کرونا۔۔۔۔مبہم حکومتی اقدامات
کرونا وائرس دور حاضر کی ایسی وبا ہے جس نے مروجہ عالمی نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کے خوفناک اقتصادی اثرات سے زیادہ انسانی پہلو ہیں۔ دنیا بھر میں اس وائرس کے موذی اثرات کو زائل کرنے کیلئے مختلف طریقے اور حربے استعمال کئے جا رہے ہیں لیکن بعض اقدامات آفاقی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ رکھنا، وہ لوگ جن کے بارے میں شبہ ہو کہ انہیں کرونا وائرس لگ چکا ہے یا لگ سکتا ہے انہیں قرنطینہ میں رکھنا، احتیاطی تدابیر کے طور پر خود کو گھروں میں بند کر لینا اور گھروں سے ہی اپنے امور انجام دینا ہے۔ ماسک لگا کر گھروں سے نکلنا، سماجی میل جول سے اجتناب برتنا، تقریبات کو منسوخ کرنا ضروری ہیں۔ ہر حکمران اپنی صوابدید کے مطابق ان پر عمل بھی کر رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چونکہ بنیادی طور پر سیٹھ ہیں، ان کو زیادہ فکر امریکہ کے بطور اقتصادی طاقت بیٹھ جانے کی ہے۔ اسی بنا پر وہ اتوار 12 اپریل کو ایسٹر تک جزوی لاک ڈاؤن ختم کرنے کے حق میں ہیں۔ امریکہ کی خوش قسمتی ہے کہ وہاں مختلف ریاستوں کے گورنر تعزیری و تادیبی اقدامات کرنے کے مجاز ہیں لیکن ٹرمپ کے قریبی مشیروں نے انہیں ویٹو کرتے ہوئے یہ خوفناک تصویر پیش کی ہے کہ اگر ایسٹر تک سب کچھ کھول دیا گیا تو امریکہ میں جو کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ممالک میں پہلے نمبر پر پہنچ چکا ہے ایک سے دو لاکھ امریکی اس کی نذر ہو سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس معاملے میں حکمرانوں کی تھوڑی سی بھول چوک یا بروقت فیصلہ نہ کرنے کی قیمت نہ صرف اس ملک بلکہ دنیا کو بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگر پاکستان کی مثال ہی لی جائے تو ہم نے کرونا وائرس کے حوالے سے حفاظتی اقدامات کرنے میں قدرے تاخیر اور تذبذب سے کام لیا ہے۔ اب Covid 19 سے متاثر ہونے والے افراد کی سرکاری طور پر تعداد قریباً 1900 کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ تادم تحریر 24 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ مرض کتنی تیزی سے پھیلتا ہے اس کا اندازہ برطانیہ کے تازہ اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے جہاں 22141 افراد متاثر اور 1408 ہلاک ہو چکے ہیں۔ پہلے وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ہر چوتھے روز دگنی ہو رہی تھی اب ہر تیسرے روز اتنے افراد اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ گویا کہ وائرس جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، پہلے تفتان بارڈر پر مس ہینڈلنگ اور بعد میں رائے ونڈ میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کو بروقت نہ روکنے کے فیصلے کی بنا پر اندرون ملک اور بعض اطلاعات کے مطابق بیرون ملک پھیلنے کا باعث بنے ہیں۔ اس کے باوجود کہ پاکستانی شہریوں کی اکثریت احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہے لیکن ان کے درمیان تبلیغی اجتماع سے واپس آنے والے مبلغین کے کرونا ٹیسٹ کرائے گئے جن میں سے اکثر وائرس کا شکار پائے گئے۔ 29مارچ کو تبلیغی جماعت کے مرکز میں موجود لوگوں کی سکریننگ کی گئی جن میں سے 28 لوگوں میں کرونا وائرس پایا گیا، رائیونڈ تبلیغی مرکز سے 1200 افراد کو کالاشاہ کاکو میں واقع یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کیمپس میں قائم قرنطینہ مرکز میں منتقل کردیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ منتقل کئے گئے افراد میں کئی غیر ملکی بھی شامل ہیں، تمام افراد کو چودہ دن قرنطینہ میں رکھا جائے گا اور ان کے ٹیسٹ بھی کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ حیدرآباد میں کچھ دن قبل ایک نو مسلم چینی باشندے میں بھی کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی جو دعوت وتبلیغ کے سلسلے میں وحدت کالونی کی نور مسجد میں قیام پذیر تھا۔ اس کے بعد محکمہ صحت سندھ کے حکام نے اس مسجد میں 200 افراد کو قرنظینہ میں ڈال دیا۔ وزارت صحت کے حکام جب مسجد میں ان افراد کے نمونے لینے پہنچے تو انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد رینجرز اور پولیس کو بلایا گیا اور ان افراد کے نمونے لئے گئے، سندھ کے محکمہ صحت کے مطابق ان میں سے 36 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔ انہوں نے بتایا 30 مارچ کوکراچی میں کرونا وائرس سے مرنے والے دو افراد میں سے ایک شخص رائے ونڈ میں تبلیغی اجتماع میں شریک ہوا تھا اور مرنے والے دوسرے شخص کا بیٹا بھی اس اجتماع میں موجود تھا۔ اسلام آباد میں بھی پچھلے ہفتے ایک درجن سے زائد تبلیغی جماعت کے لوگوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد شہر کے مختلف علاقوں کو سیل کردیا گیا تھا۔ اسی طرح اطلاعات کے مطابق مردان میں 8 سے 9 لوگوں کا ایک تبلیغی گروہ گاؤں دڑیال میں موجود تھا۔ واقعہ کی اطلاع جب ضلعی انتظامیہ تک پہنچی تو انہوں نے تبلیغی جماعت کے 169 لوگوں کو مردان کے تبلیغی مرکز میں قرنطینہ میں ڈال دیا۔ مردان کے ڈپٹی کمشنر عابد خان وزیر نے بتایا کہ ان میں 3 غیرملکی باشندوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔ تین چار روز قبل لیہ میں قرنطینہ قرار دیئے گئے تبلیغی مرکز میں موجود ایک شخص نے حملہ کر کے پولیس افسر کو زخمی کیا تھا۔ پولیس ترجمان ندیم ملک کے مطابق قرنطینہ مرکز میں موجود تبلیغی جماعت کے کارکن عبدالرحمان نے بھاگنے کی کوشش کی جسے ایس ایچ او نے پکڑا جس پر اس نے چاقو سے وار کر کے پولیس افسر کو زخمی کر دیا۔ واضح رہے کہ 11 مارچ سے 15 مارچ کے دوران رائیونڈ میں اجتماع ہوا تھا جس کے بعد جماعت کے اراکین میں وائرس مثبت آنے رپورٹس سامنے آئیں۔ اجتماع میں بیرون ملک سے 500 غیر ملکی بھی شامل تھے۔ اگر پنجاب حکومت نے بروقت قدم اٹھایا ہوتا اور تبلیغی اجتماع کو روکا ہوتا تو اس قسم کی صورتحال پیدا نہ ہوتی۔
تفتان بارڈر کے ذریعے ایران سے بڑی تعداد میں زائرین کی واپسی اور اس معاملے میں تساہل برتنے سے ان زائرین نے ملک کے مختلف حصوں میں کرونا پھیلانے میں تقویت دی۔ اس کے باوجود وفاقی حکومت کو اچھی طرح علم تھا کہ بلوچستان حکومت کے پاس وسائل اور اہلیت کی کمی ہے وہاں ایسا نام نہاد قرنطینہ بنایا گیا جس کی اپنی حالت اتنی خراب تھی کہ جن لوگوں کو کرونا وائرس نہیں بھی لگنا تھا وہ اس کا شکار ہو گئے۔ اس ضمن میں وزیر اعظم کے ذاتی دوست، دست راست اور معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری کا کردار خاصا متنازعہ بتایا جاتا ہے۔ زلفی بخاری نے خود پر لگنے والے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے بلکہ انہوں نے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف جنہوں نے اس حوالے سے ان پر الزام لگایا تھا کو ایک ارب کے ہرجانے کا نوٹس بھجواتے ہوئے من گھڑت الزام واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
حکومت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے کی بے لاگ تحقیقات کر کے حقائق عوام کے سامنے رکھے۔ اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں سول سوسائٹی نے زلفی بخاری، وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو فریق بنا کر درخواست دائر کی تھی کہ اس معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنایا جائے لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ نے زلفی بخاری کے خلاف کروناوائرس کے پھیلاؤکی تحقیقات کی درخواست مسترد کردی۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ اس وقت ملک کو بڑے بحران کا سامنا ہے، اختلافات بھلا کر اکٹھے ہو کر یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے، آپس میں تقسیم ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے، عدالت نے کہا اس وقت اتفاق اور اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ بخاری صاحب کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو حکومت کو ان کی کھل کر مدافعت کرنی چاہئے، اگر واقعی دال میں کچھ کالا ہے تو ان کی وفاقی کابینہ میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔
پیر کی شب وزیراعظم کے قوم سے خطاب سے ایک بات تو واضح ہے کہ وہ مکمل لاک ڈاؤن کے خلاف ہیں، ان کے مطابق پاکستان ایسا لاک ڈاؤن برداشت نہیں کر سکتا، کیا ان کا کہنے کا یہ مطلب ہے کہ کل سے موجودہ پابندیاں بھی ختم کر دی جائیں گی اور زندگی کے معمولات پہلے کی طرح شروع ہو جائیں گے، اگر ایسا ہے تو وہ پھر لاک ڈاؤن کے نتیجے میں متاثرہ غریب لوگوں میں راشن تقسیم کرنے کیلئے ٹائیگر فورس کیوں بنا رہے ہیں؟ اگر وہ روزمرہ کی زندگی کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں تو پھر مخیر حضرات سے عطیات کی اپیل کیوں کر رہے ہیں، اگر لاک ڈاؤن موجودہ حالت میں رکھنا ہے یا اس میں مزید پابندیاں لگائی جانی ہیں تو پھروزیر اعظم یہ باور کیوں کراتے ہیں کہ وہ لاک ڈاؤن کے خلاف ہیں۔ ان کے اس واکھیان سے ایک پریشانی اور الجھن سی پیدا ہوتی ہے جس کی انہیں وضاحت کرنی چاہئے۔