شعیب شاہد کی قوس قزح
جنگل میں چلتے ہوئے ہمیشہ یہ تجسس رہتا ہے کہ پگڈنڈی کے اس موڑ سے آگے کیا ہو گا، اس وادی سے اگلی وادی کیسے ہو گی اور اس ندی کے اُس پار کی دنیا کیسی ہو گی۔ اسی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے سارا مارگلہ گھوم لیا۔ دعویٰ نہیں لیکن میرا گمان ہے کہ مارگلہ کے سب راستے مجھے گائوں کے راستوں کی طرح یاد ہیں۔ کتنی شوخ بہاریں، کتنے منہ زور ساون، کتنے بے رحم جاڑے، کتنی گرم دوپہریں اور دھند میں لپٹی کتنی شامیں میں نے مارگلہ کی پگڈنڈیوں پر گزاریں، اب کوئی شمار نہیں۔
یہ ایک دو برس کا نہیں بیس پچیس سالوں کا ساتھ ہے لیکن اب بھی یہی عالم ہے کہ شام اتر رہی ہوتی ہے اور تیندووں کی وجہ سے جنگل میں جانے والوں کو ہدایت جاری کی جا چکی ہے کہ غروب آفتاب سے آدھا گھنٹہ پہلے واپس آ جائیں لیکن میں خود کو سمجھا رہا ہوتا ہوں کہ بس وہ ذرا اس موڑ تک جا کر ایک نظر دیکھ لوں کہ ڈوبتا سورج وہاں سے کیسا دکھائی دیتا ہے اور غروب آفتاب کے ان لمحوں میں نشیب کی وسعتوں میں پھیلا جنگل کیسا منظر پیش کرتا ہے۔
شوق کا جو عالم مجھے مارگلہ کے پہاڑوں میں لیے پھرتا ہے کسی بک شاپ، میں جا گھسوں تو وہی عالم شوق مجھے عالمی ادب، کی ان دیکھی دنیائوں میں لے جاتا ہے۔ اکادمی ادبیات نے اس ضمن میں کافی اچھا کام کیا ہے لیکن کچھ تراجم میں وہ روانی نہیں ہے جو ادب کا خاصہ ہوتی ہے۔ ترجمہ کرتے کرتے اگر مترجم تحریر کا حسن ہی گنوا بیٹھے تو اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے۔ ایسے تراجم میں جو مسائل ہوتے ہیں ان پر جناب زیف سید نے خور خے لوئس بورخیس کے پندرہ منتخب افسانوں کے مجموعے " بھول بھلیاں " کے ابتدائیے میں " ایک اور ترجمہ کیوں؟" کے عنوان سے تفصیل سے بات کی ہے۔ میرے بس میں ہوتو یہ تحریر تمام مترجم حضرات کو پیش کروں کہ ترجمہ کرنے سے پہلے اسے پڑھ لیں۔
رسول حمزا توف کے " میرا داغستان" کا ترجمہ دہلی کے ڈاکٹر اجمل اجملی صاحب نے کیا اورحق ادا کر دیا۔ کتاب پڑھتے ہوئے ایسے محسوس ہوتا ہے حمزا توف براہ راست اردو میں آپ سے ہمکلام ہیں اور بیچ میں مترجم کہیں بھی نہیں ہے۔ یہ وہی بات ہے جو سید مودودی نے تفہیم القرآن، کے دیباچے میں لکھی کہ میں نے عربی مبین کا ترجمہ اردوئے مبین میں کر دیا ہے۔ ترجمے کا حق ایسے ہی ادا ہوتا ہے کہ اسے جس زبان میں کیا جائے، اس زبان کے اسلوب و بیان کے کمال پر کیا جائے۔
انگریزی ادب کا تو میں طالب تھا لیکن انگریزی شاعری مجھے کبھی متاثر نہ کر سکی۔ میں اہل ادب سے اس جسارت پر معافی چاہتا ہوں لیکن سچ یہی ہے کہ اس میں سطحیت کا ایک احساس ہے جو دامن گیر ہو جاتا ہے۔ اردو کے بارے میں بھی میرا اولین تجربہ کم و بیش ایسا ہی تھا۔ اٹھتی جوانی کے دنوں میں اس سے راہ ورسم ہوئی تو اردو کے شعراء کی محبت عزت نفس سے یکسر محروم کسی سوالی کا دست سوال دکھائی دیا ور ان کا مزاح عورتوں کے بارے میں عامیانہ اسلوب تک محدود رہا۔ اگر بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ ذوق میں تبدیلی ہوئی تو نتائج فکر بھی بدل گئے لیکن پہلی محبت کی طرح پہلا تاثر بھی بہت جاندار ہوتا ہے۔ جاتے جاتے جاتا ہے۔
عربی شعراء کا معاملہ البتہ مختلف تھا۔ امرائولقیس کے کچھ اشعار پڑھے تو خود کو حیرت کدے میں پایا۔ پھر قدیم عرب شعراء کے تراجم کی تلاشکی۔ کچھ تراجم ملے لیکن میر ے جیسا انتہائی واجبی سے بھی کم سطح کی عربی جاننے والا آدمی بھی ان تراجم کو دیکھ کر محسوس کر سکتا ہے کہ مترجم نے شاعر کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ اکثر یہ خیال دامن گیر ہو جاتا کہ امرائولقیس، لبید بن ربیعہ جیسوں کی شاعری کا اردو ترجمہ اگر فیض یا افتخار عارف نے کیا ہوتا تو اس کا معیار کیا ہوتا۔ ایک انگریزی ترجمہ مجھے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ جناب اشتیاق اندرابی نے بھجوایا لیکن وہ لبید بن ربیعہ کے چند منتخب اشعار تک محدود تھا۔ یہ حسرت ہی رہی کہ امرائولقیس سے فرزدق تک ان شعراء کا کوئی ترجمہ اردوئے مبین یا انگریزی مبین میں کہیں دستیاب ہو جاتا۔
مخاچ قلعے کے حمزا توف نے آوار زبان میں کتاب لکھی اور دنیا نے اس کے تراجم پڑھے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے بار بار خیال آیا کہ آوار زبان کی نثر کی شیرینی کا اگر یہ عالم ہے تو اس کی شاعری کتنی قیامت خیز ہو گی۔ برف زاروں سے ہمیشہ کی محبت ہے۔ ایک شام بیسل میں برف اتری تو آتش دان سے لگے اچانک ایک خیال نے چھو لیا کہ روس کے شعراء ایسے سخت جاڑوں میں کیسی شاعری کرتے ہوں گے۔ اسلام آباد پہنچ کر مسٹر بکس کے یوسف بھائی سے پوچھا لیکن ناکانی ہوئی۔ اکا دکا کچھ چیزیں ملیں لیکن تشنگی کا ساماں نہ مل سکا۔
یہی معاملہ فارسی کے ساتھ رہا۔ اقبال ؒ کی کل شاعری کا ساٹھ فیصد اگر فارسی میں ہے تو کیا یہ زبان معمولی ہو گی؟ فارسی سے کٹ کر گویا ہم اپنے تہذیبی دھارے سے کٹ گئے۔ تشنگی کے اس عالم میں اگلے روز برادر محترم ڈاکٹر شعیب شاہد کی کتاب " قوس قزح " ملی۔ سرورق نے ہی خانہ دل کو چھو لیا۔ لکھا تھا" ایرانی شاعری کے تراجم"۔ رات گئے تک میں یہ کتاب پڑھتا رہا، یہاں تک کہ اجالا ہو گیا۔ انتخاب بھی اعلیٰ ہے اور مترجم نے ترجمے کا حق ادا کر دیا ہے۔ ندرت خیال اور حسن کلام اس کتاب میں ہاتھ تھامے چل رہے ہیں۔ جو احساس حمزا توف کی "میرا داغستان" پڑھتے دیوار دل میں خیمہ زن ہو جاتا ہے وہی اس کتاب کے مطالعے میں بھی آ کر پڑائو ڈال لیتا ہے۔ انتخاب اور اس کا ترجمہ اس معیار کا ہے کہ رات کے کسی پہر، جب کل جہان سو جائے، اس کتاب کو گھونٹ گھونٹ پیا جائے۔
کتاب میں درج شعراء اور ان کے کلام کو میں دانستہ اس کالم کا موضوع نہیں بنا رہا۔ یہ ایک کالم کا موضوع ہی کب ہے۔ اس کتاب کے ساتھ تو ایک عشرہ بتایا جا سکتا ہے۔ سر دست تو صرف اس خوشی کا اظہار مقصود ہے کہ برسوں کی تشنگی کے ہاتھ پیالہ آ گیا ہے۔ اسے ایک سانس میں نہیں گھونٹ گھونٹ پیا جائے گا۔ مزید خوش آئند بات یہ ہے کہ کتاب کو ادارہ تالیف و ترجمہ پنجاب یونیورسٹی، نے شائع کیا ہے اور وائس چانسلر جامعہ پنجاب ڈاکٹر نیاز احمد اختر کے تبصرے سے معلوم ہو رہا ہے کہ جامعہ پنجاب میں یہ سلسلہ اہتمام سے جاری رہے گا اور ہم جیسے مشاق کو عالمی ادب سے فیض یاب ہونے کا موقع ملتا رہے گا۔
ڈاکٹر شعیب شاہد جو جامعہ پنجاب میں صدر نشین کرسی رومی ہیں، دیباچے میں لکھتے ہیں کہ یہ بیسویں صدی کے نصف اول کے شعراء کے کلام کا ترجمہ ہے۔ میرے جیسے طالب علم اب اس انتظار میں ہیں کہ فارسی کے قدیم شعراء کے کلام کا ترجمہ کب آتا ہے۔ شعیب شاہد جو خود بھی ایک شاعر ہیں، بلاشبہ اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ یہ بھاری پتھر اٹھا لیں اور اس کا حق بھی ادا کر دیں۔