آئی جی سندھ کا تبادلہ، مسئلہ کیا ہے؟
پبلک اکائونٹ کمیٹی کی سربراہی ہو، الیکشن کمیشن کے اراکین اور چیئر مین کا تقرر ہو یا آئی جی سندھ کا تبادلہ، کیا کبھی ہم نے سوچا معمول کی ان چیزوں پر ہمارے ہاں ہنگامہ سا کیوں کھڑا ہو جاتا ہے؟ یہ اہلیت کا فقدان ہے، مزاج کی غیر سنجیدگی ہے یا ہماری انائوں کے پہاڑ ہماری راہ کھوٹی کرنے آ جاتے ہیں۔ تازہ ترین معاملہ آئی جی سندھ کا ہے، آئیے اسے قانونی اور سیاسی سیاق و سباق میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم سے پہلے وفاق اور صوبوں میں اختیارات کی تقسیم کا ایک فارمولا تھا جس کے تحت دائرہ کار وضع کیے گئے تھے۔ ایک وفاقی دائرہ کار تھا اور ایک صوبائی۔ ایک تیسرا دائرہ کار بھی تھا، یہاں وفاق اور صوبوں کے اختیارات مشترکہ تھے۔
اٹھارویں ترمیم کے ذریعے یہ مشترکہ دائرہ کار ختم کر دیا گیا۔ عجلت میں اور بغیر تیاری کے لائی گئی اس ترمیم نے مسائل کھڑے کر دیے۔ بہت سے شعبے صوبوں کے حوالے تو کر دیے گئے لیکن ان کے پاس نہ افراد تھے، نہ انفراسڑکچر اور نہ ہی استعداد۔ چنانچہ کہا گیا جب تک استعداد اور انفرا سٹرکچر بن نہیں جاتا تب تب مل جل کے کام چلایا جائے گا۔ یہاں سے متن اور شرح کا اختلاف شروع ہوا اور صوبوں اور وفاق میں کھچڑی پکنے لگ گئی۔
اٹھارویں ترمیم میں پولیس چونکہ صوبائی معاملہ تھا لہذا اس پر تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ سندھ حکومت نے پولیس آرڈر 2002ء کو منسوخ کر دیا اور اس کی جگہ سندھ پولیس لاء متعارف کرا دیا۔ اس نئے قانون کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ سندھ حکومت نے عدالت میں کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبہ اس بات کا مجاز ہے وہ قانون سازی کرے۔ ہائی کورٹ نے یہ موقف تسلیم کر لیا اور طے کر دیا کہ پولیس ایک صوبائی معاملہ ہے اور صوبے کو اس میں قانون سازی کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ یہ پچھلے سال کی بات ہے۔
جب آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے تبادلے کا مسئلہ سنگین ہو گیا اور معاملہ سپریم کورٹ کے پاس آیا تو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کر دیا اور کہا پولیس ایک ایسا معاملہ ہے جہاں وفاق اور صوبے کا مشترکہ دائرہ اختیار ہو گا۔ سپریم کورٹ کے اس تین رکنی بنچ نے دو مزید اصول بھی وضع کر دیے۔
پہلا اصول یہ تھا کہ پی ایس پی ( پولیس سروس آف پاکستان) رولز میں کوئی صوبہ یک طر فہ تبدیلی نہیں کرسکتا۔ دوسرا اصول یہ تھا وفاق اور صوبوں کے مابین آئی جی کی تعیناتی کے لیے 1993ء میں ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔ اس معاہدے میں طے کیا گیا تھا آئی جی کی تعیناتی وفاق اور صوبے کی مشاورت سے ہو گی۔ عدالت عظمی نے کہا پی ایس پی رولز اور 1993ء کے اس معاہدے کو اٹھارویں ترمیم کے باوجود آئین کے آرٹیکل 240 کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
اب اصول یہ ہے آئی جی کی تعیناتی وفاق اور صوبے کی مشاورت سے ہو گی۔ وہ اپنی مدت پوری کرے گا اور اس دوران بغیر کوئی وجہ بتائے اور اس وجہ پر وفاق کو اعتماد میں لیے بغیر صوبائی حکومت آئی جی کو نہیں ہتا سکتی۔ یہ انتظام پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس اصول کے تحت دیکھا جائے تو سندھ حکومت کا موقف کمزور ہے اور سندھ ہائی کورٹ نے سندھ حکومت کو ایسا کوئی فیصلہ کرنے سے روک بھی دیا ہے۔ لیکن یہاں دو سوالات بہت اہم ہیں۔ ایک کا تعلق پولیس افسران اور دوسرے کا تعلق تحریک انصاف کی حکومت سے ہے۔
پولیس افسران سے سوال یہ ہے وہ اپنی "ٹینیور پوسٹ" کے تحفظ کے لیے تو آخری حد تک جاتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے وہ تھانوں کے ایس ایچ اوز کی تعیناتی کو اسی طرح کا تحفظ نہیں دینا چاہتے جیسا تحفظ وہ خود لینا چاہتے ہیں۔ اگر آئی جی کو بغیر وجہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا تو بغیر کسی ٹھوس اور معقول وجہ کے ایک ایس ایچ کو فٹ بال کیوں بنایا جاتا ہے؟ عوام کا واسطہ تو ایس ایچ اوسے ہوتا ہے، ایس ایچ او کو یہ تحفظ دے کر اسے سیاسی مداخلت سے بے نیاز کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا اس سے" افسر گردی " کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے؟ مقصد ادارے کی بہتری ہے یا صرف افسران کی؟
تحریک انصاف سے سوال یہ ہے جو پیمانہ سندھ حکومت کے لیے ہے وہی پیمانہ کے پی کے اور پنجاب حکومت کے لیے کیوں نہیں؟ سندھ میں اس وقت کلیم امام آئی جی ہیں جن پر تنازعہ چل رہا ہے۔ جب عثمان بزدار ووزیر اعلی بنے تو کلیم امام آئی جی پنجاب تھے۔ انہیں منصب سنبھالے تین ماہ بھی نہیں ہوئے تھے۔ بزدار صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے دوسرے ہی مہینے انہیں ہٹا دیا اور وفاق نے انہیں سندھ بھیج دیا۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے اس کی وجہ کیا تھی؟ جو سوال سندھ حکومت سے کیے جا رہے ہیں کیا وہی سوال پنجاب حکومت سے بھی کیے گئے؟
عثمان بزدار کے دوسرے آئی جی محمد طاہر تھے۔ ایک ماہ اور چار دن کے بعد انہیں بھی اس عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس کے بعد امجد جاوید سلیمی آئے وہ آدھا سال گزار سکے اور ہٹادیے گئے۔ عثمان بزدار کے چوتھے آئی جی کیپٹن عارف نوا ز تھے وہ بھی چھ ماہ گزار سکے اور ہٹا دیے گئے۔ بزدار صاحب کے پانچویں آئی جی شعیب دستگیر ہیں جن کے ابھی دو ماہ بھی مکمل نہیں ہوئے۔ دیکھیے کب انہیں رخصت کیا جاتا ہے۔ عثمان بزدار اگر ڈیڑھ سال میں پانچ آئی جی بدل سکتے ہیں تو وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ اپنا آئی جی کیوں نہیں بدل سکتے؟
کے پی کے کو دیکھ لیجیے۔ 17 اگست 2018 کو محمود خان صاحب نے وزارت اعلی کا منصب سنبھالا اور 10ستمبر کو، جب ابھی ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا، اپنے آئی جی طاہر خان کو تبدیل کر دیا۔ چھ ماہ بعد دوسرے آئی جی صلاح الدین خان محسود کو بھی تبدیل کر دیا۔ محمود خان صاحب کے تیسرے آئی جی ڈاکٹر نعیم خان تھے، چند ماہ رکھ کر انہیں بھی اس عہدے سے الگ کر دیا۔ چوتھے آئی جی ڈاکٹر ثناء اللہ عباسی کو آئے ابھی تین ہفتے بھی نہیں ہوئے دیکھیے کب تک وہ نگاہ ناز میں جچتے ہیں۔
سوال بہت سادہ ہے: ایک چیز وزیر اعلی سندھ کے نامہ سیاہ کی تیرگی کہلاتی ہے وہی چیز عثمان بزداراور محمود خان کی زلف میں پہنچ کر حسن کیوں بن جاتی ہے؟