سلطنت عثمانیہ سے اسرائیل تک
گیارہ ستمبر 1917 کو، جب سلطنت عثمانیہ کی فوجیں پسپا ہوئیں تو جنرل ایلن بی ایک فاتح کی حیثیت سے یروشلم میں داخل ہوا۔ عرب دنیا نے اس لڑائی میں جس برطانیہ کا ساتھ دیا اسی برطانیہ نے بعد میں اعلان بالفور کے ذریعے فلسطین میں اسرائیل بنا ڈالا۔ آج عرب دنیااس اسرائیل کے آگے بے بس ہے۔ کچھ اسے تسلیم کر چکے ہیں اور کچھ کی بابت خیال کیا جا رہا ہے کہ جلد ہی کر لیں گے۔ عربوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف اس بغاوت کو " الثورہ العربیہ الکبرہ" عظیم عرب بغاوت کا نام دیا۔ اس عظیم بغاوت کا پرچم ایک برطانوی سفارت کار مارک سائیکس نے تیار کیا تھا۔ دل چسپ بات ہے کہ آج بھی ( سعودی عرب کے علاوہ) عرب ریاستوں کا پرچم یہی ہے۔ حتی کہ خود فلسطین کا پرچم بھی اصل میں عرب بغاوت ہی کا پرچم ہے۔ آسی غازی نے کہا تھا:
درد دل کتنا پسند آیا اسے
میں نے جب کی آہ، اس نے واہ کی
سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بھی ظاہر ہے اپنے اسباب ہیں۔ اور عربوں نے ان کے خلاف بغاوت کی تھی تو اس میں بھی سلطنت عثمانیہ کے طرز حکومت اور مظالم کا بڑا اہم کردار تھا۔ وہی بات کہ حادثہ اچانک نہیں ہو جاتا۔ وقت کی گود میں اس کی برسوں پرورش ہوتی ہے۔ عثمانیہ سلطنت کے زوال کے اسباب کی ایک طویل فہرست ہو سکتی ہے لیکن چند اسباب ہم سب کے لیے حیرت اور عبرت کا سامان لیے ہوئے ہیں۔ شاید ہم ان سے کچھ سیکھ سکیں۔
سلطنت عثمانیہ کے زوال پر مہر اس روز لگی جب سلطان سلیم کو معزول کر کے قتل کر دیا گیا۔ یہ کہانی بڑی دل چسپ اور بڑی عبرت ناک ہے۔ سلطان سلیم سوئم ایک صاحب علم تھا۔ اسے یہ احساس بھی تھا کہ خطرات بڑھ رہے ہیں اور سلطنت عثمانیہ کے لیے اپنی افواج کو جدید خطوط پر منظم کرنا ضروری ہو چکا ہے۔ اس نے ابتدائی مرحلے میں " نظام الجدید" کے نام سے ایک فوجی دستہ تیار کیا۔ بھرتی اور ترقی کا نیا نظام متعارف کرانے کی کوشش کی جس کی شدیدمخالفت کی گئی۔
سلطان نے فوج کو طاقت ور کرنے کے لیے سنگین والی رائفلیں منگوائیں تو اس وقت کے شیخ الاسلام عطا اء اللہ آفندی صاحب نے فتوی دے دیا کہ یہ تو کافروں کا ہتھیار ہے اور ہماری افواج کے لیے اس کا استعمال حرام ہے۔ سلطان نے افواج کو مستعد اور متحرک رکھنے کے لیے نئی فوجی وردی تیار کروائی تو شیخ الاسلام نے فرمایا اس وردی سے نصاری یعنی عیسائیوں سے مشابہت ہوتی ہے اس لیے اس وردی کا پہننا حرام ہے۔ اس سلطان میں ایک ویژن تھا۔ اس نے یورپی ممالک میں پہلی بار باقاعدہ سفارت خانے بنائے۔ اس کی سلطان فتح علی ٹیپو کے ساتھ بھی خط و کتابت تھی۔ یہ رہ جاتا تو سلطنت عثمانیہ جدید عسکری خطوط پرمنظم ہو جاتی اور آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا لیکن عزت مآب جناب حضرت شیخ الاسلام نے فتوی دے ڈالا کہ سلطان ہماری افواج کے اندر کافروں کا اسلحہ لا کر کافروں کے طریقے رائج کر رہا ہے۔ یہ قرآن کے خلاف عمل کر رہا ہے۔ یہ تشبہ باالنصاری کا مرتکب ہو چکا ہے اور از روئے شریعت یہ سلطان رہنے کے قابل نہیں۔
جانثاریوں میں پہلے ہی اصلاحات کی مخالفت تھی۔ فتوے نے راہ آسان کر دی۔ سلطان معزول ہوا اور قتل کر دیا گیا۔ ایسا نفیس سلطان تھا کہ " نظام الجدید"کے 23 ہزار فوجیوں کے ذریعے جانثاریوں کو چاہتا تو کچل پھینکتا لیکن اس نے اپنی طاقت اپنوں پر استعمال نہیں کی اور اپنوں نے اسے مار ڈالا۔
اس کے بعد سلطان محمود تخت نشیں ہوا تو اسے یہ بھی خطرہ دامن گیر ہوا کہ افواج کو جدید خطوط پر منظم اور مرتب نہ کیا گیا تو سلطنت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اس نے بھی کچھ اصلاحات کرنے کی کوشش کی۔ شیخ الاسلام نے فرما دیا کہ یہ بد عت ہے چنانچہ ترک علماء اور درویش حضرات اس بدعتی کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ عوام سے کہا گیا کہ سلطان کافروں کا اسلحہ لا رہا ہے اور کافروں کے اسلحے سے لڑنا بدعت اور گمراہی ہے، لہذا اپنے ایمان کو بچانا ہے تو اس سلطان کی فوج میں بھرتی نہ ہوں۔ یہ 1826 کی بات ہے۔ سلطان کے اس انجام کے بعد سب کو سبق حاصل ہوا کہ افواج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد کسی نے کافروں جیسا اسلحہ رکھنے کی جرات نہیں کی اور اس" مسلمانی" کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ وہ ترکی جو کبھی اپنی بحری قوت کے حوالے سے دنیا میں ایک مقام رکھتا تھا، وہ اس حال کو جا پہنچا کہ جب بھاپ سے چلنے والا جہاز تیار کروا کر سلطان عبد الحمید دوم نے سمندر میں بھیجنا چاہا تو اس کی بھی مخالفت کی گئی۔ یورپ کہاں سے کہاں جا پہنچا تھا مگر ترک سلطان ابھی اپنے مذہبی طبقے کو اس بات پر قائل کر رہا تھا کہ سمندر میں بھاپ سے چلنے والا جہاز نا جائز یا بد عت نہیں ہے بلکہ وقت کی ضرورت ہے۔ سلطان نے شیخ الاسلام کو اس بحری مسئلے میں کیسے قائل کیا یہ الگ کہانی ہے لیکن جب یہ تیار ہو گیا تو مذہبی طبقے نے ایک نئی شرط کھڑی کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاز سمندر میں بھیجنا ہی ہے تو پہلے اس پر بخاری شریف کا ختم کروایا جائے۔ اس پر ایک ترک بحری افسر نے کہا کہ:" انا الاسطول یسیر، بالبخار، لا بخاری"۔ کہ جہاز بخار ( بھاپ) سے چلتا ہے بخاری سے نہیں۔ علماء کے اس رویے کے خلاف افواج کا یہی رد عمل تھا جو چند سال بعد" ینگ ترک" کی شکل میں سامنے آیا اور رد عمل کی انتہاء کو پہنچا تو " کمال ازم" کہلایا۔
زوال کے موسموں میں محض احتجاج اور جذباتیت سے کچھ نہیں ہوتا۔ جذباتی نعرے اور سڑکوں پر ٹائر جلا کر کامیابیاں ملا کرتیں تو پاکستان کے ہر محلے میں دو تین درجن فاتح اعظم قیام پزیر ہوتے۔ کامیابی اپنی اصلاح اور تعمیر سے ملتی ہے۔ اور اس کے لیے خود احتسابی کا بھاری پتھر اٹھانا پڑتا ہے۔
سوال یہ ہے: کیا ہم اپنے زوال کی وجوہات پر سنجیدگی سے غور کرنے کو تیار ہیں؟