وضع داری ابھی زندہ ہے
کراچی میرے لیے ہمیشہ شعر و ادب کے مقاماتِ مقدسہ کی طرح رہا ہے۔ سیاسی تباہ کاریوں تجارتی اجارہ داریوں اور پیسے کی بیماریوں نے اس شہر کی تہذیب و ثقافت کو جتنے چرکے لگائے ہیں، اس کے بعد اب فلسطین اور کشمیر کے بعد سب سے زیادہ ظلم وستم اٹھانے والے شہروں میں کراچی کا نام بلاجھجک لکھا جاسکتا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ گزشتہ تین دہائیوں سے پوری دنیا کے انسانوں کو ان کی اپنی اپنی تہذیب و تمدن سے کاٹ کر جس سرمایہ دارانہ ذہنی معذور ثقافت کا شکار کیا جا رہا ہے کراچی بشمول سارا پاکستان اسی یلغارکی لپیٹ میں ہے۔
میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ فارن اور کارپوریٹ فنڈنگ اورسپانسرشپ کے پیچھے محض پراڈکٹ یا ڈونر آرگنائزیشن کی محض پروموشنل سرگرمی ہی نہیں ہوتی بلکہ ایسا ایسا ایجنڈا کارفر ہوتا ہے کہ عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ بات صرف چند نظریاتی ادیبوں اور دانشوروں کے علاوہ کم کم ہی لوگوں کو سمجھ آ رہی ہے کہ تہذیب سے کٹے ہوئے معاشرے ذہنی اور فکری آزادی کا تصور کھو بیٹھتے ہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی آرٹس کونسل میں پاکستان رائیٹرز یونین کے زیر اہتمام ہونے والی ایک مختصر شعری نشست کے دوران کراچی آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ اور راقم الحروف کی ملاقات جہاں دوستوں اور دشمنوں کے لیے خبر بنی وہاں کچھ باہمی دوستوں کے لیے سکھ کے سانس کا باعث بھی ثابت ہوئی کہ جنہیں دونوں اطراف سے تعلقات کو درست رکھنے کے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔
اس دفعہ میں برادرم محترم پروفیسر شاہد حسن کمال کے حکم پر کراچی آنا چاہتا تھا جس کا موقع مجھے پاکستان رائیٹرز یونین صوبہ سندھ کے صدر، ممتاز مجسمہ ساز، مصور اور شاعر منصور زبیری نے فراہم کردیا۔ امریکہ سے تشریف لانے والی مضبوط فکر شاعرہ زریں یٰسین کے اعزاز میں منعقد کی جانے والی تقریب کی نظامت میرے سپرد کی گئی۔ اس سے پہلے پروفیسر شاہد حسن کمال نے انجمن ترقی پسند مصنیفن کی طرف سے سید جعفر احمد کی صدارت میں تنقیدی تھیوری کی کتاب، " اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان " پر مطالعاتی نشست کا اہتمام کیا جس میں ڈاکٹر اصغر دشتی اور پروفیسر اقبال خورشید نے مکالات پڑھے جبکہ پروفیسر شاہد حسن کمال اور سید جعفر احمد نے گفتگو کی۔
میرے کراچی کے اس سفر کے دوران کی سب سے بڑی اور پر شکوہ تقریب اردو دہلیز انٹرنیشنل کی تھی جس میں تیس سے زائد شعراءکرام اور دانشوران نے شرکت کی۔ تقریب کا صدارتی پینل پاکستان کے ممتاز شعراءانور شعور اور ساجد رضوی پر مشتمل تھا۔ تقریب میں حیدر آباد سے تشریف لائے شعراءنے اپنے کلام سے سماں باندھ دیا۔ تقریب کے منتظم اعلی اور چیئرمین سید شائق شہاب اور آئرین فرحت نے نظامت کے فرائض بخوبی سرنجام دیے۔ مقبول نے مشاعروں کیساتھ مختلف موضوعات پر مکالمے کا آغاز کیا ہے جو علمی، ادبی سماجی آگہی کا باعث بن رہے ہیں۔ عرفانہ پیرزادہ ردا نے بھی خوب محفل سجائی۔
مجھے منگل کی شام واپس آنا تھا، منصور زبیری اور شائق شہاب ائیرپورٹ پر چھوڑ کر چلے گئے تو مجھے پتہ چلا میری فلائٹ کا ٹائم تبدیل کردیا گیا ہے اب وہ پانچ کی بجائے سات بجے جائیگی۔ چھ بجے پتہ چلا کہ سیال کی یخ بستہ ٹھنڈ کا قہر یاد دلا کے رکھ دینے والی اس اچانک قسم کی ائیرلائن کی فلائٹس تو سارا دن معطل رہی ہیں اور اب بھی کوئی جانے والی نہیں ہے لیکن ان نان پروفیشنل اور غیر ذمہ دار ائیرلائن والوں نے پیسنجرز کو اطلاع تک کی زحمت نہیں فرمائی کہ فلائٹس کینسل کی جا رہی ہیں۔
اس ائیر لائن سے سفر کرنے والے مسافر سارا دن چیختے کرلاتے ماتم کرتے نظر آئے۔ ان ہوائی دکانداروں کی دیانت چیک کریں کہ اگر پیسنجر فلائٹ چینج کروائے تو وہ مزید پیسے دے اور اگر کمپنی شیڈول چینج کرے تو اطلاع تک نہ دے اور نا ہی کوئی کمپنسیشن کرے۔ وقت کی بربادی کے علاوہ لوگوں پر ائیر پورٹ آنے جانے اور بورڈنگ لاجنگ کے اخراجات کاظلم اتنی بےحسی سے ڈال دیا جاتا ہے جیسے جنگ کے دوران دشمنوں پر قہر۔
میں نے جب منصور زبیری صاحب کو فون کیا اور تمام داستان ستم سنائی تو زبیری صاحب ٹریفک کا سمندر چیرتے ہوئے آئے اور مجھے لے کے فورناً کراچی آرٹس کونسل پہنچے جہاں عہد حاضر کے حبیب جالب، شاعرِ مزاحمت سہیل احمد اور عہدِ حاضر کی سب سے قدآور غزل گو شاعرہ ریحانہ روحی ہمراہ نوجوان شعراءمحسن رضا محسن اور خورشید عالم آرٹ کونسل کے دائیں والے صحن میں گلشنِ شعر سجائے بیٹھے تھے۔ سو ہم نے وہاں پہنچتے ہی مائیک سنبھالا اور پاکستان رائیٹرز یونین سندھ کے صدر منصور زبیری کی اجازت سے یونین ہی کے زیراہتمام محفل مشاعرہ کے انعقاد کا نہ صرف اعلان کردیا بلکہ آو تاؤ دیکھے بغیر نشست شروع کر دی۔
محفل کی صدارت سہیل احمد نے فرمائی جبکہ مہمان خصوصی کی نشست کو ریحانہ روحی نے اعزاز بخشااور مہمانان اعزاز کے طور پر محسن رضا محسن اور خورشیدعالم نے محفل کو رونق بخشی۔ محفل ابھی جاری تھی کہ کراچی آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ تشریف لے آئے۔ میں نے احتراماً کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا، دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے، احمد شاہ اور منصور زبیری نے ایک دوسرے کے حسن کی تعریف کی اور محبت و تکریم بھرے کلمات کا تبادلہ کیا۔ ہوسکتا ہے صاحبانِ اختیار و توفیقِ تقسیمِ رقوم کے گرد رقص کرنے والے اس ملاقات کو کسی اور نظر سے دیکھیں لیکن ہمیں پتہ ہے کہ نظریاتی اختلاف کبھی ذاتی اختلاف یا دشمنی پر مبنی نہیں ہوتا۔
دشمنی اور لڑائی کا زیادہ تر باعث پیسے، اقتدار اور دیگر دنیاوی مفادات ہوئے کرتے ہیں جو نہ ہم سے ان کو ہیں نہ ان سے ہم کو ہیں۔ احمد شاہ کا ہم فقیروں سے کیا لینا دینا ہم تو پہلے ہی ٹھہرے ایسی تمام وارداتوں سے دور اور بےنیاز۔ احمد شاہ کا ہماری ٹیبل پر آنا اور ہمارا ان کو تکریم و تعظیم دینا صرف اور صرف دونوں طرف موجود رکھ رکھاؤ اور وضع داری کا اظہار اور ہر طرح کے فریب اور ریا کاری سے پاک جیسچر تھا۔ احمد شاہ نے تشریف لا کر ہمیں عزت دی اور ہم نے کھڑے ہو کر ماتھے تک ہاتھ لے جا کر ان کو سلام کیا۔
جہاں تک فکر اور نظریے کا اختلاف ہے وہ رہے گا۔ احمد شاہ پچھلے پندرہ برس سے ایسے درباری، جعلی اور کمتر درجے کے شاعروں اورادیبوں اور فنکاروں میں گھرے ہوے ہیں جن کے نزدیک احمد شاہ کی ساکھ اور اردو زبان و ادب یا فنونِ لطیفہ کی ترویج و ترقی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ انکے نزدیک تو صرف زیادہ سے زیادہ کانفرنسوں مشاعروں اور فیسٹیولز میں حصہ لے کر اپنی ادبی دکانداری چمکانا ہی پہلا اور آخری مقصد ہے۔ جبکہ میرے جیسے یہ سوچتے ہیں کہ ادب و ثقافت کے نام پر مذاق اور کاروبار نہ کیا جائے بلکہ ایسا کام کیا جائے جو منتظمیں کے اس ادارے یا دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی صدیوں تک ان کو احترام سے یاد رکھنے کا وسیلہ بن جائے۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ ان سے پوچھتے پھریں، جناب یہ بتائیے کہ حضور کا بعد از مرگ بھی صدر نشین رہنے والا طویل المدتی منصوبہ کب تک کا ہے؟