اور زبان پھسل گئی؟
حالیہ ہفتوں میں وزیراعظم عمران خان کی زبان اس تواتر سے پھسلی جیسے بارش میں گیلی سڑک پر پرانے ٹائروں والی گاڑی پھسلتی ہے یا توخان صاحب دانستہ طور پر انہونی باتیں کر جاتے ہیں یا واقعی انھیں اپنے رشحات فکر کے اظہار پر پورا کنٹرول نہیں ہے۔ ایک ایٹمی طاقت اور آبادی کے لحاظ سے چھٹے بڑے ملک کے وزیراعظم کو خاص طور پر احتیاط کرنی چاہیے یعنی پہلے’ تولو پھر بولو، بنیادی سکیورٹی، خارجہ پالیسی اور دیگر قومی معاملات پر غلط بات کرنے سے بڑے دوررس اور پیچیدہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں بالخصوص غیر ملکی سرزمین پر زبان کھولنے سے پہلے احتیاط لازم ہے۔ پاکستان کا انگریزی زدہ ایلیٹ طبقہ اور تحریک انصاف نوازشریف کو کرپٹ کہنے کے علاوہ انگریزی سے نابلد، ان پڑھ اور ڈفر قرار دیتے نہیں تھکتے۔ جب بطور وزیراعظم میاں نوازشریف نے امریکہ کا سرکاری دورہ کیا تو اس وقت امریکی صدر باراک اوباما سے ون آن ون میٹنگ کی جاری ہونے والی فوٹیج میں میاں صاحب نوٹس کی مدد سے بات کرتے نظر آ رہے تھے، اس کا اپوزیشن بالخصوص پی ٹی آئی اور اشرافیہ نے خوب مذاق اڑایا لیکن نوازشریف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھیں اپنی کمزوریوں کا بخوبی علم تھا اور وہ بریفنگ لینے کے باوجود امریکہ جیسی سپر طاقت کے سربراہ سے بات کرتے ہوئے ایسی بات نہیں کرنا چاہتے تھے جس سے پاکستان کے موقف پر آنچ آتی ہو۔ حساس معاملات پر تمام عالمی رہنما اسی بنا پر نوٹس یا لکھی تقریر کا سہارا لیتے ہیں۔ رونالڈ ریگن کا شمار امریکی تاریخ کے کامیاب ترین صدور میں ہوتا ہے، وہ بنیادی طور پرفلم ایکٹر تھے، جب پہلی بار صدر بنے تو ان کی عمر 69برس تھی اور وہ امریکہ کے سب سے عمر رسیدہ صدر تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کیو کارڈزکے بغیر بات نہیں کرتے، تاکہ اہم معاملات پر وہ کوئی ایسی بات نہ کر دیں جس سے پالیسی کی ردگردانی ہو۔ شاید اسی لیے دن میں صرف چار گھنٹے کام کرنے اور اختیارات کو احتیاط سے تفویض کرنے والے ریگن نے بڑے دھڑ لے اور کامیابی سے صدارت کی۔ اس پس منظر میں عمران خان کو اپنی ذات پر بھرپور اعتماد ہونے کے باوجود کچھ احتیاط سے کام لینا چاہیے اور اپنا ہوم ورک کرنا چاہئے، اعلیٰ سطح کے اجلاس جلسے نہیں ہوتے ان میں نوٹس کا سہارا لینے میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح بطور وزیراعظم انھیں مخالفین کے بارے میں کلمات نہیں کہنے چاہئیں جن سے ان کی دل آزاری ہو۔ مخالفین کی اشتعال انگیز باتوں کو برداشت کرنا ہی ان کے منصب کا تقاضا ہے۔ ان کا چند روز قبل کا بیان کہ اگر نریندر مودی دوبارہ منتخب ہو گیا تو مسئلہ کشمیر حل کرنے میں آسانی ہو گی، اول تو پاکستانی وزیراعظم کو بھارت میں ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے ایسابیان دے کر کانگریس کو ناراض کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ کانگریس نے خان صاحب کے بیان پر شدید نکتہ چینی کی تھی، علاوہ ازیں انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی ووٹ حاصل کرنے کے لیے پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف اتنی نفرت انگیز اور متعصبانہ مہم چلا رہا ہے جس کی بھارتی عام انتخابات میں ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یا تو خارجہ پالیسی بالخصوص بھارت سے متعلق معاملات کے حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دفتر خارجہ کے اہلکار وزیراعظم کو ٹھیک طریقے سے بریف نہیں کرتے یا عمران خان بریفنگ لینے اور بریفنگ پیپرز پڑھنے پر یقین نہیں رکھتے۔ اسی رویے کی بنا پر انہوں نے افغانستان میں عبوری حکومت کے تحت عام انتخابات کرانے کا مطالبہ داغ دیا تھا جس کا اتنا منفی ردعمل ہوا کہ افغانستان نے اسلام آباد میں اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا اور افغانستان میں تمام متحارب گروپوں نے بھی متذکر ہ بیان کی مذمت کی تھی۔ بعداز خرابی بسیار ہماری وزارت خارجہ نے یہ وضاحت کی وزیراعظم نے انتخابات کے پاکستانی ماڈل کی جانب اشارہ کیا تھا جس میں الیکشن کا انعقاد عبوری حکومت کی زیر نگرانی ہوتا ہے اور اس بیان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تصور نہیں کیا جانا چاہیے تھا، پاکستان کا افغانستان میں اس کے علاوہ اور کوئی مفاد نہیں کہ امن کو ایک ایسے سیاسی عمل کے ذریعے فروغ دیا جائے جس کے مالک اور سربراہ افغان ہوں۔ لیکن ایسی باتوں سے جو نقصان ہوتا ہے وہ ہو جاتا ہے۔ ایران میں ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں عمران خان کا اس بات کا اعتراف کرناکہ ایران کے اندر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں ایسے عناصر ملوث رہے ہیں جو پاکستان کی سرزمین استعمال کر کے اپنی کارروائی منظم کرتے ہیں، پر خاصی لے دے ہو رہی ہے اور کیوں نہ ہو، اسی قسم کی بات کرنے پر انگریزی روزنامہ ’ڈان، کو سخت مطعون کیا گیا، اب اس کے نمائندے سرل المیڈا کو انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ورلڈ پریس فریڈم ہیرو کے ایوارڈ کیلئے نامزد کیا گیا ہے۔ متذکرہ خبر جو وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطح کے سکیورٹی اجلاس جس میں اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر، وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور تین سینئر وزرا شریک تھے کے حوالے سے لگائی گئی تھی جس کی باقاعدہ انکوائری ہوئی اور یہی روزنامہ اب اس خبر کا کریڈٹ لے رہا ہے حالانکہ اس نے سرل المیڈا کو کالم بند کرکے طویل رخصت پر بھیج دیا ہوا ہے۔ ’ڈان لیکس، کا اصل نزلہ میاں نوازشریف پر گرا جس کے نتیجے میں ان کے فوجی قیادت سے تعلقات بھی کشیدہ ہو گئے۔ اس معاملے میں عمران خان اور ان کی جماعت نے میاں صاحب کی بھرپور مذمت کی تھی لیکن نہ جانے انہوں نے یہ بات کس طرح ایرانی صدر کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں کر دی۔ اب وزیراعظم ہائوس کی جانب سے یہ وضاحت دی جاری ہے کہ وزیراعظم کے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ ترجمان کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے نان سٹیٹ ایکٹرز سے متعلق بات کی تھی۔ وزیراعظم نے کہا تھا نان سٹیٹ ایکٹرز بیرونی قوتوں کے اشاروں پر پاکستان میں کارروائی کر رہے ہیں، وزیراعظم نے کلبھوشن یادیو اورمقامی سہولت کاروں کی مثال دی اور پاکستان پر حملوں کیلئے ایرانی اورافغان سرزمین کے استعمال کی بات کی، وزیراعظم نے بیان بلوچستان میں حالیہ دہشت گرد ی کے واقعہ کے تناظر میں دیا۔ خان صاحب نے اس موقع پر ایک اور گگلی چھوڑ دی، جس کے مطابق سیاسی حریف جرمنی اور جاپان کے درمیان جنگ عظیم کے خاتمے پر دونوں ملکوں نے اپنے سرحدی علاقوں میں مشترکہ صنعتیں قائم کر لیں اور یوں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بگڑنے کا سوال باقی نہیں رہا، حالانکہ جرمنی اور جاپان میں ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ ہے اور ہٹلر اور جاپان اس جنگ میں ایک دوسرے کے حلیف تھے۔ ناقدین کے مطابق گویا کہ خان صاحب کو جغرافیہ کا ادارک ہے نہ تاریخ کا۔ اسی حوالے سے بلاول بھٹو اور سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے علاوہ دیگر رہنماؤں کی جانب سے وزیراعظم کو شدید تنقیدکا نشانہ بنایا گیا اور یہ تک کہا گیا ہے ان کی آکسفورڈ میں تعلیم سپورٹس کی بنیاد پر تھی اور اسی بنا پر انھوں نے وہاں سے کچھ نہیں سیکھا۔ لیکن خان صاحب کے وانا کے حالیہ جلسہ عام میں رشحات فکر خصوصی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں جہاں انھوں نے بلاول بھٹو کو ’صاحبہ، کہہ دیا، یہ زبان پھسلی نہیں تھی کیونکہ اس سے ایک روز پہلے بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں ان پر جو شدید نکتہ چینی کی تھی یہ اس کا دانستہ جواب تھا جس پر بلاول بھٹو نے بجا طور پر کہا ہے کہ کسی مرد کو خاتون کہہ کر مطعون کرنا بھی خواتین کے بارے میں ایک مخصوص میلان طبع کی غمازی کرتا ہے۔ بلاول بھٹو کے خلاف ریمارکس پر شدید ردعمل وقت کی تبدیلی کا غمازہے۔ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے ایک مرتبہ احمد سعید کرمانی جوان کے شدید مخالف تھے لیکن بعدازاں انھیں بھٹو نے مصر میں سفیربھی لگا دیا تھا۔ اخبارنویس کے ان کے بارے میں سوال کے جواب میں بھٹو نے کہا تھا who is she?۔ اقتدار میں آنے سے پہلے جب بھٹو صاحب کا طوطی بول رہا تھا، لاہور کے گول باغ میں جلسہ جس میں، میں بھی موجود تھا تقریر کرتے ہوئے انھوں نے یہ تاریخی فقرہ کہا تھا مخالفین مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ ’میں پیتاہوں، لیکن میں مزدوروں کا خون تو نہیں پیتا۔ ان باتوں پر بھٹو کی بڑی واہ واہ ہوئی تھی اور ان کی باتیں عوام میں مقبول ہوتی تھیں۔ اس وقت اسمبلیاں موجود نہیں تھیں لیکن اب 2019ء میں سیاسی وسماجی رویے خاصے بدل چکے ہیں۔ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا کے دور میں ایسی باتوں کو معیوب سمجھا جاتا ہے، بہتر ہو گا کہ خان صاحب کنٹینر پر کی جانے والی سیاست پر بطور وزیراعظم نظرثانی کریں۔ پہلے تولیں پھر بولیں، ویسے بھی ستم ظریفی ہے کہ حکمران جماعت کے سربراہ ملک بھر میں جلسے کرتے پھر رہے ہیں اور ناراض اپوزیشن جسے سڑکوں پر نکلنے کی ترغیب دی جا رہی ہے ایوانوں میں بیٹھی شور مچا رہی ہے۔