اصرار
جیسا کہ ہمیشہ عرض کرتا ہوں، خطا سے آدمی برباد نہیں ہوتا بلکہ غلطی پہ قائم رہنے سے۔ اللہ نے ہر ایک کو عقل بخشی ہے لیکن کم ہی لوگ استعمال کرتے ہیں۔
بحران ایسے شدید کہ خدا کی پناہ مگر مواقع بھی ایسے کہ کم نصیب ہوئے ہوں گے۔ مشکل یہ ہے کہ تمام بڑ ے کھلاڑی ذہنی الجھاؤ کا شکار ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور اپوزیشن سب کے سب۔ ایسا کوئی گروہ موجود نہیں جو کوئی جامع حل تجویز کر سکے۔ جنابِ علی کرم اللہ وجہ کا ارشاد ہے کہ مصیبت میں گھبراہٹ ایک دوسری مصیبت ہے۔ سب سے زیادہ ضرورت تحمل، صبر اور غور و فکر کی ہے اور وہی ناپید۔ سب سے اہم چیز نفاذِ قانون ہے اور اس کی پرواہ کسی کو نہیں۔
کرونا پھیلتا جا رہا ہے۔ دوسری لہر اتنی ہی شدید ہے، جتنی کہ پہلی۔ ایک عالمی ادارہ پچیس نومبر کو پاکستان پہ سیمینار کرنے والا ہے کہ پاکستانی قوم نے کرونا پر قابو پانے کی بہترین مثال قائم کر دی۔ کیا اس وقت جامِ صحت تجویز کرنا ایک تاریخی لطیفہ نہیں، جب بیماری اور بھی زیادہ بگڑ رہی ہو۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے گھپلوں پر تو ڈاکٹر فیصل قابو نہیں پا سکے مگر کرونا کے باب میں ان کا ذہن بہت واضح ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسری لہر بھی انشاء اللہ بتدریج تھم جائے گی۔ شرط یہ ہے کہ قوم تعاون کرے۔ قوم کو ادراک ہی نہیں کہ معاملہ کس قدر سنگین ہے۔ شادی گھروں کی تنظیم کے سربراہ نے فرمایا کہ جیل جانے کو ہم تیار ہیں مگر تقریبات بند نہیں کریں گے۔ نجی تعلیمی اداروں کا طرزِ عمل بھی کم و بیش یہی ہے۔ انہوں نے ہرچند بغاوت کا اعلان نہیں کیا مگر مصر ہیں کہ بچوں میں کرونا پھیلنے کی رفتار چونکہ کم ہے؛لہٰذا سکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھلی رہنی چاہئیں۔ وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود کہتے ہیں کہ ضابطوں کی پاسداری نہیں کی جا رہی؛لہٰذا تیس چالیس دن کے لیے دروازے بند کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ سندھ حکومت کو ان سے اختلاف ہے۔ وہی سندھ حکومت، ابتدا میں جس نے زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ کیا اور داد پائی تھی۔ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئیے کہ وزیرِ اعظم کا رویہ معقول ہے۔ کہا کہ وبا کو روکنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں قابلِ تقلید حکمتِ عملی اور فیصلوں سے وبا پر قابو پایا، دنیا جس کی معترف ہے۔ دوسرے مرحلے میں بھی سنجیدگی، توازن اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئیے۔
احتیاط اور توازن کے تقاضے کیا ہیں؟ یہ سب جانتے ہیں۔ ہر روز یاد دلائے جاتے ہیں مگر اس قوم کا لا ابالی پن اور اس کے ضدی لیڈر؟ سب جانتے ہیں کہ علاج کیا ہے۔ ہاتھ دھوئے جائیں، لوشن لگایا جائے اور ماسک پہنے جائیں۔ عام آدمی کو تو کیا کہیے، فعال طبقات کا حال بھی پتلا ہے۔ دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ ایک ڈاکٹر یا پروفیسر آپ کے کمرے میں داخل ہوتا ہے اور ہاتھ آگے بڑھاتا ہے۔ بعض تو گلے ملنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ لاہور کی ایک مشہور شخصیت دوسری بار کرونا کی شکار ہوئی۔ ان کے معالج سے پوچھا کہ باقاعدگی سے ورزش کرنے والے، وہ ایک صحت مند اور محتاط آدمی ہیں۔ پھر ایسا کیوں ہوا؟ جہاندیدہ ڈاکٹر نے کہا:اس لیے کہ جسم کا حفاظتی نظام ( Anti Bodies)پوری طرح تشکیل پانے سے پہلے ہی انہوں نے ماسک اتار پھینکا۔ چند دن انتظار چاہئیے تھا۔ یہ ناچیز خود بھی کرونا کا شکار ہو چکا۔ پورے پندرہ دن کمرے میں بند رہا۔ کل دوبارہ ٹیسٹ کرایا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ڈاکٹر نے مبارک باد دی۔ اس کے ساتھ ہی مگر تاکید کی کہ ابھی کچھ دن احتیاط ملحوظ رکھنی ہے۔ ماسک پہنے رہو، ہاتھ دھوتے رہو اور سینی ٹائزر لگانے کا سلسلہ جاری رکھو۔ اس لیے کہ system immune کو پوری طرح بروئے کار آنے میں ابھی چند دن درکار ہیں۔
ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ مارچ 2021ء سے پہلے ویکسین کا حصول مشکل ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ چند ہفتوں کی مزید تاخیر ہو جائے۔ ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔ چند دن میں بائیس کروڑ آدمیوں کو مامون نہیں کیا جا سکتا۔ ویکسین سب سے پہلے طبی عملے کو دی جائے گی۔ اس لیے کہ اڑھائی ہزار شکار ہو چکے، چودہ جاں بحق اور 16سو ڈاکٹر اب بھی متاثر ہیں۔ دوسری ترجیح بڑے بوڑھے لوگ۔ خاص طور پر وہ، جو بلڈ پریشر، شوگر، دل یا پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا ہیں۔ اس کے بعد دوسروں کی باری آئے گی۔ غالبا ً ایک پورا سال اس میں بیت جائے گا۔ ویکسین مغربی ممالک سے خریدنا ہوگی۔ چین کے ساتھ کیے جانے والے مشترکہ تجربات کامیاب رہے ہیں لیکن تکمیل کے لیے ابھی کئی ماہ چاہئیں۔ سعید غنی کا کہنا یہ ہے کہ صرف پرائمری سکول بند کیے جائیں کہ ان میں طلبہ کی تعداد تہتر فیصد ہے۔ امتحانات ملتوی نہ کیے جائیں۔ جو ادارے آن لائن تعلیم نہیں دے سکتے، ان کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔
عجیب منطق ہے۔ تمام سروے یہ کہتے ہیں کہ چھوٹے بچوں میں کرونا پھیلنے کا امکان کم ہوتاہے۔ قدرتی طور پر ان کی قوتِ مدافعت زیادہ ہوتی ہے۔ آٹھ نو ماہ ہونے کو آئے۔ بہت کچھ ہم نے سیکھ لیا ہے مگر وزرائے کرام اور لیڈروں نے نہیں۔ بھارت اور پاکستان دونوں میں تبلیغی اجتماعات کی مذمت کی گئی۔ پاکستان میں یہ کھلے عام ہوا اور بھارت میں خفیہ طور پر۔ حقائق مگر یہ ہیں کہ وبا سب سے زیادہ گلگت بلتستان کے انتخابات اور اپوزیشن کے عام جلسوں سے پھیلی۔ اسی طرح بازاروں اور منڈیوں سے۔ خاص طور پر صبح سویرے سبزی منڈیوں میں جمع ہونے والے ہجوم سے۔
بعض قصبات میں دکانداروں نے دروازوں پر نمایاں طور پر لکھا کہ سودا سلف گھر پہنچانے کا انتظام ہے۔ اس پر اپنے فون نمبر درج کیے۔ انکشاف یہ ہوا کہ سودا سلف ہر کہیں دکان کے عقب میں رکھا ہے۔ بیشتر پولیس والوں کو اعتراض نہ تھا۔ وہ اپنا حصہ وصول کرتے رہے۔ ناروے نہیں، یہ پاکستان ہے، جہاں دس سے زیادہ مہمان بلانے پر میزبان اور مدعو، دونوں کو لازماً جرمانہ دینا پڑتا ہے۔
سب سے بڑے مجرم سیاسی لیڈر ہیں۔ گلگت بلتستان کے الیکشن تو کہہ لیجیے کہ مجبوری تھی لیکن احتجاجی جلسے؟ چند ماہ موخر کیوں نہیں ہو سکتے؟ اپوزیشن لیڈروں کا استدلال یہ ہے کہ جمہوریت کو اس سے نقصان پہنچے گا؟ کون سی جمہوریت اور کون سا نقصان؟ اوّل تو جلسے جلوسوں سے حکومتیں ختم نہیں ہوتیں۔ فرض کیجیے، یہ ممکن بھی ہو تو ہزاروں زندگیاں بھینٹ کیوں چڑھائی جائیں۔ پاگل پن نہیں تو یہ اور کیا ہے؟ المیہ یہ ہے کہ وکلا انجمنوں سمیت فعال طبقات نے کمال بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ فقط گالیاں کھانے والا میڈیا ہے، جو شور مچاتا رہا۔ ایک نہیں، دو جلسے کر کے وزیرِ اعظم نے بھی اپنی اخلاقی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے؛اگرچہ بعد میں توبہ کر لی لیکن اب وہ اس قدر دباؤ ڈالنے کے قابل نہیں، جتنا کہ ڈال سکتے۔
جیسا کہ ہمیشہ عرض کرتا ہوں، خطا سے آدمی برباد نہیں ہوتا بلکہ غلطی پہ قائم رہنے سے۔ اللہ نے ہر ایک کو عقل بخشی ہے لیکن کم ہی لوگ استعمال کرتے ہیں۔