کشمیر، افغانستان۔۔۔ بڑھتی ہوئی شورش
موجودہ حکومت کا ایک طرہ امتیاز اس کی سکیورٹی اور خارجہ پالیسی کو کہا جا سکتا ہے۔ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی کارروائی کو وزیر اعظم عمران خان نے نیویارک ٹائمز کو اپنے انٹرویو میں کشمیری عوام کی نسل کشی سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے کہا مودی نے میری امن کوششوں کو کمزوری سمجھا، بھارت سے مزید بات چیت کا اب کوئی فائدہ نہیں، پاکستان بھارت سے بات چیت کے لیے بہت کچھ کر چکا ہے، اب مزید کچھ نہیں کر سکتا، پاکستان اور بھارت ایٹمی طاقت ہیں، دونوں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہیں، کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے، کچھ بھی ہوسکتاہے، دوایٹمی طاقتوں کے درمیان یہ تناؤ دنیا کیلئے بھی باعث فکر ہونا چاہیے۔ پچاس برس بعد چین کی مدد سے مسئلہ کشمیر اقوام متحد ہ کی سلامتی کونسل میں زیربحث آیا۔ امریکی صدر ٹرمپ وزیر اعظم عمران خان سے رابطے میں ہیں اور انہوں نے وزیر اعظم پاکستان کے علاوہ بھارتی وزیراعظم سے بھی بات کی اور یہ وعدہ کیا کہ وہ جی سیون کے اجلاس کے موقع پر مسئلہ کشمیر پر مودی کے ساتھ بات کریں گے۔
جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے پاکستان وہاں امریکی فوج کے انخلا اور طالبان کی مخلوط حکومت کے قیام کے لیے کلید ی کردار اداکر رہا ہے۔ گزشتہ ماہ وزیر اعظم کے دورہ واشنگٹن کے نتیجے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان منجمد تعلقات بحال ہو گئے ہیں لیکن اس دورے کی اصل ہائی لا ئٹ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جو عمران خان کے ہمراہ تھے کو پینٹاگون میں جی آیاں نوں کہنے اور اکیس توپوں کی سلامی تھی۔ مابعد دورہ امر یکہ اور موجودہ صورتحال کی روشنی میں آرمی چیف کی مد ت ملازمت میں ایک اور ٹرم یعنی تین برس کی توسیع کوئی اچنھبے کی بات نہیں ہے۔ اکثر تجزیہ کاروں کے مطابق یہ متوقع تھی لیکن یہ خبر کہ جنرل باجو ہ کو تین سال کی توسیع ملنے والی ہے ایک ماہ قبل سب سے پہلے میں نے92نیوز کے پروگرام "ہو کیا رہا ہے، میں بریک کی تھی۔ آرمی چیف کی دوسری ٹرم اسی سال 29نومبر کو شروع ہو گی اس لئے کرکٹ کی زبان میں وہ اسی دن سے اپنی دوسری اننگز کا آغاز کریں گے۔ وزیر اعظم نے یہ فیصلہ قریبا ً تین ماہ قبل ہی کرکے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت ایک ہی صفحے پرہیں۔
ہم بغلیں تو بجا سکتے ہیں کہ میاں نوازشریف کے چا رسالہ دوراقتدار کے برعکس پاکستان اس طرح یک وتنہا نہیں ہے جیسا کہ پہلے تھا لیکن نریندر مودی کے کشمیر کو ہڑپ کرنے کے جارحانہ اقدام اور افغانستان سے امریکی فوجوں کے متوقع انخلا کے نتیجے میں پاکستان کے لیے نئے مسائل پیدا ہونگے جن سے ہمیں بہرحال نبرد آزما ہونا پڑے گا۔ مسئلہ کشمیر پر بھارت اورپاکستان کے درمیان لفظی جنگ زوروں پر ہے کنٹرول لائن بھی جنگی محاذکاسماں پیش کر رہی ہے اور کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اپنی انتہا پر پہنچی ہوئی ہے اور تمام دنیا میں اس پر شد ید ردعمل ہو رہا ہے۔ کشمیرکی اس ابتر صورتحال سے کچھ سنگین مسائل پید ا ہو گئے ہیں جن سے بہرحال ہمیں خود نبٹنا پڑے گا۔ یہ تو کہا جا رہا ہے کہ سلامتی کونسل کا مسئلہ کشمیر پر غور کرنا ایک بڑ ی جہت اور پاکستان کی سفا رتی کامیا بی ہے لیکن دیکھنا پڑے گا کہ اس سے اگلی منزل کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر پر غور تو ضرور کیا اور اس کے ارکان نے تفصیلی بریفنگ بھی لی لیکن اس کے باوجود سلامتی کونسل اس حوالے سے کو ئی بیان جاری کر نے سے قاصر رہی بلکہ امریکہ اور فرانس نے تو صا ف کہا کہ پاکستان اور بھا رت کو اس بارے میں بات چیت کرنی چاہیے۔ صرف چین نے ہمارے موقف کا بھرپورساتھ دیا، دل کے بہلا نے کوغالب یہ خیا ل اچھا ہے، کہ ہمارے موقف کی بڑی پذ یرائی ہو رہی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا کہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہما را نقطہ نگاہ ہے کیا؟۔ وزیراعظم کی امریکی صدر سے گفتگو اور مختلف مواقع پر رشحات فکر میں کشمیر میں انسا نی حقوق کی پامالی، ظلم اور بربریت کا تو ذکرہوتا ہے لیکن بہت کم ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر ہوتا ہے۔ اس تاثر کو یکسر زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ بالآخر جب بھی کشمیر پر بات چیت ہوئی تو وہ پرویز مشرف کے" اِدھر ہم اُدھر تم، کے پیرائے میں ہو گی۔ وزیر خارجہ شا ہ محمو د قریشی مسلسل ڈفلی بجاتے رہے ہیں کہ سب اچھا ہے اور میں بڑا زبردست کام کر رہا ہوں لیکن اس حوالے سے کئی امتحان ابھی باقی ہیں۔
کشمیر کی موجودہ صورتحال کے نتیجے میں وہاں انتہا پسندی مزید بڑھے گی اور اس کے نتیجے میں داعش، القاعدہ اور مقامی جنگجو تنظیمیں فعال ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کے ہزار کہنے کے باوجود کہ ہم تو کچھ نہیں کررہے پھر بھی سا را ملبہ ہم پر ہی ڈالا جاتا ہے۔ ٹرمپ نے امریکہ کے اس موقف کا اعا دہ کیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کا رروائیاں کرتا ہے لیکن ضرورت سے کم۔ اس پس منظر میں جیسا کہ وزیراعظم نے بھی خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بھارت پلوامہ ٹوکر سکتا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے تو آزاد کشمیر پر حملہ کر نے اوربلا واسطہ طور پرایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی بھی دھمکی دے دی ہے۔ اس حوالے سے سکیورٹی صورتحال انتہا ئی گھمبیر ہے۔ دوسری طرف ایسے لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ اگلے برس نومبر میں امر یکہ کے صدارتی انتخاب سے پہلے یہ اعزاز بھی اپنے نام کرنا چاہتے ہیں کہ میں نے افغانستان کی جنگ کا خاتمہ کیا۔ اسی لیے وہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کے لیے انتہائی کوشا ں ہیں مبصرین کے مطابق یکم ستمبر تک افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے مجوزہ معاہد ے کے خدوحال واضح ہوجا ئیں گے۔ یہی طالبان کے نز دیک امر یکہ کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ صدر ٹرمپ کا وزیر اعظم عمران خان کو اپنا دوست قرار دینا ایک سپر پاور کی عیاری سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس وقت اسے پاکستان کی ضرورت ہے اور ہمیں اس کی ضرورت سے بھرپور فائد ہ اٹھاتے ہوئے کسی کج فہمی میں مبتلا نہیں ہو جانا چاہیے۔ گز شتہ ہفتے کابل میں شادی کی ایک تقریب میں داعش کے خودکش حملے میں قریباً60افراد کا لقمہ اجل بن جانا اسلام آباد کے لیے کو ئی اچھا شگون نہیں ہے۔ گویا ایک طرف کشمیر اور دوسری طرف افغانستان میں آنےوالے مہینوں میں شورش بڑھے گی اور اس حوالے سے پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہے۔ اسی بنا پر سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان تال میل خوش آئند ہے لیکن خان صاحب کو اس نازک وقت میں پوری قوم کو بنیان مرصوص بنانا ہو گا۔ اس کے بہت سے لوازما ت ہیں جن کا اول تو حکومت کو بہت کم احساس ہے اور اپوزیشن بھی ا س سے نابلد لگتی ہے۔ اسلام آباد مارچ مولانا فضل الرحمن کی بے وقت کی راگنی ہے اور اس ضمن میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی اور پختون ملی عوامی پارٹی کو بھی انھیں اس اقدام سے باز رکھنے کی ضرورت ہے لیکن کلیدی ذمہ داری حکمران جماعت پر عائد ہوتی ہے اسے اپوزیشن کو آن بورڈ لینا چاہیے۔ موجودہ "کٹی، دشمنوں کے لیے اچھا پیغام ہو سکتا ہے لیکن ہمارے مفا د میں نہیں ہے۔ خان صاحب اور ان کے حواریوں کو اپنی جیل بھرو تحر یک پر بھی نظرثانی کر نی چاہیے اور دنیا کو ایک متحد پاکستانی قوم ہونے کا پیغام دینا چاہیے۔