Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Arif Anis Malik
  3. Qismat Ki Geometry, Shor Machao Jani

Qismat Ki Geometry, Shor Machao Jani

قسمت کی جیومیٹری، شور مچاؤ جانی

بارش برستی تو سب پر ہے، لیکن جو اپنا برتن ہی الٹا کرکے بیٹھا ہو، اس کی جھولی کیسے بھرے گی؟

ہم سب کی زندگی میں کچھ ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جب ہم کسی کامیاب شخص کو دیکھتے ہیں، شاید کوئی ایسا دوست جو اچانک ترقی کی سیڑھی چڑھ گیا، یا کوئی ایسا کاروباری جس کا آئیڈیا راتوں رات مشہور ہوگیا اور ہمارے دل سے ایک سرد آہ نکلتی ہے کہ "یار! یہ کتنا خوش قسمت ہے"۔ ہم اپنی ناکامیوں کو "بدقسمتی" کے کھاتے میں ڈالتے ہیں اور دوسروں کی کامیابیوں کو "تقدیر کی مہربانی" سمجھ کر خود کو تسلی دے دیتے ہیں۔ لیکن یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور سب سے پرفریب جھوٹ ہے۔ جدید تحقیق اور انسانی نفسیات نے اب یہ ثابت کر دیا ہے کہ جسے ہم "قسمت" کہتے ہیں، وہ کوئی آسمانی بجلی نہیں جو اچانک کسی منتخب شخص پر گرتی ہے، بلکہ یہ ایک ریاضیاتی مساوات (Equation) ہے جسے حل کیا جا سکتا ہے۔ خوش قسمتی کوئی جادو نہیں، یہ ایک سائنس ہے اور اس سائنس کا نام "نصیب کا رقبہ" یا Luck Surface Area ہے۔

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کچھ لوگوں کے ساتھ ہی اچھے "اتفاقات" کیوں ہوتے ہیں؟ کیوں کچھ لوگ ہمیشہ صحیح وقت پر صحیح جگہ موجود ہوتے ہیں؟ اس کا جواب مابعدالطبیعات میں نہیں، بلکہ جیومیٹری میں ہے۔ تصور کریں کہ خوش قسمتی کے تیر فضا میں ہر وقت برس رہے ہیں۔ اگر آپ ایک چھوٹے سے نقطے کی مانند ایک کونے میں چھپے بیٹھے ہیں، تو اس بات کا امکان تقریباً صفر ہے کہ کوئی تیر آپ کو چھو کر گزرے گا۔ لیکن اگر آپ اپنے وجود کو پھیلا لیں، اگر آپ اپنے ہونے کا "رقبہ" بڑھا لیں، تو آپ چلتے پھرتے مقناطیس بن جاتے ہیں جس سے خوش قسمتی کے یہ تیر خود بخود ٹکرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ فلسفہ ہے جسے جدید سلیکون ویلی کے مفکرین نے "لک سرفیس ایریا" کا نام دیا ہے، جو دراصل ہمارے صدیوں پرانے اس یقین کی نئی تشریح ہے کہ حرکت میں برکت ہے۔

اس تصور کی بنیاد ایک سادہ سے کلیے پر ہے: آپ کی خوش قسمتی دو چیزوں کا حاصل ضرب ہے۔ پہلی چیز "عمل" (Doing) ہے اور دوسری چیز "اظہار" (Telling)۔ ہم میں سے اکثر لوگ پہلی شرط تو پوری کرتے ہیں، ہم محنت کرتے ہیں، راتوں کو جاگتے ہیں، اپنے ہنر میں طاق ہوتے ہیں۔ لیکن ہم دوسری شرط، یعنی اظہار، میں مار کھا جاتے ہیں۔ ہمیں بچپن سے سکھایا گیا ہے کہ "نیکی کر دریا میں ڈال" یا "خاموشی سے محنت کرو، تمہاری کامیابی شور مچائے گی"۔ اکیسویں صدی کی "توجہ کی معیشت" میں یہ نصیحت ایک خطرناک جال ہے۔ اگر آپ دنیا کے بہترین مصور ہیں لیکن آپ کی پینٹنگز تہہ خانے میں بند ہیں، تو آپ کا "نصیب کا رقبہ" صفر ہے۔ قسمت ان لوگوں کو نہیں ڈھونڈتی جو چھپے ہوتے ہیں، قسمت ان لوگوں سے ٹکراتی ہے جو اپنے کام کا شور مچاتے ہیں، جو اپنے جنون کو دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں اور جو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔

جب آپ اپنے کام، اپنے خیالات اور اپنے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس کو دنیا کے سامنے لاتے ہیں، تو آپ دراصل کائنات میں "سگنل" بھیج رہے ہوتے ہیں۔ یہ سگنل ان لوگوں تک پہنچتے ہیں جنہیں آپ نہیں جانتے، لیکن وہ آپ کو ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ اسے "غیر متوقع خوشگوار حادثہ" (Serendipity) کہتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ایک اجنبی آپ کا مضمون پڑھ کر آپ کو ایک ایسے موقع کی پیشکش کرتا ہے جس کا آپ نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا، یا جب آپ کی ایک ٹوٹی پھوٹی ویڈیو دیکھ کر کوئی سرمایہ کار آپ کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ یہ جادو نہیں ہے، یہ آپ کا پھیلایا ہوا جال ہے۔ آپ نے اپنے جذبے (Passion) کا اظہار کرکے اپنے نصیب کا رقبہ اتنا وسیع کر لیا کہ موقع کے پاس آپ سے ٹکرانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔

نفسیات دان ڈاکٹر کرسچن بش، جنہوں نے "اتفاقات کی سائنس" پر گہری تحقیق کی ہے، اسے "اسمارٹ لک" کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بدقسمت لوگ وہ ہوتے ہیں جو دنیا کو ایک تنگ نالی کی طرح دیکھتے ہیں، جہاں وہ صرف اپنی منزل کی طرف دیکھتے ہیں۔ جبکہ خوش قسمت لوگ دنیا کو ایک وسیع میدان کی طرح دیکھتے ہیں، وہ منزل کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ملنے والے ہر پتھر، ہر اجنبی اور ہر اشارے کو غور سے دیکھتے ہیں۔ وہ نقطوں کو جوڑنا جانتے ہیں۔ جب آپ اپنے کام کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو آپ دراصل دنیا کو یہ دعوت دے رہے ہوتے ہیں کہ "آؤ اور میرے ساتھ نقطے جوڑو"۔ یاد رکھیں، مواقع کبھی بھی آپ کے قریبی حلقہ احباب (Strong Ties) سے نہیں آتے کیونکہ وہ تو وہی جانتے ہیں جو آپ جانتے ہیں، زندگی بدل دینے والے مواقع ہمیشہ "کمزور روابط" (Weak Ties) یعنی دور کے جاننے والوں یا اجنبیوں سے آتے ہیں اور ان اجنبیوں تک پہنچنے کا واحد راستہ "اظہار" ہے۔

یہاں ایک بہت بڑی نفسیاتی رکاوٹ "لوگ کیا کہیں گے" کا خوف ہے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنے کام کی نمائش کی تو لوگ ہمیں خود پسند یا مغرور سمجھیں گے۔ لیکن اس خوف نے قبرستانوں کو ایسے شاہکاروں سے بھر دیا ہے جو کبھی لکھے ہی نہیں گئے اور ایسی ایجادات سے جو کبھی منظر عام پر نہیں آئیں۔ عاجزی کا مطلب خود کو چھپانا نہیں ہے، بلکہ عاجزی کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے پاس موجود تحفے کو انسانیت کی امانت سمجھیں اور اسے بانٹیں۔ جب آپ اپنے علم یا ہنر کا اظہار کرتے ہیں، تو آپ دراصل دوسروں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ ایک "لائٹ ہاؤس" بن جاتے ہیں۔ لائٹ ہاؤس جہازوں کو ڈھونڈنے کے لیے سمندر میں نہیں بھاگتا، وہ صرف اپنی جگہ کھڑا ہو کر پوری طاقت سے روشنی بکھیرتا ہے اور جہاز خود اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔

اقبالؒ نے جسے "خودی" کہا تھا، وہ دراصل اسی چھپی ہوئی صلاحیت کے اظہار کا نام ہے۔ جب شاہین فضا میں بلند ہوتا ہے تو وہ اپنی موجودگی کا اعلان کرتا ہے، وہ چھپتا نہیں۔ خوش قسمتی کا یہ جدید فلسفہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں "جامد ہدف" (Static Target) نہیں بننا۔ اگر آپ ایک جگہ کھڑے رہیں گے تو قسمت کا تیر آپ کو نہیں لگے گا۔ آپ کو متحرک ہونا ہوگا اور اپنی حرکت کی گونج پیدا کرنی ہوگی۔ ہر وہ مضمون جو آپ لکھتے ہیں، ہر وہ ای میل جو آپ کسی اجنبی کو بھیجتے ہیں، ہر وہ محفل جہاں آپ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں، یہ سب آپ کے "نصیب کے رقبے" میں انچ در انچ اضافہ کرتے ہیں۔ یہ جال جتنا بڑا ہوگا، مچھلیاں پھنسنے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

لیکن اس کا ایک اور پہلو بھی ہے جو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور وہ ہے "متجسس ذہن"۔ رقبہ بڑھانے کا مطلب صرف بولنا نہیں، بلکہ سننا بھی ہے۔ جب آپ تجسس کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، تو آپ کو ان جگہوں پر مواقع نظر آتے ہیں جہاں دوسروں کو صرف کچرا نظر آتا ہے۔ پینسلین کی دریافت محض ایک حادثہ تھی، لیکن وہ حادثہ الیگزینڈر فلیمنگ کے ساتھ ہی کیوں پیش آیا؟ کیونکہ اس کا ذہن اس "اتفاق" کو پکڑنے کے لیے تیار تھا۔ اسے "تیار ذہن" (Prepared Mind) کہتے ہیں۔ جب آپ اپنے ذہن کو کھلا رکھتے ہیں اور اپنے کام کو دنیا کے ساتھ بانٹتے ہیں، تو آپ دراصل خود کو ان "خوشگوار حادثات" کے لیے تیار کر رہے ہوتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ اپنی بدقسمتی کا رونا بند کیجیے۔ قسمت کوئی ایسی چیز نہیں جو آپ کے ساتھ "ہوتی" ہے، یہ وہ چیز ہے جسے آپ "بناتے" ہیں۔ اپنے خول سے باہر نکلیں۔ اپنے کام کو، چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا یا معمولی کیوں نہ ہو، دنیا کے سامنے لائیں۔ انٹرنیٹ نے آج ہر انسان کو یہ طاقت دے دی ہے کہ وہ اپنی آواز دنیا کے کونے کونے تک پہنچا سکے۔ اگر آپ کمرے میں بند ہو کر دنیا کی بہترین کتاب بھی لکھ لیں، تو وہ ردی کا ٹکڑا ہے جب تک کہ وہ کسی قاری کے ہاتھ میں نہ پہنچ جائے۔

آج ہی سے ایک عہد کریں: اپنے "نصیب کے رقبے" کو وسیع کریں۔ اجنبیوں سے بات کریں، اپنے نامکمل خیالات پر بحث کریں، اپنے پراجیکٹس کی نمائش کریں اور ناکام ہونے سے نہ ڈریں۔ کیونکہ ریاضی کا اصول ہے کہ صفر کو جس چیز سے بھی ضرب دیں جواب صفر ہی آتا ہے۔ اگر عمل اور اظہار صفر ہے، تو قسمت بھی صفر ہوگی۔ لیکن جیسے ہی آپ اس میں تھوڑی سی حرکت اور تھوڑی سی آواز شامل کرتے ہیں، کائنات کی تمام قوتیں آپ کے حق میں حرکت میں آ جاتی ہیں۔ قسمت دروازہ کھٹکھٹانے کا نام نہیں، قسمت دروازہ بنانے کا نام ہے اور یہ دروازہ صرف "عمل" اور "اظہار" کی لکڑی سے بنتا ہے۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz