گورنر پنجاب کا دو ٹوک موقف
پیپلز پارٹی گلف کے صدر میاں منیر ہانس ایک ایسی طلسماتی شخصیت کے مالک ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ محبت کے جادو گر ہیں۔ یہ بات بھی زبان زدِ عام و خاص ہے کہ دنیا میں اگر کسی نے آدابِ محبت و میزبانی سیکھنے ہوں تو میاں منیر ہانس سے سیکھے۔ البتہ ان کی موجودگی میں کسی بھی محفل میں ان کی ذات پر بات شروع ہو جائے تو وہ بلا تردد کہہ اٹھتے ہیں کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں یا میں نے جو کچھ بھی سیکھا ہے اور جتنی بھی محبتیں مجھے حاصل ہیں وہ شہید بی بی محترمہ بینظیر بھٹوصاحبہ، پریذیڈنٹ آصف علی زرداری صاحب اور چیئرمین بلاول بھٹو صاحب کی قربت کے لمحات کا فیض ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میرے ان لیڈرز نے میری عقیدت و محبت پر ہمیشہ شفقت کا اظہار فرمایا ہے۔ یہی میرا کل اثاثہ ہے۔
اس دفعہ میاں منیر دوبئی سے پاکستان آئے تو کراچی سے کشمیر تک لوگوں نے ان کو اتنی محبت اور پذیرائی سے نوازا جتنی کہ نیلسن منڈیلا کو رہائی کے بعد ملی تھی۔ گورنر ہاوس میں عزت مآب گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کی طرف سے ان کے اعزاز میں منعقد کیے گئے عشائیے میں مجھے بھی شریک ہونے کا موقع ملا۔ گورنر پنجاب کے بارے میں ادبی و صحافتی دونوں حلقوں میں ایک جیسی آراءگردش کرتی رہتی ہیں اور وہ یہی ہیں کہ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر بہت ملنسار ہیں، علم و ادب دوست ہیں، آپ نے تاریخ کا نہایت سیر حاصل مطالعہ کر رکھا ہے، لوگوں کو عزت دینے کی فطری قابلیت سے مالامال ہیں، حقیقی شاعروں اور ادیبوں کی بہت عزت کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مثبت تنقید کرنے سے خود کو روکتے نہیں چاہے وہ ان کی اپنی پارٹی پر ہی کیوں نہ ہو۔
عشائیے میں حسیب حسنین شاہ، اشرف خان، رانا خالد، اے پی پی کے عبداللہ صاحب، سینئر صحافی خالد قیوم، دانیال ہانس، عبالستار ہانس اور فواز سلطان سمیت سولہ لوگ شریک تھے۔
گورنر صاحب کو سب لوگوں کے سوالات کے جوابات دیتے پا کر میں نے بھی پوچھ ہی لیا کہ موجودہ سیاسی صورتحال کی گھمبیرتا پر آپ کے خیالات کیا ہیں اور کیا کوئی حل ہے آپ کی نظر میں۔
گورنر صاحب تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئے، ان کے چہرے کے تاثرات پر اداسی اور دکھ کے رنگ غالب آتے صاف محسوس کیے جاسکتے تھے۔ انہوں نے ہلکا سا سر ہلایا اور بولے کہ ہمیں ہمیشہ یہی سننے کو ملا ہے کہ پاکستان بہت نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن اس دفعہ تو ہم سب باقاعدہ یہ مشکل وقت اپنے دل و دماغ پر سے گزرتا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں واشگاف انداز میں بتا رہا ہوں کہ ہم مسلم لیگ نون کے ساتھ نہ مل کے بیٹھنا چاہتے تھے نہ مل کے چلنا چاہتے تھے۔
پیپلز پارٹی ایک نظریاتی جماعت ہے، ہمارا مسلم لیگ نون سے نظریاتی اختلاف بھی ہے اور سیاسی اختلاف بھی۔ ہم نے ملک کی نازک صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے۔ وہ ایک لمحہ کے لیے رکے، گہرا سانس لیا اور پھر بولے، پیپلزپارٹی نے ملک کی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے تحریک انصاف کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن جزوی عوامی مقبولیت کے زعم میں عمران خان نے ہماری پیشکش کی اہمیت نہیں سمجھی۔ ہم نے اقتدار کے لیے نہیں بلکہ ملکی سالمیت کی خاطر ان کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا ورنہ حکومت میں تو ہم اب بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔
عمران خان درست فیصلہ کرتے تو آج انہیں خود ان کی پارٹی اور ورکرز کو یہ حالات نہ دیکھنے پڑتے۔ ہماری مثبت سوچ اور تعمیری سیاسی کردار کا عملی ثبوت یہ ہے کہ جب بھی تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی بات کی گئی ہے پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اس تجویز کو رد کیا ہے۔ جس طرح پیپلز پارٹی سے کچھ لوگ نکل کر تحریک انصاف میں گئے ہیں اور تحریکِ انصاف کے لوگ ہم سے رابطہ کر رہے ہیں اس کا مطلب یہی ہے کہ سیاسی رہنماوں نے بھی اپنی ترجیحات کا اظہار کردیا ہے۔ مسلم لیگ ن مرکز اور پنجاب میں پوری طرح ڈیلیور کرنے میں اس طرح کامیاب نہیں ہوسکی جس طرح وہ دعویٰ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تحریک انصاف کے ورکرز کی مشکلات پر خوش نہیں ہیں۔
پیپلز پارٹی سے زیادہ سیاسی جدوجہد کی مشکلات سے کوئی بھی واقف نہیں۔ نہ ورکرز کی تکالیف کا ہم سے زیادہ کسی کو احساس ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی پاکستان کی واحد جماعت ہے جس نے ورکرز سے قربانیاں نہ کبھی مانگی ہیٍں نہ لی ہیں بلکہ ہمارے لیڈرز نے ملک، عوام اور جمہوریت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری سالوں جیل میں رہے لیکن ہم نے اپنے کارکنوں کو حکومتوں کو بلیک میل کرنے کے لیے کبھی قربانی کا بکرا نہیں بنایا۔
آج بھی ہمارے چئیرمین بلاول بھٹو اور صدر آصف زرداری کی طرف سے پوری پارٹی کو ہدایات ہیں کہ ورکرز کے پیچھے چھپ کر نہیں چلنا بلکہ اس سے آگے سینہ تان کر چلنا ہے۔ اسی میں جمہوریت کی شان ہے۔ گورنر صاحب نے گفتگو کو ختم کرتے ہوے کہا کہ پاکستان کے حالات کا سدھار اب کسی ایک پارٹی کے بس کی بات نہیں رہ گئی۔ جب تک تمام پارٹیاں مل بیٹھ کر مشترکہ لائحہءعمل ترتیب دے کر پورے اخلاص سے اس پر عمل پیرا نہیں ہونگی مشکلات کم نہیں ہونگی۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئے۔
میں یہ سوچ رہا تھا کہ سیاسی بلوغت کا تعلق صرف عوامی مقبولیت سے نہیں ہوتا۔ یہ زمینی دانائی، سماجی شعور، سیاسی بصیرت، جدوجہد، ایثار اور خیر کی نیت سے جنم لیتی ہے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ میں عزت مآب گورنر صاحب سے کہوں کہ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی سے جو کچھ ہوسکا ہے اس نے کیا ہے لیکن کراچی آرٹس کونسل پر میرے بچھڑے ہوئے بھائی احمد شاہ کے گزشتہ سولہ سال کے قبضے کے خاتمے کے لیے حکومتِ سندھ نے کبھی کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا۔ اس معاملے میں وزیر اعلیٰ سندھ نے نہ تو کبھی کراچی کے حقیقی شاعروں اور ادیبوں کا درد سمجھنے کی کوشش کی ہے نہ مصوروں، موسیقاروں اور اداکاروں کا حال پوچھا ہے۔
ایک ایسا شخص کراچی آرٹس کونسل پر مسلط کردیا گیا ہے جس کا فن و ثقافت کے ساتھ دور دور تک کوئی رشتہ نہیں۔ جو منصور زبیری جیسے عظیم مجسمہ ساز اور مصور کے خلاف نعرے بازی کرواتا ہے اور لطف لیتا ہے۔ جس نے غیر فنکار ممبرز کا ایک اتنا بڑا انبوہِ کثیر اکٹھا کر رکھا ہے کہ الیکشن میں اسے ہرانے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مجھے تو یہ سوچ کر ہی تکلیف ہوتی ہے کہ پیپلز پارٹی جو غریبوں کی پارٹی ہے اس نے آرٹس کونسل جیسے ادارے پر کارپوریٹ سیکٹر کا قبضہ کیسے برداشت کیا ہوا ہے۔
دوسری طرف عمران خان نے اپنے ہی کارکنوں کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ کسی نظریاتی بنیاد اور مناسب لائحہءعمل کے بغیر پورے ملک کو آئے دن محض اس لیے بحران کا شکار رکھنا کہ آپ کی کال پر لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ یہ سراسر ظلم نہیں تو کیا ہے۔ جن کو سڑکوں پر لایا جاتا ہے ان کے بارے میں تحریک انصاف کی لیڈرشپ یہ تک نہیں سوچتی کہ یہ بھوکے پیاسے، تھکے ہارے اور غربت کے مارے لوگ گھروں کو واپس کیسے جائیں گے۔ اپنے پیروں پر جائیں گے، ایمبولینس میں، یاپھر تابوت میں؟