کشمیر کا مقدمہ کون لڑے گا؟
سات لاکھ بھارتی فوج کے حصار میں گھرے کشمیریوں نے قربانیوں کی بے مثال تاریخ رقم کی ہے۔ بے شک ان کا مقدمہ بہت مضبوط ہے مگر یہ کون لڑے گا؟ اس قوم پہ اللہ رحم کرے، جو خود کو لیڈروں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دے، جو تاریخ کے چوراہے پر پڑی سوتی رہے۔
دس ہزار تازہ دم فوج نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں لا ڈالی ہے۔ وادی میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش ہے۔ گورنر راج تلے سسکتے علاقے میں ریلوے نے سرکلر جاری کیا ہے کہ چار ماہ کا راشن اور ہفتے بھر کا پانی جمع کر لیا جائے۔ فوج کو حکم ملا ہے کہ مظاہرین کو کسی حال میں برداشت نہ کیا جائے، خواہ وہ محض نعرے ہی لگا رہے ہوں۔ جنگ بندی لائن کے چھ سیکٹرز میں آگ برس رہی ہے۔ وادیء نیلم میں دیہاتی خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ اخبارات کے پہلے صفحے پر بھارتی گولہ باری کا ذکر تو ہے مگر کشمیر میں بھارتی فوج کی آمد کا حوالہ تک نہیں۔ برادرم نصرت جاوید کے سوا، مستقلاًجو کشمیر پہ نگاہ رکھتے ہیں، کسی اخبار نویس نے اس طوفان کا ذکر تک نہیں کیا۔
منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دنیا بھر کے موضوعات پر گفتگو ہوئی مگر کشمیر پر نہیں۔ غروبِ آفتاب کے بعد شاہ محمود قریشی کو خیال آیا تو ایک عدد بیان جاری فرما دیا۔ پنجابی محاورے میں اسی کو شلغموں سے سوکھی مٹی جھاڑنے کا عمل کہتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں دم بخود ہیں۔ گویا زیرِ آسماں کوئی حادثہ ہوا ہی نہیں۔ حضرت مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد کا گھیرائو کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، تحریکِ آزادیء کشمیر کی پشتیبان جماعتِ اسلامی بھی سوئی پڑی ہے۔ کوئی جلسہ، نہ جلوس۔ کوئی سیمینار نہ پریس کانفرنس۔
بہ زیرِ شاخِ گل افعی گزید بلبل را
نواگرانِ نا خوردہ گزند را چہ خبر
شاخِ گل کے نیچے سانپ نے بلبل کو ڈس لیا، جو محفوظ و مامون ہیں، جنہیں گزند نہیں پہنچی، انہیں اس کی کیا خبر۔
نمود اور بقا کے لیے قوموں کو ایک کم از کم اتفاقِ رائے درکار ہوتاہے۔ قومی دفاع کے معاملات پر آباد ی کے تمام طبقات یک زبان ہوتے ہیں۔ افغانستان سے تابوت امریکہ پہنچتے ہیں تو کوئی اخبار اس کی تصویر چھاپتا ہے اور نہ کوئی مبصر ٹی وی پہ واویلا کرتا ہے۔ قومی سلامتی سے متعلق کوئی بھی تجزیہ شائع کرنے سے پہلے نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ اجازت طلب کرتے ہیں۔ بھارت میں پریس بظاہر آزاد ہے لیکن خارجہ پالیسی پہ خامہ فرسائی کرنے والے احتیاط کی آخری حدود کو ملحوظ رکھتے ہیں۔
مستقل طور پر باہم الجھتی رہنے والی کوئی قوم اس دشمن کا سامنا کیسے کرسکتی ہے، جو اسے صفحہء ہستی سے مٹا دینے کے درپے ہے۔ حضرت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ العالی کا ایجنڈا صرف یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پر اس پارٹی کی حکومت اکھاڑ پھینکی جائے، جس نے انہیں سیاسی میدان سے تقریباًبے دخل کر دیا ہے۔ یہ وہی صاحب ہیں، امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن سے جنہوں نے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم بننے میں ان کی مدد کی جائے۔
ڈیڑھ عشرے قبل دلّی کے دورے پر تشریف لے گئے تو تجویز کیا کہ ایک گول میز کانفرنس بلا کر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی کنفیڈریشن بنا دی جائے۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے تاویل کرنے کی کوشش کی تو سیکرٹری جنرل منور حسن نے احتجاج کی آواز بلند کی۔ پارٹی کو ان کا دفاع کرنے سے روک دیا ؛ہرچند کہ پختون خواہ کی حکومت میں وہ ان کے حلیف تھے۔ اسی ہنگام کابینہ کے ایک اجلاس میں جنرل پرویز مشرف نے بتایا کہ جنابِ مولانا کو بھارتی حکومت سے نقد داد ملی ہے۔ مذہبی امور کے وزیر محمود غازی مرحوم اس دنیا سے چلے گئے لیکن مشرف کابینہ کے کچھ ارکان اب بھی دادِ سیاست دے رہے ہیں۔
حکومت سے نجات پانے کی بے تابانہ خواہش میں حضرت مولانا اب ختمِ نبوت کا رڈ برتنے پہ اتر آئے۔ مخالفین سوال کرتے ہیں کہ قادیانیوں کے باب میں نرم گوشہ تو ان کے حلیف نواز شریف نے دکھایا تھا حلف کی عبارت میں ترمیم انہوں نے کی تھی۔ قادیانیوں کو بھائی انہوں نے کہا تھا۔ اپنے بازوئے شمشیر زن رانا ثناء اللہ کو ان کی دلجوئی کا حکم آنجناب نے دیا تھا۔ تب ان کی غیرتِ ایمانی کیوں نہ جاگی۔
ایک صدی ہونے کو آئی، جب کشمیری پنڈت ہڑبڑا کر اٹھے۔ ان کا احساس یہ تھا کہ سری نگر کے ثقافتی رشتے لاہور سے مستحکم ہوئے جاتے ہیں۔ حصولِ تعلیم کے لیے وادی کے فرزند پنجاب کے شہروں کا رخ کرتے ہیں، روزگار کے متلاشی بھی۔ پنجاب کے مسلم خاندانوں میں شادی کا رواج بھی ہے۔ مسلم اکثریت کے علاقے میں ابھی اقتدار ان کا قائم تھا لیکن تعداد برائے نام تھی۔ خوفزدہ ہو کر مہاراجہ سے انہوں نے مطالبہ کیا کہ غیر کشمیریوں کے لیے وادی میں جائیداد خریدنے پر پابندی لگا دی جائے۔ شہریت ان کے لیے ممنوع کر دی جائے۔
1947ء میں مہاراجہ کے خلاف عام بغاوت ہوئی۔ اپنا اقتدار بچانے کے لیے بھارت سے الحاق کا فیصلہ کیا تو یہ قانون برقرار رہا۔ بھارتی آئین کی دفعہ 135 اے کے تحت مستقل طور پر اس شق کو محفوظ کر دیا گیا۔ 1953ء کے نہرو عبد اللہ معاہدے اور1967ء کے اندرا عبد اللہ سمجھوتے میں بھی آئین کی یہ شق بکمالِ تمام برقرار رکھنے کا اعلان ہوا۔ اب نریندر مودی اسے منسوخ کرنے پر تلے ہیں۔ اس لیے کہ کشمیر میں عام بغاوت ہے۔ اس لیے کہ تاریخِ انسانی میں آبادی کے تناسب سے مسلح افواج کا سب سے بڑا تناسب برپا کرنے کے باوجود، اہلِ کشمیر نے خوفزدہ ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
اس لیے کہ معاشی مفادات کے اسیر امریکہ اور یورپی یونین کی خاموش تائید کے باوجود، حکمتِ عملی میں اسرائیل کی سرگرم تائید کے باوجود کچھ بھی نہیں بن پایا۔ نئی نسل کی آنکھوں میں بغاوت کا غروراسی شوکت سے کارفرما ہے۔ حصولِ آزادی کی تمنا بستیوں کو بے تاب کرتی ہے تو توانائی کا طوفان اٹھتا ہے، کسی طرح جو بجھایا نہیں جا سکتا۔ نریندر مودی کی انتہا پسند ہندو قوم پرستی پاگل پن میں مبتلا ہے۔ معاشی ترقی کا فتور دم لینے نہیں دیتا مگر کشمیر میں کوئی چال کارگر نہیں۔
اب منصوبہ یہ لگتا ہے کہ دفعہ 35 اے منسوخ کر کے بھارت کے ہندو شہریوں کو کشمیر میں جائیداد خریدنے کی اجازت دے دی جائے۔ اسرائیل کی طرح رفتہ رفتہ بتدریج، تاکہ اکثریت کو اقلیت میں بدلا جا سکے۔ بڑے پیمانے پر کھرب پتی بھارتی کمپنیاں مقبوضہ کشمیر میں سرمائے کا کھیل کھیلیں۔ حاجت مندوں سے زیادہ قیمت پر ان کے قطعہ ہائے اراضی خرید لیے جائیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ محدود سے محدود تر ہوتے جائیں۔ بھارت کہتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں پرانی ہو گئیں۔ کیا آزادی کا حق کبھی پرانا ہو سکتاہے؟ کیا طاقت کے بل پر حکمرانی کا تصور کسی بھی صورت قابلِ قبول ہو سکتاہے؟ کیا جنوبی سوڈان اور انڈونیشیاکے جزیرے تیمور کے برعکس، کشمیریوں کا جرم یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں؟
سات لاکھ بھارتی فوج کے حصار میں گھرے کشمیریوں نے قربانیوں کی بے مثال تاریخ رقم کی ہے۔ بے شک ان کا مقدمہ بہت مضبوط ہے مگر یہ کون لڑے گا؟ اس قوم پہ اللہ رحم کرے، جو خود کو لیڈروں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دے، جو تاریخ کے چوراہے پر پڑی سوتی رہے۔