زرداری صاحب کی سمجھداری
سیاست خود غرضی اور ذاتی مفادات کا کھیل ہے۔ اِس میں کوئی ہمیشہ کے لیے کسی کا دوست اور ہمدرد نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ بات بڑی حد تک درست اورصحیح بھی ہے۔ یہاں کل کا دشمن آج کا دوست ہوسکتا ہے اورکل کا دوست اور وفادار بڑی طوطا چشمی سے نظریں پھیر کر آج آپ کا دشمن بھی بن سکتا ہے۔
اِس لیے جسے یہ کام نہیں آتا اُس کے لیے بہتر ہے وہ اِس گیم کا کھلاڑی ہی نہ بنے تو بہتر۔ سیاست شطرنج کی مانند ایک ایسا کھیل ہے جس میں بڑی ہشیاری اور سمجھداری سے چالیں چلنا ہوتی ہیں، جو اِس میں ماہر ہو وہی کامیاب و سرخروکہلاتا ہے۔ آصف علی زرداری کا شمار بھی ایسے ہی کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ یہ خدا داد صلاحیت کسی کسی میں ہوا کرتی ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے سے جب سے پی ڈی ایم بنی ہے پاکستان پیپلزپارٹی کا رول انتہائی اہم رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں گرچہ عددی اعتبار سے اُس کی حیثیت مسلم لیگ نون کے مقابلے میں کچھ کم ہے لیکن پی ڈی ایم کے فیصلوں میں وہ باقی ساری جماعتوں پر حاوی نظر آتی ہے۔ ا س کی وجہ آصف علی زرداری کی وہ ذہانت اور قابلیت ہے جو انھیں باقی تمام سیاستدانوں سے منفرد اورمحترم بناتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی خوش قسمتی رہی ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے ہر الیکشن میں اُسے سندھ صوبے کی حکومت باآسانی مل جایا کرتی ہے۔
تمام انتخابات کے نتائج کے اعلان تک کسی بھی پارٹی کو اپنی جیت یا ہار کا پتا نہیں ہوتا لیکن پیپلز پارٹی کو سو فیصد معلوم ہوتا ہے کہ سندھ صوبہ کی حکومت اُسے ہی ملنے والی ہے۔ اِسی لیے وہ اِسے کسی اورکی خاطر بلا وجہ چھوڑنے کو تیارنہیں ہوتی۔ جس جمہوریت کی جدوجہد کی وہ دعویدار ہے اورجس کے ثمرات سے وہ لطف اندوز بھی ہواکرتی ہے اُن ثمرات سے وہ بھلا کیسے منہ پھیرسکتی ہے۔
فرض کیجیے پی ڈی ایم کے فیصلوں کے مطابق وہ قومی اور صوبائی اسمبلی سمیت تمام سیٹوں سے استعفیٰ دے دیتی ہے اور ایک ایسے لانگ مارچ کا حصہ بن جاتی جس کی کامیابی کا خود فضل الرحمن کو بھی یقین نہ ہوکیا ایسا عمل خود کشی یا خود کش حملے کے مترادف نہ ہوگا۔ صوبہ سندھ کی حکمرانی سے محروم ہوجانے کے بعد اُس کا حال کیا ہوگا وہ سوائے پیپلز پارٹی کے کوئی اور سوچ بھی نہیں سکتا۔
زرداری صاحب نے جو فیصلہ کیا ہے وہ اُن کے لیے اور اُن کی پارٹی کے حق میں بہت مفید اوردرست ہے۔ کوئی ذی شعور اور عقل مند سیاستداں خود کشی جیسے فیصلے نہیں کیا کرتا۔ جوش وجذبات میں ہونے والے فیصلے کبھی درست اور صائب نہیں ہوا کرتے۔ اول تو نون لیگ کو بھی سمجھنا لینا چاہیے کہ جب تک ملک کی مقتدر قوتیں خان صاحب کی پشت پر ہیں کوئی تحریک یا لانگ مارچ کامیاب نہیں ہونے والا۔ اور یہ بات زرداری اچھی طرح جانتے ہیں۔ تحریک کی ناکامی سے مولانا فضل الرحمن کا کچھ نقصان نہیں ہونے والا۔ اُن کی اور اُن کی پارٹی کی صحت پر اِس سے کوئی بڑا ڈینٹ نہیں لگنا۔ لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے مستقبل پربہت گہرے اوربرے اثرات ضرور پڑجائیں گے۔
وہ عوام کی اُس حمایت اور پذیرائی سے یقینا محروم ہوجائیں گے جو انھیں ابھی تک حاصل ہے۔ پھر دوسری جانب ڈسکہ کے علاوہ کچھ ضمنی الیکشن ابھی ہونا باقی ہے جس میں مسلم لیگ نون کو اپنی مقبولیت کا ڈنکا بجانا بھی ہے، وہ اگر استعفیٰ دیکر سڑکوں پر احتجاج شروع کردیتی ہے تو پھر اسے اِن ضمنی انتخابات سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا اور وہ یوں اپنی مقبولیت کھو جانے کے ساتھ ساتھ اُس الیکشن کمیشن کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچائے گی جس نے ڈسکہ میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف سخت ایکشن لیا۔ مسلم لیگ نون کو اپنی سیاسی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اُسے ملک کے کچھ اداروں کے خلاف جارحانہ پالیسی کو ترک کرناہوگا۔
جس طرح مسلم لیگ نون کا عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہ لانے کا فیصلہ حالات اور وقت کی نزاکتوں کے عین مطابق ہے اِسی طرح آصف علی زرداری کا استعفیٰ نہ دینے کا فیصلہ بھی یقینا ذہانت، قابلیت اور سیاسی شعورکا مجموعہ ہے۔ اِسے ذاتی دشمنی پر نہیں گردانہ جانا چاہیے۔ فضل الرحمن شروع شروع میں بہت ناراض دکھائی دیے لیکن ایک رات گذر جانے کے بعد انھیں اپنی سوچ بدلنا پڑی اور وہ زرداری کی دانش مندی اورحکمت عملی کے قائل ہوتے دکھائی دیے۔
پی ڈی ایم کو چاہیے کہ آصف علی زرداری کے مشوروں پر ناراض اور خفا نہ ہوں بلکہ اُن کی گہرائی میں چھپے اُن پیغامات پر نرم مزاجی اورٹھنڈے دماغ سے غورکریں تو یہ اُن سب کے لیے بہتر ہے۔ لانگ مارچ سے تو ویسے بھی کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ موجودہ حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک کے کوئی روشن امکانات نہیں ہیں۔ لہٰذا اپنی توانائی ضایع کرنے کے بجائے خان حکومت کے خلاف پارلیمنٹ میں اور ضمنی یا لوکل باڈیز کے انتخابات میں مقابلہ کر کے اپنی برتری ثابت کی جائے۔