Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Arif Nizami
  3. Aage Barhne Ka Waqt

Aage Barhne Ka Waqt

آگے بڑھنے کا وقت

پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی محض ایک نعرہ ہی نہیں بلکہ بدیہی حقیقت ہے جس کا عملی مظاہرہ آج کل ون بیلٹ ون روڈ کے چین میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں ہو رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے عالمی ون بیلٹ ون روڈ فورم کے اجلاس جس میں 37 سربراہان مملکت اور حکومت شریک تھے سے اپنے خطاب میں تسلیم کیا کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے سب سے پہلے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شرکت کی اور پاکستان کو فخر ہے کہ ہم ملک کی تقدیر بدلنے والے اس منصوبے میں چین کے ساتھ شراکت دار ہیں۔ وزیراعظم نے اچھا کیا کہ انہوں نے بلاواسطہ طور پر تسلیم کیا کہ پچھلی حکومت یہ احسن کام کر گئی۔ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اس منصوبے کی شفافیت اور افادیت کے بارے میں کچھ تحفظات تھے، اسی بناء پر ان کے مشیر تجارت رزاق دائود "فنانشل ٹائمز" کو انٹرویو میں یہ فرما چکے تھے کہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے "سی پیک" نے ہمیں مقروض کر دیا ہے اور ان منصوبوں پر نظرثانی کرنے کے ساتھ ساتھ ایک برس کیلئے "سی پیک" کے منصوبوں کو معطل کر دیا جائے گا۔ مقام شکر ہے کہ رزاق دائود نے اپنے باس کی روش کے عین مطابق کہ اس انٹرویو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر قرار دے کر اپنی جان چھڑا لی اور ایسا کرنا ہی پاکستان کے وسیع تر مفاد میں تھا۔ چین نے نہ صرف حالیہ اقتصادی بحران میں ہماری دامے درمے سخنے مدد کی بلکہ مشکل سے نکالنے کے لئے دو ارب ڈالر دیئے، یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ ایسے وقت میں مدد کی جب پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری تو کجا مقامی سرمایہ کاری بھی منفی ہے اور کوئی ملک پاکستان کی طرف دست تعاون نہیں بڑھا رہا۔ چینی صدر شی جن پنگ اب "سی پیک" کو اگلے مرحلے کی طرف لے جا رہے ہیں اور پاکستان کا اس میں کلیدی کردار ہے۔ 122 ممالک اور 49 بین الاقوامی ادارے"ون بیلٹ ون روڈ" منصوبے کا حصہ ہیں۔ مغربی میڈیا میں ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کیخلاف خاصا منفی پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اس سے کئی ممالک دیوالیہ ہو جائیں گے جن میں سری لنکا کی مثال دی جاتی ہے کہ وہاں چین نے ہوائی اڈا تعمیر کیا اور اس کا قرضہ نہ اتارنے کے باعث چین نے اس کا کنٹرول لے لیا۔ اسی طرح ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے اس منصوبے کے تحت ٹرین لائن بچھانے کا منصوبہ منسوخ کر دیا تھا لیکن بعد میں اسے بحال کر دیا۔ پاکستان میں بھی تحریک انصاف کے حامی ناقدین یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ نوازشریف کے دور میں "سی پیک" کے باعث ملکی قرضوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ نوازشریف کے چار سالہ دور وزارت عظمیٰ میں تقریباً 40 ارب ڈالر قرضہ لیا گیا لیکن جی ڈی پی کی شرح 5.8 فیصد تک پہنچنے اور پاور پراجیکٹس لگنے سے اثاثوں میں اضافے کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایسی کوئی افتاد نہیں آن پڑی تھی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے ہی معیشت کا پہیہ رک گیا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کہتے رہتے تھے کہ میں قرضہ نہیں لوں گا، قرضہ لینے سے بہتر ہو گا کہ خودکشی کر لوں لیکن پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے وہ بھی بھاری قرضے لینے پر مجبور ہو گئے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے پر چین اور پاکستان متفق ہو گئے ہیں۔ وائٹ کالر کرائم کا خاتمہ عمران خان کے پانچ نکات میں سرفہرست ہے۔ چینی صدر کا بھی کہنا ہے کہ منصوبے میں کوئی کرپشن برداشت نہیں کی جائے گی۔ چینی صدر نے اپنے خطاب میں بجا طور پر کہا کہ وہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں بہتری لائیں گے اور نجی شعبے میں بھی پاکستان اور چین کے ساتھ تعاون کو بڑھایا جائے گا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں جن پانچ نکات کا ذکر کیا ان میں ماحولیاتی تبدیلی سے نبٹنے، ٹورازم کوریڈور، غربت میں کمی کے لئے فنڈ کے قیام اور آزاد تجارت کے لئے اقدامات شامل ہیں۔ لیکن غالباً جوش خطابت میں دانستہ یا نادانستہ طور پر ان کا یہ دعویٰ کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا جہاں ان کی حکومت ہے پانچ ارب درخت لگائے گئے۔ یہ دعویٰ محل نظر ہے کہ کیونکہ خیبر پختونخوا اسمبلی کی کمیٹی جن کے رکن اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی بھی ہیں کی رپورٹ ہے کہ سونامی ٹری منصوبہ میں کرپشن ہوئی اور ان کی تعدادسو ملین بھی نہیں ہے…یعنی بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لئے…نہ جانے کیوں موجودہ حکومت ایسے بلند بانگ دعوے کرتی ہے جو زمینی حقائق سے لگا نہیں کھاتے۔ یہ اسی قسم کا دعوی ٰہے جیسا کہ حکومت ایک سال میں پچاس لاکھ گھر تعمیر کر لے گی۔ وزیراعظم کی ون بیلٹ ون روڈ فورم میں شرکت کے بعد ’سی پیک، کے بارے میں منفی پراپیگنڈہ ختم ہو جانا چاہیے۔ امریکہ اور بھارت کو اس منصوبے سے سخت چڑ ہے کیونکہ بھارت کو خوب معلوم ہے کہ سی پیک میں اقتصادی تعاون کے علاوہ پاکستان کے ساتھ سٹرٹیجک تعاون بھی موجود ہے۔ جے ایف تھنڈر طیارے ہوں یا چین سے ملنے والی آبدوزیں یا پاکستان کا میزائل پروگرام یہ امریکہ اور اس کے دم چھلے بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ آج کل پاکستان آئی ایم ایف سے قریباً 9 ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج پر مذاکرات کر رہا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف "سی پیک" کے تحت چین کے ساتھ منصوبوں کی تفصیلات بالخصوص سب میرین ڈیل اور جے ایف تھنڈر طیارے پاکستان میں بنانے کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ یقیناً ایسی شرائط قبول کرنے سے پاکستان کی خودمختاری پر آنچ آ سکتی ہے، اسی بناء پر یہ ناقابل قبول ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ ماہ قبل کہا تھا کہ پاکستان کو ملنے والا آئی ایم ایف کا قرضہ ’سی پیک، کے تحت چینی قرضے اتارنے کے لئے استعمال ہو گا۔ اس بارے میں پاکستان کی طرف سے یہ دو ٹوک وضاحت کی گئی تھی کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ’سی پیک، کے قرضوں کی واپسی کا ابھی وقت ہی نہیں آیا۔ ویسے بھی آئی ایم ایف کو حق حاصل ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پاکستان کے اقتصادی استحکام کے لئے جو قرضے دے وہ اسی مقصد کے لئے استعمال ہوں لیکن اس حوالے سے ’سی پیک، کے منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں پاکستان کے لئے ناقابل قبول ہوں گی۔ وزیراعظم عمران خان چین کے دورے سے واپس لوٹ چکے ہیں وہ اپنا وزیر خزانہ بعد از خرابی بسیار تبدیل کر چکے ہیں لیکن ابھی حکومت کی طرف سے اقتصادی انجن کو زور و شور سے دوبارہ سٹارٹ کرنے کا عمل شروع نہیں ہوا اس ضمن میں جو بھی رکاوٹیں ہیں انہیں جلد از جلد دور کرنا چاہیے۔ یہ اچھی خبر ہے کہ نیب کے قانون میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات میں پیشرفت ہو رہی ہے علاوہ ازیں پارلیمنٹ میں سر پٹولنے کی بجائے ملک کو درپیش سنگین اقتصادی چینلجز سے نبٹنے کے لئے اپوزیشن کے دست تعاون کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ صدارتی نظام، اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے، این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کرنے کی بحث کو نہ ہی چھیڑا جائے تو بہتر ہے کیونکہ ایسا موجودہ آئین کے تحت نہیں ہو سکتا بلکہ اس وقت صوبوں کو ساتھ لے کر "سی پیک" اور دیگرمنصوبوں کے حوالے سے آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ جملہ معترضہ کے طور پرنئے/پرانے وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کہاں سے مسلط کئے گئے ہیں۔ باخبر حلقوں کے مطابق شیخ صاحب کی وزیر اعظم سے پہلی ملاقات نامزدگی کے بعد ہوئی تھی۔ این چہ بوالعجبی است؟

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari