اورکنول جھیل بحال ہو گئی
کنول جھیل بحال ہو گئی۔۔۔۔۔ صبح دم خبر پڑھی تو سیدھا یہاں آن پہنچا۔ جاڑے کا موسم اب کی بار جلد ہی آ گیا ہے۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور سردی کی لہر وجود میں اتر رہی تھی لیکن صبح کی پھوار اور یادوں کی رم جھم ہاتھ تھام کر جھیل کنارے لے آئیں۔ سی ڈی اے نے ویرانہ آباد نہیں کیا، ہم آوارہ گردوں کے دل کی دنیا آباد کی ہے۔ سی ڈی اے: بہت شکریہ!
مجھے یاد آیا کہ دو سال قبل میں پندرہ سال کے وقفے کے بعد اس جھیل کو تلاش کرتا یہاں پہنچا تھا تو دیوار دل سے اداسی آن لگی تھی۔ سب کچھ بدل چکا تھا۔ درختوں کے بیچوں بیچ کہکشائوں جیسا ایک خاموش رستہ جھیل کی طرف جاتا تھا، اس راستے پر تتلیاں ہوتی تھیں، اس نے ہاتھ تھام کر کہا تھا کہ جھیل کو جانے والے راستوں پر گھاس نہیں اگتی۔ لیکن اب گھاس ہی گھاس تھی۔ وہ راستہ جھاڑ جھنکار نے بند کر دیا تھا۔
خاموش جنگل کی یہ پگڈنڈی دور تک سنسان ہوتی تھی اور جنگل باتیں کرتا تھا، دوپہروں میں یہاں فاختہ بولتی تھی، گلہریاں اپنی مستی میں پھرا کرتی تھیں۔ اب یہاں کچھ بھی نہ تھا۔ شام ڈھلتی تھی تو جھیل پر جگنو اترتے تھے، اب وہاں کسی جھیل کا نام و نشان تک نہ تھا۔ جھیل اجڑ چکی تھی، راستہ بند ہو چکا تھا، پگڈنڈی ویران ہو چکی تھی اور جنگل کو چپ لگی ہوئی تھی۔ سارا جنگل اجنبی ہو چکا تھا۔
کنول جھیل الماس کے نگینوں میں سے ایک تھی۔ راستے سے ہٹ کر، خاموش سی، چپ چاپ سی۔ جاڑا آتا تو کچھ مرغابیوں کی کچھ ٹولیاں بھی یہاں آ ترتیں۔ اس میں کنول کے پھول کھلتے تھے۔ یہاں کی گرم دوپہر کے سناٹوں میں جلترنگ بجتے تھے۔ ٹھنڈی میٹھی رت میں چودھویں کا چاند جب یہاں جھیل کے پانی میں اترتا تھا تو جھیل کی آنکھوں میں گویا لہریں سی پیدا ہو جاتی تھیں۔ جاڑے میں یہاں کورا پڑتا تھا اور بہار میں یہاں پھول کھلا کرتے تھے۔
طالب علمی کا زمانہ رومان میں گندھا ہوتا ہے۔ یہ دور ختم ہوا تو جھیل یاد ہی نہ رہی۔ ڈیڑھ عشرے بعد اس روز جھیل یاد آئی تو ہماری طرح جھیل بھی بدل چکی تھی۔ کنول بھی جھیل سے نکل گئے اور جگنو بھی اڑ گئے۔ جھیل کی لہریں بھی ماضی کا قصہ ہوئیں اور خشک پرچھائیں باقی رہ گئیں۔ اولین محبتوں کا فسانہ ہی نہیں، وقت کے ساتھ زمانہ بھی بدل جاتا ہے۔ وقت کی لہروں نے یوں اچھالا ہم جھیل کو بھول گئے، جھیل اپنی رعنائیوں کو۔ گلزار نے ٹھیک کہا تھا:
وقت رکتا نہیں کہیں ٹک کر
عادت اس کی بھی آدمی سی ہے
اس روز جب میں جھیل سے لوٹا تو گویا صحرا ساتھ لایا۔ جھیل وہاں تھی ہی کہاں؟ یادیں ہاتھ تھامے ماضی کردیتی رہیں لیکن جھیل کا کوئی سراغ نہ ملا۔ خشک میدان پر کچھ جھاڑیاں اگی پڑی تھیں۔ یہی سوچتے لوٹ آیا کہ جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی؟
آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کنول جھیل کہاں ہے؟ کبھی دکھائی نہیں دی۔ یہ راجہ اللہ داد خان کی حویلی اور بیٹھک کے عین سامنے جنوب مشرق میں جاتی پگڈنڈی پر جنگل کے اندر پانچ منٹ کی مسافت پر ہے۔ لیکن اگر آپ کو کنول جھیل کا نہیں پتا تو آپ راجہ اللہ داد کی حویلی کو کیسے جان سکتے ہیں؟ آپ کو کیا خبر یہ حویلی کہاں ہے اور اس کے گرد قائم تین تکیے اور چشمے کس حال میں ہیں؟ تو آپ یوں سمجھیے کہ لوک ورثے میں جو خوبصورت حویلی ہے وہ اللہ داد خان کی حویلی ہے یہاں گائوں ہوتا تھا۔ اسلام آباد آباد ہوا تو یہ گائوں خالی ہو گیا۔ اس کے سامنے جو ایک حسین اور قدیم ہوٹل ہے جسے 1969 کہتے ہیں یہ راجہ اللہ داد خان کی بیٹھک تھی۔ اس حویلی کے دیوار و در سے کوئی جا کر پوچھے شہر آباد ہوتے ہوتے کتنے گائوں کھا جاتا ہے؟ کنول جھیل یہیں ساتھ ہی ہے، اس حویلی کے پہلو میں۔ کون جانے پورے چاند کی راتوں میں راجہ اللہ داد خان بھی حویلی کی چھت پر حقہ لے کر جھیل کو دیکھا کرتے ہوں۔
سی ڈی اے نے یہ جھیل بحال کر دی ہے۔ بس یہ خبر سنی تو دل کی ڈور سے بندھا کھچا چلا آیا۔ وہ بات نہ تھی مگر کچھ بات تو تھی۔ جھیل کو جانے والے راستے میں وہ رومانویت نہ تھی، مگر یہ کیا کم ہے کہ جھیل کو جانے والا رستہ وقت کی دھول سے نکال کر سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ ایک حسین اہتمام سی ڈی اے نے یہ کیا ہے کہ اس جھیل کی بحالی کے اس پورے منصوبے میں اگر چہ فیملی پارک بنایا گیا ہے لیکن سیمنٹ کا کہیں بھی استعمال نہیں ہوا۔ جھیل کی قدرتی ماحول اور فطری حسن کو برقرار رکھا گیا ہے۔ جھیل کی صفائی ہو چکی اور ساتھ فیملی پارک کا افتتاح بھی ہو چکا ہے۔
بس دو بارشوں کی بات ہے اور جھیل کا دامن پانی سے بھر جائے گا۔ پھر اس میں کنول کے پھول کھلیں گے، خزاں رت میں اس کو جاتا رستہ پت جھڑ سے بھر جائے گا، شام کو یہاں جگنو آیا کریں گے، صبح جب یہاں خوشبو اذان کی صورت اترے گی تویہاں کوئل بھی بولے گی اور پورے چاند کی راتوں میں جھیل کے پانیوں میں چاند نہائے گا۔ بہار رت کی صبح، گرمیوں کی کسی دوپہر، خزاں کی کسی شام یا پورے چاند کی کسی رات میں، میں بھی یہاں آئوں گا اور ماضی کی یادوں کو تھامے پورا ایک پہر یہاں بیٹھ کر گزار دوں گا کہ جھیل اور اپنے بیچ پورے بیس سال پڑتے ہیں۔ استاد غلام علی خاں بھی ساتھ ہوں تو جھیل کی سطح پر سُر کی لہریں تیرنے لگیں کہ:
چراح جلتے ہیں، بادِ صبا مہکتی ہے
تمہارے حسن تکلم سے کیا نہیں ہوتا