دشمن باز نہیں آئے گا
جس کسی نے بھی خونریزی کا یہ منصوبہ بنایا بہت سوچ سمجھ کر بنایا تھا۔ اس منصوبے کا مقصد مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کو دہشت و مایوسی کا شکار بنانا تھا۔ اسلام اور پاکستان کے دشمنوں نے اس گھنائونے منصوبے پر عملدرآمد کیلئے 22 مارچ کے دن کا انتخاب کیا۔ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر حملے کے بعد 22مارچ کو پہلا جمعہ تھا۔ سانحہ کرائسٹ چرچ نے پوری دنیا پر واضح کر دیا تھا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے اپنے ملک کی مسلمان اقلیت کےساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے اپنی پارلیمنٹ کی کارروائی کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے کیا تھا اور اس سانحے کے بعد آنے والے پہلے جمعہ کو نیوزی لینڈ سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا جانا تھا۔ دنیا بھر کے میڈیا پر سانحہ کرائسٹ چرچ کے ایک پاکستانی ہیرو نعیم راشد کی بہادر بیوہ کی طرف سے امن اور محبت کے پیغام کا چرچا تھا لیکن دشمنوں پر اس پیغام کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ 22 مارچ کو پاکستان میں دہشت گردی کے ذریعہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنا چاہتے تھے۔ 22 مارچ ان دشمنوں کیلئے بہت اہم تھا۔ اس دن جمعہ کا مبارک دن تھا اور اگلے دن 23 مارچ کو یومِ پاکستان تھا۔ بھارت کی طرف سے حملے کے خطرات کے باوجود اسلام آباد میں یومِ پاکستان کی پریڈ منسوخ نہیں کی گئی تھی۔ اس پریڈ کے مہمان خصوصی ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر بن محمد تھے جو ایک دن پہلے پاکستان پہنچ چکے تھے۔ اس منصوبے کے ماسٹر مائنڈ نے 22 مارچ کو پاکستان میں کسی ایسی شخصیت پر حملے کا منصوبہ بنایا جو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے محترم ہو اور 23 مارچ کو یومِ پاکستان پر پاکستان کا میڈیا فوجی پریڈ کی جگہ اس محترم شخصیت کا جنازہ دکھا رہا ہو۔ منصوبہ سازوں نے عالمِ اسلام کے معروف عالم دین مفتی محمد تقی عثمانی کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ صرف پاکستان نہیں دنیا بھر کے پڑھے لکھے مسلمانوں کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ آپ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے شریعہ بورڈ کے چیئرمین ہیں اور کئی دیگر ممالک کے بینکوں کے شریعہ بورڈ سے وابستہ ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت بینچ کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی رہے ہیں۔ اقتصادی لحاظ سے پاکستان کے اہم ترین شہر کراچی میں رہتے ہیں لہٰذا کراچی میں ان پر حملے کا مقصد پاکستان کی معیشت کو بھی جھٹکا دینا تھا۔ میری ناقص رائے میں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب پر 22مارچ کو حملے کی سب سے اہم وجہ ان کے خاندان کی تحریک پاکستان سے وابستگی ہے۔
کافی عرصے سے ہم یومِ پاکستان پر صرف اپنی جنگی قوت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جنگی قوت کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے بزرگوں کی اس سیاسی جدوجہد کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ ہمارے ان بزرگوں میں مفتی محمد تقی عثمانی کے والد مفتی محمد شفیعؒ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ بھی شامل تھے جنہوں نے ڈٹ کر قائداعظم ؒ کی حمایت کی۔ قائداعظم ؒکو تحریک پاکستان میں ان علماء کے کردار کی اہمیت کا بھرپور احساس تھا اسی لئے قیامِ پاکستان کے بعد کراچی میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمد عثمانی ؒسے پرچم کشائی کرائی گئی۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور مفتی محمد شفیعؒ کو تحریکِ پاکستان کی حمایت پر آمادہ کرنے میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کا اہم کردار تھا۔ تھانوی صاحب برطانوی سامراج کے باغی تھے۔ انہوں نے 1937ء میں کھل کر قائداعظم ؒکی حمایت شروع کر دی تھی۔ ان کا تعلق دیوبند مکتبِ فکر سے تھا اور دیوبند کے اکثر علماء انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دے رہے تھے لیکن مولانا اشرف علی تھانوی ؒنے بڑے ادب و احترام کے ساتھ اپنے بزرگوں سے اختلاف کیا اور قائداعظم ؒپر اعتماد کا اظہار کیا۔ تھانوی صاحب 1943ء میں وفات پا گئے لیکن ان کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور مفتی محمد شفیعؒ نے ڈنکے کی چوٹ پر تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا۔ مفتی محمد تقی عثمانی کے والد مفتی محمد شفیع ؒدیوبند میں پیدا ہوئے، دارالعلوم دیوبند سے تعلیم حاصل کی اور پھر وہیں درس و تدریس شروع کی۔ مفتی محمد شفیع ؒنے قائداعظم ؒکے ساتھ پہلی ملاقات 12 فروری 1939ء کو دہلی میں کی۔ اس ملاقات میں ان کے ساتھ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒاور مولانا ظفر احمد عثمانیؒ بھی تھے۔ ان تین علماء کو قائداعظمؒ کے پاس مولانا اشرف علی تھانوی ؒنے بھیجا تھا اور یہ علماء قائداعظمؒ سے یہ سمجھنا چاہتے تھے کہ وہ سیاست کو مذہب سے علیحدہ کیوں سمجھتے ہیں؟
منشی عبدالرحمان اپنی کتاب "تعمیرِ پاکستان اور علمائے ربانی" میں لکھتے ہیں کہ اڑھائی گھنٹے کی گفتگو کے بعد قائداعظمؒ نے کہا کہ میری سمجھ میں اب خوب آ گیا کہ اسلام میں سیاست مذہب سے الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے۔ اس وضاحت کے بعد مفتی محمد شفیع ؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے دارالعلوم دیوبند سے مستعفی ہو کر کھل کر تحریکِ پاکستان میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ 1945ء میں مفتی محمد شفیع ؒنے "کانگریس اور مسلم لیگ کے متعلق شرعی فیصلہ" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی اور ان حضرات کو منہ توڑ جواب دیا جو قائداعظم ؒپر کفر کے فتوے لگا رہے تھے۔ مفتی محمد شفیعؒ نے یہ فتویٰ صادر کر دیا کہ کانگریس کی حمایت کفر ہے۔ مسلم لیگ نے اس فتوے کے پوسٹر بنوائے اور دیوبند میں بھی چسپاں کر دیئے۔ مفتی محمد شفیعؒ کانگریس کے حامی مسلمانوں سے بڑے ادب کے ساتھ پوچھتے تھے کہ آپ گاندھی اور نہرو کی قیادت کس شریعت کے تحت جائز اور محمد علی جناح کی قیادت کس شریعت کے تحت ناجائز سمجھتے ہیں؟ وہ کہا کرتے کہ ہم نے محمد علی جناح سے حلال و حرام کے فتوے لینے ہیں نہ میدان جنگ میں توپیں چلوانی ہیں، ہم نے تو آئین اور قانون کی جنگ لڑنی ہے اور اس جنگ کیلئے محمد علی جناح سے بہتر کوئی دوسرا نہیں۔ گیارہ جون 1947ء کو دہلی میں مفتی محمد شفیعؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے ساتھ ملاقات میں قائداعظمؒ نے ان سے درخواست کی کہ سلہٹ اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کے ریفرنڈم میں آپ کی حمایت درکار ہے اور پھر ان علماء نے پیر صاحب مانکی شریف اور زکوڑی شریف کی مدد سے مسلم لیگ کی کامیابی کیلئے دن رات ایک کر دیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد مفتی محمد شفیعؒ نے کراچی میں دارالعلوم قائم کیا جسے آج بھی مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی محمد رفیع عثمانی اور ان کے دیگر احباب کامیابی کے ساتھ چلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ 22 مارچ کو مفتی محمد تقی عثمانی اور ان کے اہلخانہ ایک خوفناک حملے میں بال بال بچ گئے۔ اللہ تعالیٰ اس حملے میں شہید ہونے والے ان کے محافظوں کے درجات بلند کرے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کو نہ صرف میرے بلکہ ہر اس مسلمان کے گھر میں بہت توقیر حاصل ہے جہاں ان کا "آسان ترجمہ قرآن" موجود ہے اور ہم جب بھی یہ کتاب اٹھاتے ہیں تو دل سے مفتی صاحب کیلئے دعائیں اٹھتی ہیں۔ 22 مارچ کو مفتی محمد تقی عثمانی پر حملے کی سازش ناکام ہو گئی لیکن دشمن باز نہیں آئے گا۔ وہ بار بار ہم پر اندر سے حملے کرے گا تاکہ ہم ایک دوسرے پر شک کریں اور آپس میں لڑنا شروع کر دیں۔ آئیے! ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اس ملک کو ایسی قیادت عطا کرے جو جیسنڈا آرڈرن کی طرح اپنی اقلیتوں کو گلے سے لگا کر رکھے اور آپس میں ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات لگانے کے بجائے قائداعظمؒ کے راستے پر چلتے ہوئے ہیں متحد کر دے۔ آمین!