Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Mashriq e Wusta Ke Azaar Se Hoshiyar Rahiye

Mashriq e Wusta Ke Azaar Se Hoshiyar Rahiye

مشرق وسطیٰ کے آزار سے ہشیار رہیے

پاکستان کے مسائل کو دیکھنے اور سمجھنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ ن لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، جے یو آئی، پرو اسٹیبلشمنٹ، اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر عنوانات کے تحت اپنے معاملات کو دیکھیں اور دوسرا یہ کہ آپ صرف ایک پاکستانی کے طور پر حالات کا جائزہ لیں۔ اگر ہم اول الذکر انداز فکر اختیار کریں تو مزے ہی مزے ہیں، ہنسی ہے، مزاح ہے، تفنن طبع ہے، فقرے بازی ہے، گالیاں ہیں، دشنام ہے، لذت گفتار ہے، دادو تحسین ہے اور واہ واہ کی صدائیں ہیں اور مکر ر مکرر کے مطالبات ہیں لیکن اگر آپ صرف ایک پاکستانی کے طور پر معاملات کو دیکھیں تو ایک عجب سی پریشانی دیوار دل سے آن لگتی ہے من کا برہما بے چین ہو جاتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے ہمارے مسائل کیا ہیں اور ہم کن چیزوں میں الجھے پڑے ہیں۔ مشرق وسطی میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا کوئی باب نہیں، وہ تو آنکھوں دیکھا حال ہے۔ وہ ایک ایسا حادثہ ہے جو ہمارے سامنے قطرہ قطرہ وہاں ٹپکا اور سب کچھ بہا لے گیا۔ آثار بتاتے ہیں کہ وہی طوفان بلا خیز ہماری فصیل شہر سے آ لگا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں صورت حال کی سنگینی کا کوئی احساس ہے؟

مشرق وسطی کی تباہی کے تین عنوانات ہیں: معاشی تباہی، پولرائزیشن اور فرقہ واریت۔ ہم اگر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ بعینہ یہی تین چیلنجز اس وقت ہمیں در پیش ہیں۔ افسوس کسی کو معاملات کی سنگینی کا احساس ہے بھی تو وہ احساس کسی حکمت عملی کی صورت ڈھل نہیں پا رہا۔

پاکستان کی معیشت اب کوئی راز نہیں رہا۔ یہ قصہ سارے سماج کو معلوم ہے۔ ہماری معیشت پہلے بھی بہت بہتر نہ تھی لیکن عمران خان کے دو سالوں نے تو اس کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ سیاسی وابستگی اور رومان بھلے مان کر نہ دے حقیقت مگر یہی ہے کہ ان دو سالوں میں معیشت کا جو حشر ہوا ہے اس نے ہمیں عشروں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اسد عمر کو ہم نے معاشی مسیحا سمجھا تھا، بیچ منجدھار معلوم ہوا وہ تو ایسا ملاح ہے جسے چپو چلانا ہی نہیں آتا۔ اقتدار ملا تو ان کے پاس بڑھکوں کے سوا کچھ نہ تھا۔

نہ کوئی معاشی ویژن تھا نہ کوئی حکمت عملی۔ اقتدار سنبھالتے ہی غیر ضروری بیان بازی اور بڑھکیں مار مار کر عالمی مالیاتی اداروں کو ناراض کر دیا اور اب یہ عالم ہے کہ مالیاتی اداروں کی خوشنودی کے لیے حکومت کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے اور اپنے مالیاتی اداروں میں بھی انہیں کے ماہرین کو لا بٹھایا گیا ہے لیکن ڈور کا کوئی سرا پھربھی ہاتھ نہیں آ رہا۔ یہ وہی معاشی ویژن ہے جس نے اس سے قبل مصر کی معیشت کو ادھیڑ کر رکھ دیاتھا۔ جملہ معاشی بصیرت کا خلاصہ یہ ہے کہ عطار کے لونڈے سے دوا لے کر شفایاب ہونے کی تمنا ہے۔

پولرائزیشن اپنے عروج پر ہے۔ یہ ایسا نا مبارک عروج ہے جس نے معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو کھود ڈالا ہے۔ ہر وقت یہاں ہیجان کا عالم ہے۔ ہر وقت نفرت کا ابلاغ ہو رہا ہے۔ نفرت اور حقارت کے الائو اقوال زریں کی صورت بھڑک رہے ہیں۔ وزیر اعظم دو سالہ اقتدار کے بعد بھی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی جوابدہی کی بجائے حزب اختلاف کی مذمت کر کے سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں ملک میں وقت پر بارشیں نہ ہوں تو اس کی ذمہ دار بھی حزب اختلاف ہے۔ ایک پارلیمان کہنے کو موجود ہے لیکن وزیر اعظم کسی سے مشاورت کے روادار نہیں۔ مشاورت تو کیا وہ تو کسی سے ہیلو ہائے کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی سیاسی تنہائی اس سے قبل کسی وزیر اعظم کے نصیب میں نہیں آئی کہ وہ منتخب وزیر اعظم ہو مگر نہ وہ کسی سے ملنا گوارا کرتا ہونہ کوئی اس سے ملنا گوارا کرے۔ حزب اختلاف کو تو چھوڑیے یہاں بیوروکریسی اور تاجر حضرات بھی اپنے مسائل وزیر اعظم کی بجائے کہیں اور جا کر پیش کرتے ہیں۔ اوپر سے نیچے تک اور نیچے سے اوپر تک نفرت ہے اور پولرائزیشن۔ کیا ایک پارلیمانی نظام اتنی نفرت اور اتنی پولرائزیشن کا متحمل ہو سکتا ہے؟

فرقہ واریت اس سماج کے لیے اجنبی نہیں لیکن ملی یکجہتی کونسل کے قیام کے بعد ایک تاثر پیدا ہوا کہ شاید ہم نے اختلافات کے ساتھ رہنے کا ڈھنگ سیکھ لیا ہے۔ اب اچانک محسوس ہو رہا ہے کہ فرقہ واریت کی ایک نئی لہر سماج کو لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اس کے ابتدائی نقوش بہت واضح ہیں مگر اہل اقتدار اس کی سنگینی کو نہیں سمجھ پا رہے۔ یہ بے نیازی بہت سارے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ جب سوالات پیدا ہو رہے ہوں تو بد گمانیاں ساتھ آتی ہیں۔ معاشرہ ان دونوں کے آسیب کی لپیٹ میں ہے۔ لہجے تلخ ہو رہے ہیں۔ غیر ذمہ دارانہ رویوں کا آزار بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ بہت نازک صورت حال ہے۔ پاکستان ایک متنوع معاشرہ ہے۔ یہاں امن سے رہنے کی ایک ہی صورت ہے کہ بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت رہا جائے۔ خام مال یہاں موجود ہے، ذرا سی بے احتیاطی سے فرقہ واریت کے الائو بھڑک سکتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے کہ یہ الائو مسلم دنیا کے کئی معاشروں کو جلا چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہماری حکمت عملی کیا ہے اور کیا ہم معاملے کی نزاکت سے آگاہ ہیں؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں نگاہیں ایوان اقتدار کی طرف اٹھتی ہیں اور مایوس لوٹ آتی ہیں۔

ملی یکجہتی کونسل بھی قاضی حسین احمد مرحوم کے بعد اتنی فعال نہیں رہی. علامہ ثاقب اکبر جیسے درد دل رکھنے والے اہل علم کی کوششیں اگر چہ قابل قدر ہیں لیکن مسئلہ زیادہ سنگین ہے. اور اس کی سنگینی کا اہل اقتدار کو اور ہارلیمان کو احساس نہیں ہے۔ آج ہی ثاقب اکبر صاحب نے اہل علم کے ساتھ ایک نشست رکھی جس کا موضوع تھا: مذہبی شدت پسندی کی حالیہ لہر کے سماج پر اثرات. ایک طالب علم کے طور پر میں سمجھتا ہوں یہ کاوش قابل قدر ہے لیکن جب تک ایسے موضوعات پارلیمان میں ہونے والی گفتگو کا عنوان نہیں بن پاتے، . تب تک تصویر مکمل نہیں ہو پائے گی. پارلیمان اگر عوام کی نمائندہ ہے تو سماج کو لاحق مسائل وہاں زیر بحث کیوں نہیں آ رہے؟

پارلیمان میں ہونے والی گفتگو، اپنے معیار، ذوق اور متن کے لحاظ سے ایسی ہے کہ سن کر خوف آتا ہے۔ خدا جانے یہ اہلیت اور استعداد کا مسئلہ ہے یا افتاد طبع کا لیکن ملک کو درپیش خطرات جس ویژن اور مکالمے کے متقاضی ہیں، وہ پارلیمان میں یا پارلیمان سے باہر، فی الوقت، تو دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔

بد حال معیشت، سیاسی عدم استحکام اور فرقہ وارانہ الائو۔۔۔۔۔۔۔ یہی وہ آزار تھا جس نے مشرق وسطی کو اپنی لپیٹ میں لیا اور یہی آزار پاکستان کی جانب بڑھ رہا ہے۔ میرصاحب نے کہا تھا: نمونہ ہے یہ آشوب و بلا کا۔

Check Also

Hojamalo

By Rao Manzar Hayat