Wednesday, 10 December 2025
  1.  Home
  2. Arif Anis Malik
  3. Qayamat Ke Shayar Ki Baatein

Qayamat Ke Shayar Ki Baatein

قیامت کے شاعر کی باتیں

کل 2025 کے نوبل انعام یافتہ ادیب، لاسلو کراسناہروکائی (László Krasznahorkai) نے اپنا خطبہ دیا جو خاصے کی چیز ہے اور آپ سے شیئر کر رہا ہوں۔

دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی شام، سٹاک ہوم کا وہ ہال جہاں دنیا کے ذہین ترین دماغ جمع تھے، وہاں سٹیج پر ایک ایسا شخص کھڑا تھا جو لگتا ہی نہیں تھا کہ اس صدی کا باشندہ ہے۔ لاسلو کراسناہروکائی، ہنگری کا وہ درویش صفت لکھاری جسے دنیا "قیامت کا شاعر" (The Prophet of Apocalypse) کہتی ہے، جب نوبل انعام وصول کرنے آیا تو اس کے چہرے پر فتح کی مسکراہٹ نہیں، بلکہ وہی قدیم اداسی تھی جو اس کی تحریروں کا خاصہ ہے۔ اس نے اپنے خطبے کا آغاز کسی روایتی شکریے سے نہیں کیا، بلکہ ایک ایسے جملے سے کیا جس نے پورے ہال پر سناٹا طاری کر دیا: "ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں امید سب سے خطرناک دھوکہ ہے اور مایوسی واحد حقیقت جو ہمیں آزاد کرتی ہے"۔

لاسلو کی کہانی بھی ان کے ناولوں کی طرح عجیب اور پیچیدہ ہے۔ 1954 میں ہنگری کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونے والے اس شخص نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ایسے گزارا جیسے وہ کسی اور زمانے کا قیدی ہو۔ وہ کوئی عام مصنف نہیں ہے جو کافی شاپس میں بیٹھ کر لیپ ٹاپ پر ٹائپ کرے۔ لاسلو ایک جدید دور کا "ملنگ" ہے۔ وہ سالوں تک چین، منگولیا اور جاپان کے دور دراز مندروں اور خانقاہوں میں بھٹکتا رہا، صرف اس "خاموشی" کی تلاش میں جو مغرب کے شور میں کھو چکی تھی۔ اس کی زندگی کا ایک حیران کن پہلو یہ ہے کہ اس نے 1985 میں اپنا شاہکار ناول "سیٹن ٹینگو" (Satantango) لکھا اور پھر مشہور فلم ساز بیلا ٹار کے ساتھ مل کر اس پر ساڑھے سات گھنٹے کی بلیک اینڈ وائٹ فلم بنا دی، ایک ایسی فلم جس میں لوگ صرف بارش کو گرتے ہوئے یا گائے کے ریوڑ کو چلتے ہوئے گھنٹوں دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ اس کا دنیا کو چیلنج تھا: "کیا تم میں زندگی کو ٹھہر کر دیکھنے کا حوصلہ ہے؟"

اپنے نوبل لیکچر میں لاسلو نے اسی "ٹھہر جانے" (Stillness) کے فلسفے کو بیان کیا۔ اس نے کہا کہ آج کا انسان "معلومات کے سیلاب" میں ڈوب رہا ہے، مگر "دانائی" کے قحط کا شکار ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم نے زبان کو ابلاغ کا ذریعہ نہیں، بلکہ شور مچانے کا آلہ بنا لیا ہے۔ لاسلو کی تحریر کی سب سے بڑی اور غیر معمولی نشانی اس کے "طویل ترین جملے" ہیں۔ اس کا ایک جملہ کئی کئی صفحات پر محیط ہوتا ہے، جس میں کوما (Comma) تو ہوتے ہیں مگر فل اسٹاپ (Full Stop) نہیں ہوتا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اتنے لمبے جملے کیوں لکھتے ہیں، تو انہوں نے نوبل کے سٹیج سے جواب دیا: "کیونکہ حقیقت ٹکڑوں میں نہیں ہوتی، حقیقت ایک مسلسل بہاؤ ہے۔ کیا آپ اپنی سانس کو کاٹ سکتے ہیں؟ کیا آپ وقت کو روک سکتے ہیں؟ تو پھر جملے کو کیوں روکتے ہو؟" ان کا جملہ پڑھنا ایک مراقبے کی طرح ہے، جو قاری کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی تیز رفتار زندگی کو بریک لگائے اور لفظوں کے سمندر میں غوطہ لگائے۔

لاسلو نے اپنے خطاب میں ایک اور انتہائی باریک نقطہ اٹھایا جسے "خوبصورتی کا زوال" کہا جا سکتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ کائنات آہستہ آہستہ تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے اور یہی اس کی خوبصورتی ہے۔ جیسے ایک پرانی عمارت جب گر رہی ہوتی ہے تو اس کے کھنڈرات میں ایک عجیب سی کشش ہوتی ہے، بالکل ویسے ہی انسانیت اپنی ناکامیوں میں بھی حسین ہے۔ انہوں نے مغرب کے "پرفیکشن" کے جنون کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی ٹوٹی ہوئی ذات، اپنی ادھوری خواہشات اور اپنی ناگزیر موت کو گلے لگانا چاہیے۔ ان کے مطابق، جو شخص یہ جان لیتا ہے کہ آخر میں سب کچھ مٹی ہونا ہے، وہی شخص اصل میں زندگی کے ہر لمحے کی قدر کر سکتا ہے۔ یہ مایوسی نہیں، بلکہ یہ وہ "آگاہی" ہے جو انسان کو خوف سے آزاد کر دیتی ہے۔

لاسلو کی زندگی کا ایک اور دلچسپ پہلو ان کا ٹیکنالوجی سے فرار ہے۔ وہ آج بھی کاغذ اور قلم سے لکھتے ہیں اور انٹرنیٹ کی دنیا سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے لیکچر میں خبردار کیا کہ ہم "ڈیجیٹل الزائمر" کا شکار ہو رہے ہیں، جہاں ہم نے یاد رکھنے کا کام مشینوں کو سونپ دیا ہے۔ انہوں نے سامعین کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا: "تمہاری توجہ (Attention) وہ آخری چیز ہے جو تمہارے پاس بچی ہے، اسے سستی تفریح کے بدلے مت بیچو"۔ ان کا یہ جملہ دراصل اس پوری "توجہ کی معیشت" (Attention Economy) پر ایک کاری ضرب تھا جس کا ہم سب حصہ بن چکے ہیں۔

آخر میں، لاسلو کراسناہروکائی کا نوبل انعام جیتنا صرف ایک ادیب کی کامیابی نہیں، بلکہ یہ اس "صبر" کی فتح ہے جو آج کل ناپید ہو چکا ہے۔ اس شخص نے ہمیں سکھایا ہے کہ اگر آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ گہرا ہے، تو آپ کو شور مچانے کی ضرورت نہیں، دنیا خود خاموش ہو کر آپ کو سنے گی۔ ان کا فلسفہ سادہ مگر لرزہ خیز ہے: اندھیرا بہت گہرا ہے، لیکن اگر آپ آنکھیں بند کرنے کے بجائے آنکھیں پھاڑ کر اندھیرے میں دیکھنے کی مشق کریں، تو آپ کو وہ روشنی نظر آ جائے گی جو اجالوں میں دکھائی نہیں دیتی۔ لاسلو نے سٹیج چھوڑنے سے پہلے آخری بات یہ کہی کہ "ادب کا کام تمہیں خوش کرنا نہیں، بلکہ تمہیں جگانا ہے، چاہے وہ جاگنا کتنا ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو"۔

Check Also

China Ki Quantum Daur, Mustaqbil Ki Maeeshat Ka Naya Safar

By Asif Masood