گربہ کشتن روزِ اول
حکمران واعظ ہو جائے تو ریاست پھر ریاست نہیں رہتی، تماشہ بن جاتی ہے۔ غلطی ہو چکی اور اب اس کی سزا بھگتنا ہوگی۔ وزیرِ اعظم کرونا سے بچ نکلے۔ اچھا ہوا، بہت اچھا ہوا۔ ان کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ قوم کو بچانے کی کوشش کریں۔ بجا کہ تنہا انہی کی نہیں بلکہ ہم سب کی۔ اس طرح کی آزمائش میں جب معاشرے مبتلا ہوتے ہیں تو احتیاط ایک ایک فرد پہ لازم ہوتی ہے۔
اس سے بڑی افتاد ہم پہ نہیں آپڑی، جب جرمن بمبار طیارے لندن شہر پہ بم برسایا کرتے۔ برصغیر میں تو راشن بندی کی کوئی خاص ضرورت نہ پڑی۔ زرخیز زمینوں میں اتنا بہت سا اناج اگتا کہ گندم کی بر آمد کے لیے کراچی کی بندر گاہ تعمیر کرنا پڑی۔ برطانیہ میں مگر حال یہ تھاکہ انڈے اور ڈبل روٹی تک کا راشن مقررہوا۔
پلیٹ میں مرغی کا ایک ابلا ہوا ٹکڑا رکھے، ویٹر نظر آیاتو لیڈی مائونٹ بیٹن نے پوچھا: کہاں جاتے ہو۔ اس نے کہا: کتّے کے لیے۔ "ادھر لائو" اس نے کہااور چٹ کرگئی۔ ابھی چند دن پہلے وہ لندن سے ہندوستان پہنچی تھی۔ کرونا کے عالمگیر المیے سے واضح ہوا کہ وبا سے وہ معاشرے زیادہ محفوظ رہے، آزادی کے ساتھ ساتھ جو نظم و ضبط کی اہمیت کے خوگر ہیں۔ چین، سنگاپور، کوریا اور جاپان وغیرہ۔
چالیس برس پہلے ملائیشیا ایک غریب ملک تھا۔ اوسط آمدن پاکستان سے کم تھی۔ ربڑ اور پام آئل کے سوا ان کے پاس کیا رکھا تھا۔ برصغیر میں کاروبار جس طرح ہندوئوں کے ہاتھ میں تھا، اسی طرح ملائیشیا میں چینیوں کے پاس۔ تعلیم کم اور تقدیر پرستی زیادہ۔ شعور اور ادراک جہاں کارفرما نہ ہوں وہاں مقدرات حکمران ہوتے ہیں۔
شوکتِ عزیز کی وزارت عظمیٰ میں شرح ترقی سات فیصد کو پہنچی۔ تب ایک پاکستانی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مہاتیر محمد نے کہا تھا: محض معیشت کا شعور کافی نہیں۔ حکمران کو سیاست کا ادراک بھی چاہیے۔ یعنی یہ کہ وہ معاشرے کی ساخت سے واقف ہو۔ قانون کی پاسداری میں مہاتیر بہت سخت تھے۔ گھر کے چمن میں کیڑے پیدا ہوجائیں تو شہری کو جرمانہ اداکرنا پڑتا۔ ایک بار دفتر جاتے ہوئے بالکونی میں انہوں نے دو ملبوس لٹکے ہوئے دیکھے، جن کی نمائش بد ذوقی ہے۔ فوراً ہی حکم جاری کیا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ سنگا پور کی سڑکوں پر چیونگم پھینکنے پر پچاس ڈالر جرمانہ ہوتا ہے۔ حج اور عمرے کے لیے جانے والے پاکستانی دیکھتے ہیں کہ مشرقِ بعید کے زائرین نظم و ضبط کا کیسا خوبصورت نمونہ پیش کرتے ہیں۔ ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے، ایک ساتھ عبادت کرتے اور ایک ساتھ گھومتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بہت کم اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔
پندرہ برس ہوتے ہیں۔ حرم پاک سے متصل شاہراہ خالد بن ولیدپر اپنے کمرے میں داخل ہوا تو ایک بوڑھی دیہاتی عورت پریشان حال بیٹھی تھی۔ بیگم نے بتایا کہ اس کا میاں کھو گیا ہے۔ اگلے روز خاتون بیت اللہ گئی تو لوٹ کر نہ آئی۔ انہیں بتا دیا گیا تھا کہ اگر میاں سے ملاقات نہ ہو تو اس کمرے میں انہیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ پاکستانی زائرین میں سے بعض بھٹکتے رہتے ہیں۔ اول تو حکومتیں پرواہ ہی نہیں کرتیں۔ ثانیا اس کار خیر میں بھی روپیہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ قانون قاعدے کی کسی کو پرواہ ہی نہیں۔
وزیر اعظم کا ارشاد یہ ہے کہ مساجد سے کرونا پھیلا تو بند کر دیں گے۔ بہت ادب کے ساتھ عرض یہ ہے کہ اب یہ آسان نہیں ہوگا۔ اول دن سے بعض علما کا رویہ ایسا ہے کہ گویا حکومت کے اندر حکومت۔ علما تک محدود نہیں، یہ روش سبھی طبقات کی ہے۔ ریاست نے اپنی رٹ کبھی قائم ہی نہیں کی۔ کبھی اس نکتے کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں۔
سرکارﷺ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے کہ اگر چھوٹے سر والاکوئی حبشی تمہارا حکمران بنا دیا جائے تو بھی اس کی اطاعت کرو۔ ظاہر ہے کہ یہ ریاست کی فرمانبرداری ہے، ایک شخص کی نہیں۔ اپنے پہلے خطبے میں سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے یہ نکتہ واضح کر دیا تھا کہ اطاعت جا ئز کی ہوتی ہے، ناجائز کی نہیں۔ با ایں ہمہ جس معاشرے کے عوام قانون ہاتھ میں لینے کی روش اختیار کر لیں، اس میں لال مسجد ایسے سانحے رونما ہوتے ہیں۔ دہشت گرد پروان چڑھتے ہیں اور بے شمار بے گناہ زندگیاں ان کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔
2002ء سے 2007ء تک پختون خوا میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت میں دہشت گرد پھلے پھولے۔ ایک دن مولانا فضل الرحمٰن رودیے کہ خوں آشام دستے تربیلا تک آپہنچے ہیں۔ عام تاثر یہ تھا کہ سوات کے بعد دہشت گرد مردان پر قبضے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایک بار تویہ سانحہ بھی ہوا کہ قبائلی علاقے میں بیت اللہ محسود نے دنیا کی بہترین فوج کے ایک دستے کو یرغمال بنالیا۔ پشاور سے تاجر اغوا کرکے لے جائے جاتے اور کروڑوں روپے وصول کرنے کے بعد رہا کیے جاتے۔ ان کے محافظ اور اغوا کنندگان پانچوں وقت کی نمازیں پابندی سے ادا کرتے لیکن دل پتھر۔
ایک جنگ کے بعد رسول اللہﷺ نے بہت فراوانی سے مال غنیمت تقسیم کیا۔ تب ایک شخص نمودار ہوا اور بولا "محمدﷺ انصاف کرو" چہرہ ٔ مبارک سرخ ہوگیا۔ ناروا لفظ تو زبانِ مبارک سے ادا نہ ہو سکتا تھا۔ کہا تو اصحاب کرامؓ سے صرف یہ کہا: اس کے ساتھ میں وہ لوگ ہوں گے، جو اتنی نمازیں پڑھیں گے کہ تم نہیں پڑھتے۔ جو اتنا قرآن پڑھیں گے، جو تم نہیں پڑھتے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ بجا طور پر ڈاکٹر اسرار بار بار یہ سوال کیا کرتے کہ لوگو! تم نے اپنی عنان ملّا کو کیوں سونپ دی ہے؟ ان سے بہت پہلے اقبالؒ نے کہا تھا
زمن بر صوفی و ملا سلامی
کہ پیغام خدا گفتند مارا
ولی تاویل شاں درحیرت انداخت
خدا و جبرائیل و مصطفی را
صوفی و ملا کو میرا سلام پہنچے کہ اللہ کا پیغام انہوں نے ہمیں پہنچا دیا۔ ایسی تاویل مگر کی ہے کہ اللہ حیران ہیں۔ اس کے سچّے پیغمبرﷺ اور جبرائیلؑ بھی۔
سوشل میڈیا پردو تصاویر ہیں۔ ایک میں ایک بہت بڑی جامع مسجد میں موزوں فاصلے پر نمازی سربسجود ہیں۔ بارگاہِ خدا وند میں سجدہ شاید سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر دل شاد ہوتاہے کہ عبادت گاہیں آباد ہیں اور سلیقہ مندی کے ساتھ۔ دوسری تصویر میں نمازی ایک مسجد میں داخل ہو رہے ہیں۔ ایک ایک سے عبادت گاہ کا خادم مودبانہ عرض کرتاہے کہ پچاس برس سے اوپروالوں کو اجازت نہیں۔ کوئی مگر سن کر نہیں دیتا۔ پس منظر میں مبصر کی آواز سنائی دیتی ہے کہ جواں سالوں کی تعداد دس فیصد سے زیادہ نہیں۔ پھر ایک بوڑھے نمازی کی چیختی ہوئی صدا یہ کہتی ہے: ہمیں روکنے والے تم کون ہو؟
مساجد سے کورونا پھیلے گا۔ جس طرح کہ تبلیغی جماعت کے اجتماع سے۔ التجا کی نہیں، ایسے میں حکم صادر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح کہ تمام مسلم ممالک میں ہوا۔ گربہ کشتن روزِ اول۔ حکمران واعظ ہو جائے تو ریاست پھر ریاست نہیں رہتی، تماشہ بن جاتی ہے۔ غلطی ہو چکی اور اب اس کی سزا بھگتنا ہوگی۔