Kya Hum Ghalat Duayen Mang Rahe Hain?
کیا ہم غلط دعائیں مانگ رہے ہیں؟

دوا کی تلاش میں رہا دعا کو چھوڑ کر
میں چل نہ سکا دنیا میں خطاؤں کو چھوڑ کر
حیراں ہوں میں اپنی حسرتوں پہ اقبال
ہر چیز خدا سے مانگ لی مگر خدا کو چھوڑ کر
ایک نابینا شخص کسی درگاہ کے باہر بیٹھا ہوا تھا اور دعائیں مانگ رہا تھا کہ اللہ اسے بینائی عطا کرے۔ وہ کافی عرصہ وہیں رہا اور دعا کرتا رہا، مگر اس کی بینائی واپس نہ آئی۔
ایک مرتبہ بادشاہ اورنگزیب عالمگیر وہاں سے گزرے۔ انہوں نے اس نابینا شخص کو دیکھا اور اس سے پوچھا: "کیا تمہیں یقین ہے کہ اللہ تمہیں بینائی دے سکتا ہے؟"
نابینا شخص نے کہا: "ہاں، میرا ایمان ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے"۔
تب اورنگزیب عالمگیر نے حیران کن بات کہی: "اچھا، اگر تمہاری دعا قبول نہ ہوئی اور تمہاری بینائی واپس نہ آئی تو میں تمہیں قتل کر دوں گا"۔
یہ سن کر نابینا شخص کانپ اٹھا۔ اب اس نے روایتی انداز میں دعا مانگنے کے بجائے، پورے اخلاص، خوف اور یقین کے ساتھ اللہ کو پکارا۔ کچھ ہی دیر میں اس کی آنکھوں کی روشنی واپس آ گئی۔
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ دعا کی تاثیر کا دار و مدار اس کے اخلاص اور یقین پر ہوتا ہے۔ جب انسان مکمل سچائی اور اللہ پر کامل بھروسے کے ساتھ دعا مانگتا ہے، تو اللہ کبھی اسے نامراد نہیں کرتا۔
دعا بندے کی وہ صدا ہے جو زمین سے آسمان تک جاتی ہے، وہ التجا ہے جو دل کے نہاں خانوں سے نکل کر رحمتِ الٰہی کے دروازے پر دستک دیتی ہے۔ دعا مومن کا ہتھیار اور اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے۔ یہ وہ عظیم عبادت ہے جس میں بندہ سراپا عجز بن کر اپنے رب سے وہ مانگتا ہے جو اس کے مقدر میں ہو یا نہ ہو، مگر خالقِ کائنات اسے اپنے خزانے سے عطا کر دیتا ہے۔ لیکن یہ دیکھ کر اور یہ سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہم دعا میں دنیا ہی مانگتے ہیں۔ ہم میں سے قلیل لوگ ایسے ہوں گے جو خدا سے خدا کو مانگتے ہیں۔
آپ ایک تجربہ کریں کہ آپ دس لوگوں سے پوچھیں جی کہ اگر آپ کو تین دعاؤں کا کہا جائے کہ تین دعائیں مانگیں اور وہ دعائیں آپ کی قبول بھی ہوں گی۔ تو ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو یہ دعا مانگے کہ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ راضی ہو جائیں۔
ان میں سے کچھ احباب ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہماری مدینہ شریف حاضری ہو جائے، ہماری مکہ شریف حاضری ہو جائے۔ لیکن عاجز کا ان سے عاجزانہ سوال ہوتا ہے کہ آپ کی محبت، عقیدت، عشق سر آنکھوں پر، اختلاف رائے کا حق سب کو حاصل ہے آپ کمنٹ کرکے اپنی رائے سے آگاہ کر سکتے ہیں، عاجز کا ان سے یہ سوال ہوتا ہے کہ
وہ مدینہ شریف حاضر ہو کہ کیا کریں گے؟
وہاں بھی تو گناہوں کی بخشش ہی کروائیں گے۔
اس سے اچھا یہ نہیں کہ ہم یہ دعا کریں کہ "اللہ تو اور تیرا حبیب راضی ہو جائے، ہمیں وہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما جس سے تو اور تیرا حبیب راضی ہو جائے۔ اے مولا اگر تیری رضا ہے کہ عاجز مدینے حاضر ہو تو عاجز مدینے حاضر ہو جائے اگر تیری یہ رضا نہیں ہے تو عاجز نہ حاضر ہو، یا اللہ اگر تیری یہ رضا ہے کہ عاجز عمرے، حج کے پیسے کسی غریب کو دے دے تو یا اللہ عاجز اس پر بھی خوش ہے بس تو راضی ہو جا"۔
ایک اور گزارش آپ کی آنکھوں کی نظر کرتا چلوں کہ عاجز کی اس سے یہ بالکل مراد نہیں ہے کہ عاجز رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کو بے سود سمجھتا ہے۔
اللہ معاف فرمائے ایسی سوچ سے بھی اللہ دور فرمائے، عاجز کی بس یہی گزارش ہے کہ رسول اللہ کے دربار میں جائیں تو رسول اللہ فرمائیں او میرا غلام آگیا۔
جب روح میرے پیراہن خاکی سے نکلے
تو روضے سے آواز آئے او میرا غلام آگیا
عاجز کی ناقص رائے کے مطابق یہ دعا زیادہ بہتر ہے کیونکہ گناہوں کی بخشش یہ نچلا درجہ ہے اور اللہ اور اس کا حبیب راضی ہونا بہت بلند درجہ ہے۔
جب اللہ اور اس کے حبیب راضی ہوئے تو کیا پتہ کملی والے خود ہی، خواب میں دیدار کروا دیں۔
جب اللہ اور اس کا حبیب راضی ہونے کی دعا کریں گے تو اللہ خود ہی ہمیں اتنا مصروف کر دے گا کہ ہمیں گناہ کرنے کا وقت نہیں ملے گے، کیونکہ اللہ اور اس کا حبیب راضی ہی تب ہوگا جب گناہ نہ کئے جائیں۔
آخر میں یہی گزارش کروں گا کہ افطاری کا وقت قبولیت کا وقت ہے لیکن دیکھئیے گا کہ صرف دنیا ہی نہ مانگ لی جئیے گا۔
دنیا بھی مانگیں قرآن میں بھی آتا ہے
ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاٰخرۃ حسنۃ
یعنی "اے اللہ ہمیں دنیا میں بھی بہتر عطا فرما اور آخرت میں بھی"۔
یعنی دنیا بھی مانگنی چاہئے مگر آخرت کے ساتھ۔
اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا حبیب آپ سے عاجز سے اور عاجز کے والدین سے راضی ہو جائے۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ںستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات صبرآزما چاہتا ہوں
یہ جنّت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
شذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سُنا چاہتا ہوں
کوئی دَم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
چراغِ سحَر ہوں، بُجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں