کب تجزیہ کریں گے؟ سوئے منزل کب روانہ ہوں گے؟