معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری
یہ بات ساری دنیا میں تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جس ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو وہاں معاشی استحکام کبھی نہیں آسکتا۔
آپ تاریخ اُٹھا کے دیکھ لیجیے معاشی میدان میں کامیاب ہونے والے ملکوں میں سیاسی استحکام ہی ایک اہم جز اور وجہ ہے۔ کبھی بھی کسی ایسے ملک میں معاشی و اقتصادی استحکام نہیں آسکتا جہاں کی حکومت ہی نا پائیدار ہو اور جہاں ہر وقت بے یقینی اور بے اعتباری کی فضا سروں پر منڈلاتی رہتی ہو۔
بدقسمتی سے ہماری ناکامی کی وجہ یہی ایک تلخ حقیقت ہے۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی نہ کرسکیں۔ جس دن ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اِس بات کا احساس ہوگیا اُس دن سے ہم ترقی وخوشحالی کے سفر پر گامزن ہوجائیں گے۔ جب ہمارے پڑوس اور اردگرد کے تمام ممالک آج ہم سے آگے نکل چکے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اُن سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
افغانستان اور بنگلہ دیش کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جب تک وہاں سیاسی عدم استحکام رہا اور بے یقینی اور بد اعتمادی کی فضا قائم رہی تباہی اور بربادی اُن کا مقدر رہی۔ لیکن پھر جب سے اُن کے یہاں ایک مستحکم سیاسی حکومت کا دور شروع ہوا وہ تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوگئے اور بنگلا دیش جسے ہم سے الگ ہوئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گذرا ہے معاشی استحکام میں ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے۔
بھارت کو چھوڑیئے وہاں تو یوم آزادی ہی سے ایک مستحکم سیاسی نظام ہی رہا ہے اور وہاں کبھی کسی طالع آزما نے جمہوری حکومت کو اچانک بیدخل اور معزول نہیں کیا، گرچہ کرپشن اور مالی بدعنوانیاں تو وہاں بھی کچھ کم نہیں رہی ہیں۔ مگر کسی نے اُسے بہانہ بنا کے ایسا غیر قانونی اور غیر دستوری قدم نہیں اُٹھایا۔ وہاں کے عوام کو ووٹ دیتے ہوئے معلوم رہتا ہے کہ وہ جس سیاسی حکومت کو منتخب کرنے جارہے ہیں اُسے اطمینان اور سکون سے مقررہ مدت تک کام کرنے کا موقعہ ضرور دیا جائے گا۔
انھیں پتا ہوتا ہے کہ اُن کے ووٹ کی کوئی اہمیت اور عزت بھی ہے۔ وہاں ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ الیکشن سے پہلے ہونے والے سروے الیکشن کے نتائج کے بعد غلط ثابت ہوئے ہوں، جس حکومت کے بننے کے اندازے لگائے جا رہے ہوں وہ یک دم راتوں رات غلط اور بے بنیاد بنا دیے گئے ہوں۔ موجودہ بھارتی حکومت کو ہی دیکھ لیجیے۔ وہ دوسری بار مسلسل حکمراں بنی ہوئی ہے۔
اُس پر کرپشن اور بدعنوانیوں کے خواہ کتنے ہی الزامات لگائے گئے ہوں لیکن کسی نے اُسے اقتدار سے باہر نہیں پھینک دیا۔ ابھی حالیہ دنوں میں وہاں کے کسانوں نے ایک ملک گیر تحریک بھی چلائی اور ایسا لگ رہا تھا کہ مودی حکومت اُن کے آگے گھٹنے ٹیکنے ہی والی ہے لیکن پھر کیا ہوا۔ اب نہ وہ دھرنا باقی رہا اور نہ احتجاج۔ کورونا سے نمٹنے پر بھی اُن کی حکومت پر بہت سے اعتراضات کیے گئے لیکن پھر بھی حکومت کو اپنی مقررہ مدت تک کام کرنے سے کسی نے نہیں روکا۔
بنگلا دیش کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ وہ ایک ایٹمی ریاست نہ ہونے کے باوجود مالی اور معاشی اعتبار سے ہم سے اچھی حالت میں ہے اور اُس کی کرنسی کی ویلیو بھی ہم سے بہت زیادہ مستحکم ہے۔ اُن کے حکمراں کشکول تھامے نگر نگر غیروں کے دروازے نہیں کھٹکھٹاتے پھر رہے ہیں۔ سوچا جائے تو یہ ہمارے لیے ندامت کا مقام ہے کہ ہم سے جدا اور الگ ہوکر دوسروں کا محتاج اور غلام ہونے کے بجائے وہ آج اپنے پیروں پر کھڑے ہوچکے ہیں اور ہمیں بتا رہے ہیں کہ دیکھو تم آج بھی وہیں کھڑے ہو جہاں 1970 میں تھے جب کہ ہم تم سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔
ہمارے یہاں طویل مدتی مارشل لاؤں کی حکومت بھی رہی۔ سوائے ایوب دور کے ہم نے کسی اور دور میں معاشی استحکام نہیں دیکھا۔ جمہوری حکومتوں کو تو یہاں کام کرنے ہی نہیں دیا گیا۔ کہنے کو ہمارے یہاں سیاسی پارٹیوں کو حکومت کرنے کے کئی بار مواقع فراہم کیے جاتے رہے، لیکن ہر وقت اُن کے سروں پر کسی انجانے خوف اور ڈر کا سایہ موجود رہا اور وہ قبل از وقت معزول بھی کیے جاتے رہے۔ کسی کو بھی مکمل اختیار کے ساتھ کام کرنے نہیں دیاگیا۔
کسی نے اگر درست کام کرنے کی کوشش بھی کی اور ملک میں بے تحاشہ ترقیاتی کام بھی کروائے اور اُسے بیرونی شکنجے سے باہر نکالنے کی جدوجہد بھی کی تو اُسے چلنے نہیں دیا گیا۔ ہم آج اگر ترکی، ملائیشیا، چائنا یا کسی اور ملک کی خوشحالی کی مثالیں پیش کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ وہاں یہ ترقی اور کامیابی سیاسی استحکام کی مرہون منت ہی رہی ہے۔ ترکی کے حکمراں آج اگر اپنے ملک کو اِس مقام تک لے آئے ہیں کہ وہ امریکا جیسی قوت کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتا ہے تو اُس کی وجہ بھی وہاں کا سیاسی استحکام ہے۔
ملائیشیا کی ترقی کا راز بھی وہاں کے سیاسی استحکام میں پنہاں ہے۔ مہاتیر محمد کو اگر سیاسی استحکام نہ ملا ہوتا تو وہ بھی وہ سب کچھ نہ کرسکتے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے سیاسی استحکام کا ہونا بہت ضروری ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ موجودہ وزیر خزانہ کو اس بات کا پوری طرح احساس ہے۔ وہ ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ مالی اور معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام لانا ہوگا۔
دنیا میں کرپشن کہاں نہیں ہوتی۔ لیکن کیا کرپشن اور احتساب کے صرف نعرے لگانے سے ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ بہت ہوگیا ہم نے پرویز مشرف دور سے ایسا کرکے دیکھ لیا پرویز مشرف نے بھی احتساب کے بہت بلند بانگ دعوے کیے تھے۔ مگر نتیجتاً کیا ہوا وہ بالآخر NRO کے نام پر وہ کچھ کرگئے جس کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔ اب ہماری موجودہ حکومت بھی تین سالوں سے یہی کچھ کررہی ہے۔
چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف احتسابی کارروائی کا ایجنڈا لے کر وہ اپنا آدھا وقت ضایع کرچکی ہے۔ کسی بھی بڑے ملزم سے ایک ڈھیلا بھی وصول نہیں کر پائی ہے لیکن بس صبح و شام یہ ورد کرتی ضرور دکھائی دیتی ہے کہ کسی کو NRO نہیں ملے گا۔ حالانکہ دیکھا جائے تو وہ اب تک کسی کاکچھ بگاڑ نہیں پائی ہے۔ سابقہ ملزمان کو تو چھوڑیئے آج کے نئے پیدا شدہ ملزمان میں سے بھی وہ کسی کو بھی قرار واقعی سزا نہیں دے پائی ہے۔
چینی، آٹے، پیٹرول اور میڈیسن اسکینڈلوں میں ملوث کوئی بھی ملزم جیل کی سلاخوں کے پیچھے دکھائی نہیں دے رہا۔ ابھی تازہ ترین اسکینڈل راولپنڈی رنگ روڈکا ہے جس کی تحقیقات کا کریڈٹ تو حکومتی ارکان اپنے نام کررہے ہیں لیکن کسی بھی نامزد ملزم کے خلاف شاید ہی کوئی کارروائی ممکن ہو۔