زرداری ایک کامیاب سیاستدان
سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی ذہانت او ر قابلیت کے تو ہم پہلے ہی قائل تھے۔ اُن جیساسیاستداں اِس قوم نے شاید ہی کوئی دوسرادیکھا ہو۔ جہاں باقی سارے سیاستدانوں کی سوچ ختم ہوتی ہے وہاں سے جناب زرداری صاحب کی شروع ہوتی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹوصاحبہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے فیصلہ سے لے کر آج تک انھوں نے جوجو فیصلے کیے وہ سارے ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔
کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ بھٹو کی سب سے پیاری بیٹی کی شادی آصف علی زرداری سے کبھی ہوسکتی تھی۔ بالکل اِسی طرح ہم سب کے لیے یہ بات بھی بہت حیران کن تھی کی آصف علی زرداری کبھی اِس ملک کے سب اعلیٰ عہدے یعنی صدر مملکت کے منصب پر براجمان ہوسکتے تھے۔ محترمہ سے شادی سے لے کراُن کی شہادت تک آصف علی زرداری نے بڑی بڑی کامیابیاں اپنے نام کیں۔ محترمہ سے شادی کافیصلہ ہی ازخودایک بہت بڑاترپ کاپتہ تھااور وہیں سے اُن کے اچھے دن شروع ہوگئے۔
جنرل ضیاء الحق کے زندہ رہنے تک کسی کو معلوم بھی نہ تھاکہ وہ اِس طرح کسی طیارہ حادثہ میں یوں اچانک منظرعام سے غائب ہوجائیں گے اوراُن کے بعد محترمہ کادور شروع ہوگا۔ آصف علی زرداری کئی بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی گئے لیکن اُن کے رہن سہن اور طور واطوار میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ جیل کو اپنادوسراگھر سمجھتے رہے اور کبھی بھی وہاں جانے اور کئی کئی سال گذارنے پر پریشان نہیں ہوئے، یہ ہمت اور برداشت ہر ایک میں نہیں ہوتی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی قسمت بھی بہت اچھی لکھ ڈالی ہے۔
1993 میں وہ جیل سے سیدھے اسلام آباد کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں اور ایک بار پھروفاقی وزارت جیسے اہم عہدوں سے سرفراز ہوتے ہیں۔ اُن کے خلاف کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے بہت سے الزامات لگائے جاتے رہے لیکن کسی ایک مقدمہ میں بھی وہ الزامات صحیح ثابت نہیں کیے جاسکے۔ انھوں نے سیاست کے میدان میں بے شمار کامیابیاں اپنے نام کیں۔
2007 کے اواخر میں کسی کومعلوم بھی نہ تھا کہ محترمہ یوں اچانک اِس دارفانی سے رخصت ہوجائیں گی اورزرداری پارٹی میں اُن کی جگہ لے لیں گے۔ محترمہ کی ناگہانی شہادت کے وقت زرداری پاکستان میں بھی نہیں تھے۔ لیکن اُن کی شہادت کی خبر سنتے ہیں وہ فوراً واپس تشریف لاتے ہیں اوراپنے ساتھ محترمہ کی ایک وصیت بھی لے آتے ہیں۔ اُسی وصیت کے بل بوتے پروہ پارٹی کے مالک و مختار بنے۔ مخالفوں نے بہت کچھ کہا لیکن کوئی اُن کاکچھ بگاڑ نہیں پایا۔
محترمہ کی شہادت کے بعد لوگوں کاخیال تھاکہ آصف علی زرداری اورپاکستان پیپلزپارٹی فوری طور پرعام انتخابات میں جوفروری 2008 میں ہونے والے تھے حصہ لینے سے انکارکردیں گے۔ یہی سوچ کر میاں محمد نوازشریف نے بھی اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنی جانب سے الیکشن کے بائیکاٹ کااعلان کردیا، جب کہ خود آصف علی زرداری یہ موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔
یہ تواُن کی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کاسنہری موقعہ تھا جب محترمہ کی شہادت کی وجہ سے عوام کی بھر پور حمایت کو اپنے حق میں باآسانی استعمال کیاجاسکتاتھا اورہوا بھی یہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی یہ الیکشن جیت گئی اوریوں ایک بار پھر برسراقتدار آگئی۔ اب سوال تھاکہ کون وزیراعظم بنے۔
پارٹی میں سب سے سینئر رہنما مخدوم امین فہیم ہی وزارت عظمیٰ کے سب سے مضبوط اُمیدوار سمجھے جارہے تھے لیکن قرعہ یوسف رضاگیلانی کے نام نکل آیا۔ یہاں بھی آصف علی زرداری کی وہ سوچ کام کرگئی جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی۔ لہٰذاطے یہ کیاگیاکہ اب وزیراعظم سندھ کے علاوہ کسی اورصوبے سے ہوگا۔ مخدوم امین فہیم صاحب کانام اِسی لیے خارج ازامکان قرار پایا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف سمیت کسی کو پتابھی نہ تھا کہ اگلے چند ماہ میں وہ ایوان صدرسے یوں فارغ کردیے جائیں گے۔ میاں صاحب کی سادگی کافائدہ اُٹھاتے ہوئے آصف علی زرداری نے پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے کا فیصلہ کیا اورجوکامیابی سے پہلے ہی کارگر ہوگیا۔
آصف علی زرداری جسمانی طور پر آج کل بے شک بہت کمزور اور لاغر ہوگئے ہیں لیکن ذہنی اورسیاسی سوچ بوجھ میں اب بھی بہت مستند اور ایکٹیو ہیں، 27دسمبر2020 کو محترمہ کی برسی کے موقعہ پرانھوں نے بیس پچیس منٹ کاجو بے ساختہ خطاب فرمایا وہ کسی بھی منجھے ہوئے سیاستداں سے کم نہیں تھا۔ انھوں نے اِس بیس منٹ کے خطاب میں سیاست سے تعلق رکھنے والے ہرشخص اورہرادارے کو بند الفاظ میں ایک پیغام پہنچا دیااورثابت کردیاکہ سارے سیاستداں، سیاست کے اِس کھیل میں اب بھی طفل مکتب ہیں، انھیں سیکھنا ہے تووہ اُن سے سیکھیں۔
آصف علی زرداری کااپنی قابلیت کے بارے میں دعویٰ کوئی غلط اوربے جابھی نہیں ہے۔ وہ اپنے خلاف تمام کیسوں کے باوجود آج بھی بڑے اطمینان کے ساتھ زندگی گذاررہے ہیں، کوئی اُن کابال بیکا نہیں کرپایا۔ منی لانڈرنگ اورمالی کرپشن کے نجانے کتنے کیس اُن کے خلاف بنائے گئے۔ اُن کے جعلی اکاؤنٹ مقدموں میں بڑے بڑے بزنس مینوں کے نام شامل کیے گئے۔
انور مجید اورحسین لوائی شاید آج بھی اُن کاساتھ نبھانے کی وجہ سے مصائب کاشکار ہیں لیکن مقدمہ سازوں نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔ خود موجودہ حکومت نے بھی اِس جانب سے اپنی نظریں ہٹا لی ہیں اوراب ساری توجہ مسلم لیگ (ن) اوراُس کے سربراہ میاں نوازشریف کے خلاف مرکوز کرلی ہیں۔ اور آصف علی زرداری بلاول ہاؤس میں بیٹھ کر شطرنج کے مہرے بڑی ہشیاری سے کھیل رہے ہیں۔ اُن کاٹارگٹ کیاہے کسی کومعلوم نہیں۔ مگر جب وہ گیم مکمل کرینگے توسب یقینا حیران وششدر رہ جائیں گے۔
جس طرح انھوں نے پہلے پرویز مشرف اور پھر میاں نوازشریف کو فارغ کروایا اُسی طرح وہ جب چاہیں گے اب بھی ایسا ہی کر دکھائیں گے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ پرویز مشرف جیساطاقتور مطلق العنان حکمراں یوں زرداری صاحب کے چنگل میں پھنس جائے گااور مواخذے کی تحریک سے گھبراکر ازخود استعفیٰ دینے پر مجبور ہوجائے گا۔ اِسی طرح میاں نوازشریف کے بھی وہم وگمان میں ہرگز نہ تھاکہ بلوچستان جس کی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کاایک بھی ممبر نہ ہواوروہ ہاں اُن کی بنی بنائی صوبائی حکومت کو یوں اچانک زیر کردے گی اورپھر سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں بھی انھیں یوں پریشانی اورمشکلات کاسامنا کرناپڑے گاکہ وہ اپناچیئرمین بھی منتخب نہیں کرواپائیں گے۔
زرداری صاحب کی باتوں کوسمجھنے کے لیے بڑی ذہانت کی ضرورت ہے۔ لگتاہے وہ مارچ کے مہینے اورسینیٹ کے انتخابات کے بعد ہی کچھ کردکھاناچاہتے ہیں اور یہی پیغام انھوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں پی ڈی ایم کوبھی دے دیا ہے، اب پی ڈی ایم کی مرضی ہے وہ اِسے سمجھ پائے یا رد کردے۔