وسیم اکر م پلس کو بدلنے کا رسک؟
کیاوفاقی کابینہ میں تطہیر کے بعد اب پنجاب کی باری ہے؟ ۔ میڈیا پر مسلسل قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ وزیر اعلیٰ عثمان بز دار کو گھر بھیجنے کا فیصلہ ہو گیا ہے لیکن ایسی درفنطنیاں اڑانے والے حقائق کابنظر غائر ادراک نہیں کر پا رہے۔ کابینہ میں ردوبدل اور وفاق اور صوبے کے چیف ایگزیکٹوز کو تبدیل کرنا موجودہ سیٹ اپ میں خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔ وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومتیں چند حواریوں کی معمولی عددی اکثریت کی بیساکھیوں پر قائم ہیں۔ ادھر سب سے بڑے صوبے میں چودھری برادران کی جماعت مسلم لیگ(ق) اگر تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی نہ ہو تو عثمان بزدار کی حکومت دھڑام سے گر جائے۔ فی الحال چودھری برادران اورعثمان بزدارمیں اچھا تال میل ہے اور کیوں نہ ہو، وزیراعلیٰ برملا طور پر کہتے ہیں کہ وہ ناتجربہ کار ہیں، پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی میں منتخب ہو کر آئے ہیں اور معاملات کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ مرنجان مرنج اورشریف النفس شخص ہیں اور مسلم لیگ (ق) کی قیادت ان کے پیچھے جم کر کھڑی ہے۔ چودھری پرویزالٰہی انھیں روز مرہ گورننس کے حوالے سے مشورے دیتے رہتے ہیں، آخر وہ بھی گھاگ سیاستدان ہیں۔ چودھری نثار علی خان کے آئندہ اجلاس میں رکن پنجاب اسمبلی کے طور پر حلف اٹھانے کی خبروں سے باسی کڑی میں ابال سا آ گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا جا رہا ہے۔ چودھری نثار کو تواپنی سابق جماعت مسلم لیگ(ن) کی بھی حمایت حاصل نہیں ہے اور نہ ہی ان کی اب اس میں کوئی جگہ ہے۔ میاں نواز شریف کئی برس تک اپنے اس نرگسیت کے شکار دست راست کے چاؤ چونچلے برداشت کرتے رہے لیکن جب مشکل وقت آیا توچودھری نثار نے برملا طور پر یہ کہہ کر کہ وہ میاں صاحب کی ہونہار بیٹی مریم نوازکی قیادت قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، اپنے لیے مسلم لیگ (ن) کے دروازے خود ہی بند کر لیے۔ ان کی اصل لابی شہباز شریف ہیں، یہ خبر بھی چھپوائی گئی کہ وہ لندن میں شہبازشریف سے ملاقات کریں گے اور ایسا ہو بھی سکتا ہے لیکن شہباز شریف اس مرتبہ اپنے یار غار کی معافی تلافی نہیں کراسکتے۔ بحث کی خاطر ہی سہی، چودھری نثار مستقبل میں صوبائی اسمبلی میں کوئی فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش کریں تو ان جیسی خود پسندشخصیت کا کتنے لوگ ساتھ دیں گے۔ چودھری نثار کو توآٹے دال کا بھاؤ کااسی وقت معلوم ہو جانا چاہیے تھا جب وہ اپنی سابق جماعت مسلم لیگ ن کی حمایت کے بغیر 2018ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی دونشستوں پر پی ٹی آئی کے غلام سرورخان سے شکست کھا گئے تھے۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے نثار کو وزیر اعلیٰ بنانے کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جسے اپنی پارٹی سپورٹ کرنے کو تیارنہیں ایسے شخص کو پی ٹی آئی کیوں ووٹ دیگی۔ چودھری شجاعت اور شہباز شریف کی بھی ملاقات کی خبروں پر شجاعت نے واضح کر دیا ہے کہ شہباز شریف سے رابطہ ہوا نہ کوئی امکان ہے۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، پنجاب کے موجودہ غیریقینی ماحول میں صوبے کے گورنر چودھری سرور امر یکہ اور کینیڈاکے دورے سے واپسی پر یکدم فعال ہو گئے ہیں۔ میڈیا پر اس قسم کی خبریں اڑائی جا رہی ہیں کہ وہ کسی بہت اہم مشن پر ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان سے انہوں نے آتے ہی ملاقات کی اور اب پھر ملیں گے۔ اتوار کو رات گئے وہ عثمان بزدار سے بھی ملے، آخر وہ کس مشن پر ہیں۔ گورنر کارول تو محض آئینی ہوتا ہے لیکن وہ کھلم کھلا جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ کیا ان کا مشن وزیراعلیٰ کی فراغت ہے یا کسی فارورڈ بلاک کی تشکیل میں ممدومعاون ہونا؟ ۔ چودھری سرور کے بھرپور سیاسی رول ادا کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ چودھری برادران ہیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب آب اتھارٹی بل جو خاصے عرصے تک طاق نسیان میں رکھ چھوڑا تھااب اخباری اطلاعات کے مطابق اسے منظوری کے لیے گورنر کو بھیج دیا ہے جس پر انہوں نے دستخط کر دئیے ہیں۔ دوسری طرف چودھری سرور نے مرکز میں چھوٹا سا پنگا لے لیا ہے، ان کا ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ کہنا کہ اگر سب کچھ جہانگیر ترین نے ہی کرنا ہے توکیا ہم یہاں آلو چنے بیچنے آئے ہیں، خاصا معنی خیز ہے۔ چودھری سرور نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ٹیم میں اختلافات ہیں دعویٰ کیا کہ اگرانھیں ہٹانے کی کوشش کی گئی تو وہ خود استعفیٰ دے دیں گے۔ ان کو یہ گلہ ہے کہ ان کے صاف پانی کے منصوبے سے کچھ لوگوں کو تکلیف ہے۔ بلاشبہ ان کا یہ ایک بڑامشن ہے کیونکہ شہباز شریف ہوں یا ان کے پیشرو وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی صوبے میں عوام کو صاف پانی فراہم کرنے کے معاملے میں مسلسل تساہل برتتے رہے۔ جب چودھری سرور مسلم لیگ (ن) کے دورمیں پنجاب کے گورنر کے منصب پر فائز تھے ان کو یہی شکایت تھی کہ اس معاملے میں شہباز شریف نے ان کی طرف دست تعاون نہیں بڑھایا تھا۔ اب وہ کس مشن پر ہیں اور اتنی سرگرمی کے سا تھ تما م سٹیک ہو لڈرز سے کیوں ملاقاتیں کررہے ہیں، اس پر تو وہ خود ہی روشنی ڈال سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی نوکری خطرے میں نہیں ہے، ایسا ہی ہے تو پھر کس کی نوکری خطرے میں ہے؟ خواجہ آصف نے اپنے ٹویٹ میں دلچسپ تبصرہ کیا ہے "گل آلو چھولے تے آ گئی اے۔۔ گورنر صاحب کے لہجے میں کتنا زہر ہے، یہ لہجہ تحریک انصاف کے اندر کی ساری کہانی بیان کر دیتا ہے۔"یہ واقعی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کی ٹیم کے سرکردہ ارکان ایک دوسرے کے خلاف اپنے پھپھولے بیچ چوراہے پھوڑ رہے ہیں۔ اس سے پہلے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جنہیں اس بات کا قلق ہے کہ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیوں نہیں بن پائے خان صاحب کے دست راست جہانگیر ترین پر کھلی تنقید کر چکے ہیں کہ وہ نااہل ہونے کے باوجود اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں کیوں بیٹھتے ہیں۔ انہیں یہ گلہ ہے کہ بقول ان کے جہانگیرترین نے گزشتہ عام انتخابات میں مال لگا کر صوبائی اسمبلی کی نشست پر ان کے مخالف امیدوار کو جتا دیا تھا۔ جہاں تک عثمان بزدار کی تبدیلی کے بارے میں قیاس آرائیوں کا تعلق ہے، انھوں نے خود کہا ہے کہ ان کی کابینہ میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے وزراء کو تبدیل کیاجا سکتا ہے۔ اس مرحلے پر ان سے چھٹکارا حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ صوبائی اسمبلی میں انتہائی مضبوط اپوزیشن نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر پانسہ پلٹ سکتی ہے جس کے نتیجے میں تحریک انصاف پنجاب میں اقتدار سے ہی محروم ہو سکتی ہے۔ کہاجاتا ہے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) کے بعض مشیروں نے شہبازشریف کو مشورہ دیا تھا کہ کچھ ساتھیوں کو ملا کر ہمیں پنجاب میں حکومت بنانی چاہیے لیکن شہباز شریف نے اس سلسلے میں کوئی کوشش کرنے سے انکار کر دیا تھا، یہ معذرت سٹرٹیجک بھی تھی اور حقیقت پسندی بھی کیونکہ اگر جوڑ توڑ کر کے حکومت بن بھی جاتی ہے تووفاق میں تحریک انصاف کی حکومت جسے مقتدر قوتوں کی مکمل آشیرباد بھی حاصل ہے ایسے میں کون مسلم لیگ ن کی حکومت کو چلنے دیتا۔ آج بھی غالباً یہی صورتحال ہو گی لیکن بدلے ہوئے حالات میں کچھ بھی ہوسکتا ہے لہٰذا خان صاحب پنجاب میں اپنے وسیم اکرم پلس کو بدلنے کا رسک کیونکر لیں گے؟ ۔ ویسے بھی صوبائی پارلیمانی پارٹی سے اعتماد کا بھرپور ووٹ لینے کے بعد عثمان بزدار کا کلہ پھر مضبوط ہو گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حسب ضرورت پارلیمانی پارٹی کے ارکان ایک اشارے پر مرغ باد آموز کی طرح پھر سکتے ہیں۔