لانگ مارچوں کی کہانیاں
موجودہ حکومت کی تمام تر نااہلی اورناکامیوں کے باوجود آخر کیا وجہ ہے کہ اپوزیشن ابھی تک کوئی واضح اور متفقہ حکمت عملی اختیار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اِن کی جگہ آج اگر عمران خان اپوزیشن میں ہوتے تو سارا پاکستان الٹ کررکھ دیتے۔ یہ بات اپوزیشن کو سمجھنی چاہیے کہ اُن کی کیا کمزوریاں اور خامیاں ہیں جو انھیں کامیابی سے ہمکنار ہونے نہیں دے رہیں۔
گیارہ جماعتوں پر مشتمل اتحاد جس میں دو پارٹیاں تو اِس ملک کے سب سے بڑی پارٹیاں شمار کی جاتی ہیں ہنوزایک جامع پروگرام دینے سے قاصر رہی ہیں۔ اُن کے ہرلائحہ عمل میں غیر مناسب اور بے تکا پروگرام ترتیب دیاجاتا ہے۔ ستمبر 2020 میں ایک اے پی سی بلانے کے بعد حکومت کے خلاف جدوجہد کاجو پروگرام عوام کے سامنے رکھاگیاتھا اُس میں بھی بہت سے خامیاں اورجھول موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن پر عمل درآمد نہیں ہوپایا۔ جلسوں اورریلیوں کے بعد ایک لانگ مارچ اوراستعفیٰ دینے کاجو اعلان کیاگیا تھا اُس پر وہ خود بھی غیر یقینی کاشکار رہے ہیں۔
لانگ مارچ شروع نہ کرنے میں ناکامی پر سرد موسم کو بہانہ بنالیاگیاحالانکہ یہ تو پروگرام بناتے ہوئے ہی سوچاجاناچاہیے تھاکہ وہ اِس سخت موسم میں وہ یہ کربھی پائیں گے یا نہیں۔ پھر اِسی طرح استعفیٰ پر بھی وہ تذبذب اورہچکچاہٹ کا شکار رہے ہیں۔ لوگوں کو پہلے سے معلوم تھاکہ پاکستان پیپلزپارٹی استعفوں پرکبھی راضی نہیں ہوگی اوروہ لانگ مارچ میں بھی اپناکوئی بڑا حصہ نہیں ڈالے گی۔ پیپلز پارٹی کی تاریخ رہی ہے کہ وہ ایسے کام کسی بڑی یقین دہانی کے بناء نہیں کیا کرتی۔
پیپلزپارٹی نے اپنی 54 سالہ سیاسی تاریخ میں شاید ہی کبھی استعفے دیے ہوں۔ وہ لانگ مارچ بھی کرنے کی سخت مخالف رہی ہے۔ اسٹریٹ پاور دکھانے کی وہ دعویدار تو رہی ہے لیکن اُس کی یہ اسٹریٹ پاور صرف سڑکوں پر ہنگاموں اورہڑتالوں تک ہی محدود رہی ہے، وہ کسی بڑے مارچ کی متحمل ہوہی نہیں سکتی۔ وہ کیاکوئی اور بھی ایساکرنے کے قابل نہیں ہوتاہے جب تک کہ اُسے پس پردہ سپورٹ اورحمایت حاصل نہ ہو۔ محترم علامہ طاہرالقادری اور عمران خان صاحب نے 2014 میں جو ایک لانگ مارچ کااعلان کیاتھا، اس کی مثال موجود ہے۔
پیپلز پارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹوکی قیادت میں 1993 میں میاں صاحب کی اُس وقت کی حکومت کے خلاف جب ایک لانگ مارچ کااعلان کیاتھاتو بھی حالات کچھ ایسے ہی تھے۔ اعلیٰ عدلیہ کے تاریخی فیصلے کے چند ماہ بعد ہی میاں نوازشریف کو ازخود استعفیٰ لکھنے پر مجبورکردیاگیا۔ پنجاب اسمبلی میں مکمل عددی برتری کے باوجود منظوروٹو کو پارٹی سے منحرف کیاگیااور غلام حیدر وائن کی صوبائی حکومت کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک کامیاب کرادی گئی۔
یوں مرکز میں سپریم کورٹ کے فیصلے بعد میاں نواز شریف دوبارہ برسراقتدار آتو گئے لیکن پنجاب کی حکومت اُن سے چھین لی گئی اوریوں اسلام آباد پہنچنے کے لیے محترمہ کی راہ میں حائل ایک بڑی دشواری کا بھی خاتمہ بھی کردیاگیا، لیکن محترمہ پھر بھی وہ لانگ مارچ شروع نہ کرسکیں۔ پھر جوکچھ ہوا وہ ہماری سیاسی تاریخ کاایک ایساباب ہے جسے پڑھ کر اِس ملک میں حکمرانی کے سارے پوشیدہ راز آشکاراور عیاں ہوجاتے ہیں۔ وہ چاہے 1954 کازمانہ ہویاپھر 2017کا، سیاست آج بھی سرکس والے موت کے کنویں کی طرح اُسی گول دائرے میں گھوم رہی ہے۔ جمہوری حکومتوں کو معزول اورمحروم اقتدار کیے جانے کاسلسلہ یونہی جاری ہے۔
بات ہورہی تھی لانگ مارچ اور اُس کی کی کامیابی کے امکانات کی۔ ہمارے یہاں ایک لانگ مارچ جوبظاہر کامیابی سے ہمکنارہواتھا، وہ 2009 کاعدلیہ بحالی والا لانگ مارچ جواپنے اختتامی منزل پہنچنے پرسے پہلے ہی اپنے مطالبات کی منظوری پرمنتج ہوگیاتھا۔ اس کے علاوہ کوئی اورلانگ مارچ شاید ہی کبھی کامیابی سے ہمکنار ہوا ہو۔ علامہ طاہرالقادری نے ایک سے زائد مرتبہ لانگ مارچ بھی کیا اور دھرنے بھی دیے لیکن وہ سارے لانگ مارچ اور دھرنے ایک ایگریمنٹ کے بعد واپس توہوئے لیکن اُن معاہدوں پرکبھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ اِسی طرح اسلام آباد فیض آباد موڑ پردوبارہونے والے دھرنوں کاانجام بھی کچھ ایسے معاہدوں کے بعد کھایا پیاکچھ نہیں گلاس توڑابارہ آنے کے مصداق بے نتیجہ ہی رہا۔
ہماری اپوزیشن نے پہلے توسینیٹ کے الیکشن سے قبل ہی یہ سمجھ لیاتھاکہ اُن کے تحریک مارچ سے پہلے کامیاب ہوجائے گی لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ اُن کے وہم وگمان میں بھی نہ تھاکہ وہ اِس طرح لاچارومجبور کردیے جائیں گے اور اسمبلیوں کوجعلی قرار دینے کے باوجود نہ صرف اُس کے ضمنی انتخابات میں حصہ لے رہے ہوں گے بلکہ سینیٹ کے الیکشن میں بھی بھرپورشرکت کررہے ہوں گے۔
اپنی تحریک کو سرگرم رکھنے کے لیے انھوں نے لانگ مارچ کی تاریخ دے دی ہے، وہ بھی کسی ایسی ہی غیرسنجیدہ اورناقابل فہم حکمت عملی کامظہردکھائی دیتی ہے۔ 26 مارچ کو یہ مجوزہ مارچ کااگر آغاز ہوبھی گیاتو27مارچ کو ملک بھر میں شب برات ہوگی اور پندرہ روز بعد رمضان شریف کاآغاز ہوگا۔ کیا اپوزیشن یہ توقع کرتی ہے کہ لانگ مارچ شروع کرتے ہی حکومت کاخاتمہ ہوجائے گا۔ ہرگز نہیں۔ حکومت کا تو نہیں البتہ خود لانگ مارچ کاقبل ازوقت ہی دیہانت ضرور ہوجائے گا۔
اپوزیشن کی ایسی حکمت عملی اُس کی ناکامی کی بڑی وجہ ہے۔ وہ کچھ سوچے سمجھے بغیر ہی پروگرام تشکیل دے دیتی ہے اور پیپلز پارٹی کے مزاج اور کردار کو پرکھے بناء ہی اُس کی یقین دہانیوں پر بھروسہ کرلیتی ہے، جب کہ لال حویلی کے مکین شیخ رشید پیپلز پارٹی کواچھی طرح جانتے ہیں، وہ پہلے دن سے یہ کہتے دکھائی دیتے رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کبھی لانگ مار چ کاحصہ نہیں بنے گی اورنہ استعفیٰ دینے پرراضی ہوگی۔ نجانے یہ بات مولانا فضل الرحمن اورمریم نواز کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔ 27 دسمبر 2020 کو محترمہ کی برسی والے دن لاڑکانہ کے جلسے میں ویڈیو پیغام میں خود آصف علی زرداری نے کھل کریہ بات واضح کردی تھی کہ اگر تحریک چلانی ہے تو اُن کی ہدایتوں پرعمل کرناہوگا۔
فضل الرحمن کوپی ڈی ایم کاسربراہ بنانے پر بھی پیپلز پارٹی کوکچھ تحفظات تھے مگر اُن پر سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیاگیا۔ اب اگرتحریک ناکامی سے دوچار ہوتی ہے تواُس کی ذمے داری یقینا اُن لوگوں پرہوگی جوپی ڈی ایم میں فیصلہ کن رول اداکررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی تو یہ کہہ کرخود کواُس سے مبرا کر دے گی کہ ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کوئی غیر جمہوری اورغیر آئینی اقدام ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ اُس کے نزدیک استعفے کی سیاست غیر مناسب اورغیر سنجیدہ طرزعمل ہے۔
اُس کے اولین ترجیح عدم اعتماد کی تحریک ہے، لیکن جس طرح مریم نواز نے اُس سے یہ مطالبہ کردیاہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے لیے مطلوبہ تعداد میں ارکان اسمبلی کے نمبر شو کیے جائیں اُسی طرح اب پیپلزپارٹی نے بھی مسلم لیگ سے یہ مطالبہ کردیاہے کہ مارچ میں شرکت کے لیے مسلم لیگ نون یامولانافضل الرحمن صاحب ایک لاکھ افراد یکجا کرنے کایقین دلائیں توو ہ اُس میں شرکت کرے گی۔ یوں یہ مجوزہ لانگ مارچ اپنی پیدائش سے بہت پہلے ہی دم توڑچکا۔