مزار ِ قائد کا پروٹوکول اور کیپٹن صفدر
مزار قائد کا پروٹوکول کیا ہے اور کیا اس ضمن میں کوئی قانون اور ضابطہ موجود ہے؟
سیاسی عصبیت کا معاملہ یہ ہے کہ اسے اپنی صفوں میں کوئی خامی نظر نہیں آتی اور مخالفین میں اسے کوئی خوبی دکھائی نہیں دیتی۔ کیپٹن صفدر صاحب کی جگہ عمران خان ہوتے تو تحریک انصاف کے دلائل وہی ہوتے جو اس وقت مسلم لیگ ن کے ہیں۔ سیاسی عصبیت کسی اصول قاعدے اور ضابطے کو نہیں دیکھتی، وہ صرف دھڑے کو دیکھتی ہے۔ دھڑے کی دانش صرف اپنے گروہ کے حق میں دلائل لاتی ہے۔ چنانچہ اس وقت اقتدار کی صف میں اس بات پر اتفاق ہے کہ کیپٹن صفدر کی گرفتاری ٹھیک ہوئی ہے اور حزب اختلاف کے ہاں اتفاق رائے ہے کہ یہ غلط ہوا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو عصبیت کی بجائے دلیل سے معاملہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ سوال ان کے دامن سے بھی آن لپٹا ہے کہ مزار قائد کا پروٹوکول کیا کہتا ہے اور کیا اس ضمن میں کوئی قانون اور ضابطہ موجود ہے؟
بابائے قوم کے مزار کے لیے 1971ء میں آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی کی گئی اور اس آرڈی ننس میں 1976ء میں ایک ایکٹ کے ذریعے کچھ جزوی ترامیم کی گئیں۔ اس آرڈی ننس کو " مزار قائد پروٹیکشن اینڈ مینٹیننس آرڈیننس " کہا جاتا ہے۔ اس کا خلاصہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔
اس آرڈیننس کی دفعہ 6کے تحت مزار قائد کے احاطہ میں کسی فرد، گروہ یا جماعت کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔ نہ یہاں کوئی سیاسی تقریب منعقد کر سکتا ہے نہ اس میں شریک ہو سکتا ہے اور نہ ہی یہاں پر کوئی سیاسی نعرہ لگایا جا سکتا ہے۔ سیاسی سرگرمی کی نوعیت کتنی ہی مبارک اور ارفع کیوں نہ ہو، مزار قائد آرڈیننس اس کی اجازت نہیں دیتا۔ احاطے کی حدود بھی طے کر دی گئی ہیں۔ احاطے کی بیرونی دیوار سے دس فٹ دوری تک یہ قانون لاگو ہو گا۔ پروٹوکول یہ ہے کہ مزار قائد، بابائے قوم کا مزار ہے۔ یہاں آپ اپنی جملہ عصبیتیں اور وابستگیاں چھوڑ کر صرف ایک پاکستانی کے طور پر آئیں۔
آرڈی ننس کی دفعہ 8 بہت اہم ہے۔ اگر چہ اس کا تعلق قانون سے زیادہ اخلاقیات سے ہے۔ اس میں قرار دیا گیا ہے کہ کوئی فرد مزار قائد میں ایسا کوئی کام نہیں کرے گا جس سے مزار کے تقدس پر حرف آتا ہو۔ یہ ایک دلچسپ معاملہ ہے کیونکہ قانونی اعتبار سے یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ وہ کون سی سرگرمی ہو گی جس سے تقدس پر حرف آ سکتا ہے، اور ایسی سرگرمی کی وضاحت سے نشاندہی کیوں نہیں کی گئی لیکن اخلاقی طور پر بہر حال ایک اصول طے کر دیا گیا ہے اور ایسے معاملات میں سماج کے اجتماعی رویے اور اخلاقیات کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔ سیاست اور سیاسی نعروں کے بارے میں البتہ وضاحت سے ممانعت کی جا چکی ہے اور مزار قائد میں سیاسی سرگرمی کی ہر شکل ممنوع ہے۔
کیپٹن صفدر صاحب کو مزار قائد کے احترام کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ جس انداز سے وہ احاطہ قبر کے اندر جا کر نعرے لگوا رہے تھے وہ ایک تکلیف دہ منظر تھا۔ مادر ملت فاطمہ جناح سے انہیں سچ میں کوئی نسبت ہوتی تو خرم دستگیر جب تک اپنے والد گرامی کے نامہ اعمال پر قوم سے معافی نہ مانگ لیتے اس وقت تک ان پر مسلم لیگ کے دروازے بند ہونے چاہییں تھے۔ قبروں پر نعرے لگانے کا شوق تھا تو اسلام آباد سے نکلتے ہوئے جنرل ضیاء الحق مرحوم کی قبر پر جا کر جمہوریت کے نعرے لگائے ہوتے جن کی برخورداری میں مسلم لیگ ن کی زلفوں کی آرائش ہوئی تھی۔ مزار قائد پر حاضری کے آداب ہیں اور ان آداب کو ایک قانونی شکل دی جا چکی ہے۔ اس ضابطے کی پامالی کو کیا اس لیے نظر انداز کر دیا جائے کہ پامال کرنے والے بھولے میاں کی نیت اچھی تھی۔ کیا کل کو کوئی اور بھولے میاں جائیں اور بیکری لوٹ لیں کہ وہ تو بھوکوں کو کھانا کھلانے کے لیے لنگر کھولنا چاہتے تھے تو وہ جائز ہو جائے گا؟
عجب سے جواز پیش کیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ اقوال قائد کا تو کوئی احترام نہیں کرتا، مزار قائد کے احترام کی بڑی فکرلگی ہے۔ اقوال قائد کا بلا شبہ احترام ہونا چاہیے۔ سماج، حکمرانوں، بیوروکریسی اور افواج پاکستان کے لیے جو رہنما اقوال قائد اعظم کے ہیں ان پر بلا شبہ عمل ہونا چاہیے لیکن اگر قائد کے اقوال پر عمل کرنے میں غفلت ہوئی ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اب مزار قائد کی حرمت کو بھی پامال کیا جائے؟ جمہوریت کے باب میں قائد کے اقوال جب پامال ہوئے تو نواز شریف کی حیثیت پیادے اور لے پالک کی تھی۔ کیا انہوں نے ایک بار بھی قوم سے معافی مانگی؟ کیا خرم دستگیر نے اپنے بڑوں کے نامہ اعمال پر کبھی ندامت کا اظہار کیا؟ مریم نواز صاحبہ بلاول کو مخاطب کرکے جب اعلی اخلاقی اصولوں کی بات کر رہی تھیں تو بلاول تو شاید آداب میزبانی میں خاموش رہے ہوں گے کیا مروت کا تقاضا نہ تھا کہ مریم نواز اس بات پر بلاول سے معذرت کرتیں کہ ماضی میں نواز شریف صاحب کی قیادت میں محترمہ بے نظیر کی ایسی کردار کشی کی گئی کہ اس کے تصور سے آدمی کو حیا آ جائے۔
جس معاشرے میں خواہش خبر بن جاتی ہو وہاں کسی بھی واقعے کی کوئی بھی تعبیر پیش کی جا سکتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد چونکہ پولیس صوبائی حکومتوں کے ماتحت ہے اس لیے ایک سوال اٹھا کہ کیا سندھ حکومت نے اپنے مہمان کو گرفتار کروا دیا۔ اس کی شرح میں پھر اندر کی خبریں بیان کی جا رہی ہیں جو ضروری نہیں درست ہوں۔ بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ یہ گرفتاری " مزار قائد پروٹیکشن اینڈ مینٹیننس آرڈی ننس " کی دفعہ 4 کے تحت ہوئی وفاقی حکومت کے حکم پر ہوئی ہے۔ کیونکہ دفعہ 4 کہتی ہے کہ قطع نظر اس بات کے کہ کون سا قانون کیا کہہ رہا ہے، مزار قائد پر وفاق کی علمداری ہو گی۔ ذرا اس دفعہ کے الفاظ پڑھ لیجییے:
The Quaid e Azam's Mazar shall vest in the federal government۔
تو کیا عجب کہ وفاق نے گرفتاری کا فیصلہ کیا ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تو بہر حال دفعہ 4 کی ر و سے وفاق کو اس کا اختیار حاصل تھا۔
یہ سوال البتہ اس صورت میں بھی غور طلب ہے کہ وفاق یہ اختیار اسی طرح استعمال کرنا چاہیے تھا یا بذریعہ صوبائی حکومت بھی اس اختیار کو استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اس انداز گرفتاری پر اب سوال اٹھ رہے ہیں کہ گرفتاری کا مقصد واقعی وہی تھا جو سر محضر لکھا ہوا ہے یا معاملے کو سمجھنے کے لیے متن اور حاشیہ بھی پڑھنا پڑے گا۔ ان کا جواب دینے ملک الشعراء آئیں تو کیا عجب ترکے میں مزید سوالات چھوڑ جائیں۔ غالب تو ذائقہ چکھ چکے، کیا معلوم اب کی بار استاد ذوق کا شعر فراز سے منسوب کر دیا جائے۔