زینب الرٹ بل، ایک غیر معیاری قانون سازی
زینب الرٹ بل، اپنی روح کے اعتبار سے مبارک مگر متن کے اعتبار سے ناقص کوشش ہے۔ قانون سازی تو یہ بہر حال خوش آئند چیز ہے لیکن اقوال زریں کے جس مجموعے کو پارلیمان میں پیش کیا گیا ہے علم اور زمینی حقائق کی دنیا میں یہ ایک نامعتبر دستاویز ہے۔
بل کی دفعہ 1 میں کہا گیا ہے کہ اس کا اطلاق صرف اسلام آباد میں ہو گا۔ جس بچی سے یہ بل منسوب کیا گیا وہ قصور کی تھی۔ اس بچی کا قتل قصور میں ہوا۔ اس کا قاتل بھی قصور کا رہنے والا تھا۔
بچوں پر تشدد کے سب سے زیادہ واقعات بھی قصور میں ہوئے لیکن آپ دو سال بعد ایک بل لے آئے ہیں تو اسے صرف اسلام آباد تک محدود کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صرف اسلام آباد کیوں؟ اس سوال کا تعلق جورسپروڈنس سے بھی ہے اور متن سے بھی۔
حکومت کے پاس اس سوال کا جواب غالبا یہ ہے کہ اس بل میں چونکہ تعزیرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری میں ترمیم کی گئی ہے اور اٹھارویں ترمیم کے بعد پولیس اور امن عامہ اب وفاق کا نہیں بلکہ صوبوں کا معاملہ ہے اس لیے وفاق کے پاس اس بات کا اختیار نہیں تھا کہ وہ اس قانون کا اطلاق صوبائی سطح پر بھی کر سکتا۔ چنانچہ وفاق نے ایک قانون بنا کر اسے اسلام آباد میں نافذ کر دیا ہے، اب باقی صوبے اس کی روشنی میں قانون سازی کر نے میں آزاد ہیں۔ یہ دلیل کمزور ہے۔ یہ کوئی معمولی سی قانون سازی نہ تھی کہ ضابطے کی مشکلات کا بہانہ بنا لیا جائے۔ وفاق کو چاہیے تھا وہ صوبوں کو اعتماد میں لیتا اور وسیع تر مشاورت کے بعد ایک ایسا قانون بنایا جاتا جو بیک وقت ملک بھر میں نافذ العمل ہو جاتا۔
سندھ میں آئی جی پولیس کی تعیناتی کے معاملے پر اگر وفاق اس قدر غیر معمولی حساسیت کا مظاہرہ کر سکتا ہے کہ منتخب وزیر اعلی سندھ کو آئی جی کوہٹانے کا اختیار بھی نہیں تو بچوں کی قانون سازی کے وقت یہ عذر کیسے اختیار کیا جا سکتا ہے کہ پولیس اور تعزیرات اب صوبائی معاملہ ہے۔ اس قانون کی عبارت نظام قانون کے ساتھ کسی سنگین مذاق سے کم نہیں۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 154 میں ایک ایسی ترمیم کی گئی جس نے پورے فوجداری ڈھانچے کو تماشا بنا دیا ہے۔
یہ دفعہ ایف آئی آر سے متعلق ہے اور اس میں لکھا ہے کہ جب پولیس کو کسی جرم کی بابت اطلاع دی جائے گی تو پولیس اس شکایت کو تحریری طور پر درج کرے گی۔ یہاں Shall کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی یہ اب پولیس کی صوابدید نہیں کہ وہ چاہے تو ایف آئی آر درج کرے اور چاہے تو نہ کرے بلکہ وہ پابند ہے کہ ایف آئی آر درج کرے۔ لیکن اس کے باوجود ایف آئی آر درج نہیں ہوتی اور لوگوں کو 22 اے کے تحت جسٹس آف پیس کے پاس جانا پڑتا۔
زینب الرٹ بل کے تحت اس دفعہ میں تبدیلی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ باقی جرائم کی اطلاع ملنے پر پولیس ایف آئی آر درج کرے گی، یعنی shall کے تحت معاملہ ہو گا لیکن زینب بل کے تحت پولیس Shall compulsarily ایف آئی آر درج کرے گی۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ قانون ساز یہ کہہ رہے ہیں اب باقی جرائم میں بھلے پولیس ایف آر درج نہ کرے کیونکہ Compulsarily کا لفظ صرف زینب بل کے تحت ایف آئی آر کے لیے استعمال ہوا ہے۔
قانون کی دنیا میں may اور Shall کا فرق تو موجود تھا اور may کا تعلق صوابدید سے تھا جب کہ shall کا مطلب کسی کام کے لازمی طور پر کرنے سے تھا۔ اب پارلیمان کے کمالات دیکھیے انہوں نے may اور shall کے ساتھ shall compulsarily کی نئی اصطلاح استعمال کرا دی۔ جس نے shall کی ساری معنویت ختم کر دی ہے۔ قانون کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا گیا ہے جس کے اثرات سامنے آئیں گے تو اس کی سنگینی کا احساس ہو گا۔
سیاسی تماشے اور قانون سازی میں فرق ہوتا ہے۔ قانون سازی کی دنیا میں ایک ایک لفظ کی اہمیت ہوتی ہے۔ جب کوئی نیا قانون بنایا جاتا ہے اور اس کا مقصد محض کارروائی ڈالنا نہ ہو بلکہ اصلاح احوال ہو تو مسودے کے ایک ایک لفظ پر غور ہوتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
اسی لیے مغربی دنیا میں قانون سازی سے پہلے وسیع تر مشاورت کی جاتی ہے اور سماج اور سٹیک ہولڈرز کی رائے لی جاتی ہے تا کہ قانون میں کوئی سقم نہ رہ جائے۔ ہمارے ہاں چونکہ مقصد کارروائی ڈالنا ہوتا ہے تو وزارت انسانی حقوق نے ایک کارروائی ڈال دی۔
کارروائی ڈالتے ہوئے وکلاء برادری سے مشاورت تو دور کی بات ہے کسی نے یہ دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی کہ بچوں کے ساتھ ہونے والے جرائم کی تفتیش کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کیا سفارشات پیش کر چکی ہے اور وہ کتنی اہم ہیں۔
تفتیش ان جرائم میں سب سے تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے اور جو بچہ پہلے درندگی کا شکار ہو چکا ہوتا ہے وہ پولیس کے رویے کی اذیت سے گزرتا ہے تو گویا ایک نئے عذاب سے گزرتا ہے۔
اسی لیے عدالت نے ہدایت کی تھی کہ ایسے مقدمات کی تفتیش اے ایس پی رینک کا افسر کیا کرے۔ نہ پولیس نے اس ہدایت پر توجہ دی نہ قانون سازوں نے اس پر غور کیا۔ کالم کی تنگنائے یہیں سمٹ گئی، اس قانون کے کمالات تو ابھی باقی تھے۔ تو کیا ایک اور کالم لکھنا پڑے گا؟