مخصوص نشستیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل بنچ نے سنی اتحاد کونسل کیجانب سے مخصوص نشستوں سے متعلق دائر درخواست کی سماعت مکمل ہونے کے بعد دو فل کورٹ مشاورتی اجلاسوں کے بعد اکثریتی فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیا اور سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کردی۔ 13 رکنی فل بنچ کے آٹھ ججز کے اس فیصلے سے جو بنیادی سوال پیدا ہوا وہ یہ ہے کہ ایک جماعت (سنی اتحاد کونسل) جس نے جماعتی حیثیت سے عام انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا اس کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے دائر درخواست قابل سماعت کس قانون کے تحت قرار پائی۔
13 رکنی فل بنچ کا اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کہنے پر سینئر جج منصور علی شاہ نے پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس سمیت 4 ججوں نے دائر درخواستوں کی مخالفت کی اکثریتی فیصلے میں پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پارلیمانی جماعت قرار دے دیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جن امیدواروں نے سرٹیفکیٹ دیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں وہ ایسے ہی رہیں گے پی ٹی آئی کے منتخب امیدوار کو آزاد یا کسی اور جماعت کا رکن قرار نہیں دیا جاسکتا۔
فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔ یہ بھی کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اب وہ (الیکشن کمیشن) دوبارہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ کرے۔ پی ٹی آئی کے ارکان خود کو آزاد یا پی ٹی آئی سے تعلق ڈیکلیئر کریں ان ارکان پر کسی قسم کا دبائو نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارا پھر یہ سوال ہے کہ پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کے جو آزاد ارکان سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے تھے وہ اس فیصلے کی روشنی میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو فلور کراسنگ کے قانون کی حیثیت کیا ہوگی کیا یہ قانون 8 ججز کے اکثریتی فیصلے کے بعد تحلیل ہوگیا؟ سنی اتحاد کونسل نے جن مخصوص نشستوں کے حصول کے لئے قبل ازیں پشاور ہائیکورٹ اور بعدازاں سپریم کورٹ سے رجوع کیا یہ مجموعی طور پر 77 نشستیں ہیں ان میں قومی اسمبلی کی 22 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 55 نشستیں شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر ہی قبل ازیں الیکشن کمیشن نے ان مخصوص نشستوں کی دیگر جماعتوں میں تقسیم کا اپنا فیصلہ واپس لیا تھا۔
عدالتی فیصلے کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ نشان کے بغیر سیاسی جماعت کی قانونی حیثیت برقرار رہتی ہے لیکن الیکشن ایکٹ 2017ء اس سے یکسر مختلف ہے جماعت تو رہتی لیکن انتخابی نشان کے بغیر بطور جماعت انتخابی عمل کا حصہ کیسے بن سکتی ہے یہ معزز جج صاحبان نے مدنظر نہیں رکھا۔
مخصوص نشستوں کے تنازع پر چونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سنایا جاچکا ہے اس لئے اب اس امر پر بات ہوسکتی ہے کہ یہ فیصلہ ایسے ہی ہے جیسے ماضی قریب میں اعلیٰ عدلیہ کے بعض ججز نے عمران خان کو ایسے مقدمات میں بھی ضمانت قبل از گرفتاری عطا کردی جو ابھی درج بھی نہیں ہوئے تھے یہاں ایک دوسری مثال بھی صادق آتی ہے وہ ہے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں ظفر علی شاہ کیس کا فیصلہ جس میں بن مانگے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو تین سال حکومت کرنے اور آئین میں ترمیم کا حق عطا کردیا گیا تھا اس متنازع فیصلے میں سپریم کورٹ سابق حکمران جماعت مسلم لیگ نون پر فوجی حکومت کے بھونڈے الزامات کو بھی انڈوز کردیا تھا۔
آسان اور سادہ انداز میں یہ کہ درخواست سنی اتحاد کونسل کی تھی فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آیا جبکہ پی ٹی آئی فریق ہی نہیں تھی۔
اس ضمن میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا انتخابی نشان سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے انڈوز نہیں کیا تھا؟ اس فیصلے اور جمعہ کو سنائے جانے والے فیصلے کو ملاکر دیکھنے کی ضرورت ہے ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر حالات کے مطابق قانون و آئین کی تشریح کی اور لکھی گئی بہتر ہوتا نیا آئین ہی لکھ کر اٹارنی جنرل کو تھمادیا جاتا۔
یہ بتایا جانا چاہئے کہ کیا یہ تشریح آئین و قانون کے مطابق ہے یا سوشل میڈیا پر ہوئی کردار کشی، دھمکیوں، دھونس اور کچھ دیگر معاملات کا نتیجہ؟
جن حالات اور مسائل کی وجہ سے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لیا گیا ایسے ہی حالات اور مسائل کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) سے بھی 2018 میں سینیٹ انتخابات کے وقت انتخابی نشان واپس لے کر امیدواروں کی تقرری کے لئے میاں نوازشریف کے جاری کردہ سرٹیفکیٹ کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا اس عدالتی فیصلے کے تحت ہی مسلم لیگ کے سینیٹ میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا۔
اگر ان دونوں فیصلوں کو ملاکر تجزیہ کیا جائے تو پھر بہت احترام کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے سیاسی مقدمات میں عدالتی فیصلے آئین و قانون کے تناظر میں نہیں نظریہ ضرورت اور وقتی جذبات پر ہوتے ہیں۔
جذبات کی یہ گرماگرمی پسندوناپسند کے ساتھ ذرائع ابلاغ پر لگی عدالتوں اور ججوں کے خلاف اس مہم سے پیدا ہوتی ہے جو ایک فریق چلارہا ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ کو انتخابی نشان سے متعلق اپنے ہی پچھلے فیصلے سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ 8 ججز کے اکثریتی فیصلے پر آئینی و قانونی ماہرین اور تجزیہ نگار سوالات اٹھائیں گے البتہ مودبانہ درخواست یہ ہے کہ سوالات اٹھاتے وقت عدالت کے "احترام اور ججز کے شخصی وقار" کا بطور خاص خیال رکھا جائے۔
اس فیصلے کے حوالے سے یہ رائے بھی قابل غور ہے کہ الیکشن کمیشن اور پارلیمان کے فرائض بھی اگر کسی دوسرے ادارے نے سنبھال لینے ہیں تو پھر ان اداروں کی ضرورت کیا ہے۔
ہماری دانست میں تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ الیکشن ایکٹ 2017 کے قوانین کی روشنی میں نادرست ہرگز نہیں تھا البتہ جس وقت یہ فیصلہ سامنے آیا وہ وقت مناسب نہیں تھالیکن کیا فیصلے " باہر بنے یا بنائے گئے ماحول کو دیکھ کر دیئے جانے چاہئیں یہ بذات خود ایک سوال ہے البتہ الیکشن کمیشن کو انتخابی نشان واپس لینے کی بجائے اس وقت پی ٹی آئی کو پابند کرنا چاہیے تھا کہ وہ عام انتخابات سے فراغت کے بعد 30 یا 40 دنوں میں پارٹی انتخابات کراکے رپورٹ جمع کرائے مگر بدقسمتی سے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لے لیا گیا۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو انڈوز کیا۔
یہاں توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ کیا کوئی سیاسی جماعت انتخابی نشان کے بغیر بھی عام انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے۔ نیز یہ کہ پارٹی وابستگی کا سرٹیفکیٹ انتخابی نشان کا متبادل ہے؟ اس سوال پر غور کرتے ہوئے پھر پولیٹیکل پارٹی ایکٹ اور الیکشن ایکٹ کو سامنے رکھنا ازحد ضروری ہے۔
شخصی جذبات، تعلقات یا سوشل میڈیا پر ہونے والی ٹرولنگ کے اثرات اگر فیصلوں سے نمایاں ہوتے دیکھائی دیں تو ان پر اٹھائے جانے والے سوالات بھی تحمل کے ساتھ سننا ہوں گے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ محمد مالک سمیت چند اینکر اور درجنوں یوٹیوبرز فیصلہ سنائے جانے سے 18 گھنٹے قبل ٹی وی سکرینوں اور یوٹیوب چینلوں پر بتارہے تھے کہ فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آرہا ہے اور یہ آٹھ پانچ کے تناسب سے ہوگا ان پر الہام ہوا یا یہ آٹھ ججز کی ذاتی پسند و ترجیحات سے آگاہ تھے۔
بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ "سوال گندم جواب چنا" کے مصداق سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ ایک نئے دستوری قانون اور سیاسی بحران کا دروازہ کھولنے کا موجب بنے گا اس کی واحد وجہ یہی ہوگی کہ درخواست سنی اتحاد کونسل نامی مذہبی سیاسی جماعت کی تھی اور فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں سنایا گیا۔
اسی طرح یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ کھمبیوں کی طرح اگ آنے والے یوٹیوبرز اور تجزیہ نگاروں نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کے تناظر میں سوشل میڈیا پر وال وال جو عدالتیں لگارکھی تھیں ان عدالتوں اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں یکسانیت ہے۔ ایسا کیوں ہے اس سوال کا جواب تو شاید کبھی نہ ملے لیکن اس امر پر دو آراء ہرگز نہیں کہ گزشتہ فیصلے کی غلطیوں کو سدھارنے کے نام پر ویسا ہی بلنڈر ہوا جیسا پارٹی ڈسپلن کے حوالے سے ماضی میں ایک ہی طرح کے مقدمات میں پچھلے فیصلے کے برعکس فیصلہ دیتے وقت سپریم کورٹ کے ہم خیال گروپ نے آئین کو ازسرنو لکھنے کا شوق پورا کیا گیا تھا۔ بہرطور سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ ایک عدالتی فیصلہ ہے۔ حکومت یا کسی فریق کو اختلاف کی صورت میں ریویو میں جانا چاہیے۔ سیاسی محاذ آرائی اور دیگر منفی ہتھکنڈوں سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ ہاں اس سے صرف نظر ممکن نہیں کہ ایک بار پھر سیاسی مقدمے میں دستور نویسی کے شوق کا مچ مارا گیا سو اس کے نتائج کا سبھی کو سامنا کرنا ہوگا۔
حرف آخر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر پنجاب کی وزیر اطلاعات سیدہ عظمی زاہد بخاری کا تبصرہ درست نہیں یہ تبصرہ اخلاقی طور پر تو ہلکا ہے ہی ان کے منصب کے بھی منافی ہے نیز یہ کہ سابق قائد انقلاب اور مسلم لیگ ن کے موجودہ صدر جناب نوازشریف کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کہ بعد 19 ویں ترمیم تو یاد آئی ہی ہوگی اور یہ بھی کہ پی ڈی ایم حکومت میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جوڈیشل کمیشن میں دو جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ لانے کیلئے جو ووٹ دیا تھا حالیہ فیصلے نے اس کا لطف بھی دوبالا کردیا ہوگا۔