Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Arif Anis Malik
  3. Nvidia Ki Kahani

Nvidia Ki Kahani

این ویڈیا کی کہانی

یہ دنیا کی پہلی پانچ ٹرلین ڈالرز والی کمپنی این وڈیا کے بانی جینسن ہوانگ کی کہانی ہے۔

پہلی نظر میں، جینسن ہوانگ ایک عام ٹیکنالوجی سی ای او لگتا ہے۔ لیکن اُس کی کالی لیدر جیکٹ کوئی فیشن اسٹیٹمنٹ نہیں ہے۔ یہ اصولوں سے بغاوت کا اعلان ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کو دنیا بدلنے کے لیے وال اسٹریٹ کا سوٹ پہننے کی ضرورت نہیں۔

وہ ایک شرمیلا شخص ہے۔ وہ مشن کا متلاشی ہے۔ وہ اپنی ذات پر نہیں، اپنی ٹیم اور اپنی پروڈکٹ پر بات کرتا ہے۔

اور اُس کی پروڈکٹ؟ وہ کوئی عام سافٹ ویئر نہیں ہے جسے آسانی سے کاپی کیا جا سکے۔ این ویڈیا (NVIDIA) نے کھربوں ڈالر ہوا بیچ کر نہیں کمائے، اُس نے وہ "انجن" بیچا ہے جس پر مستقبل کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔

آج مصنوعی ذہانت (AI) کی جنگ میں، این ویڈیا کوئی عام کھلاڑی نہیں ہے۔ وہ واحد "اسلحہ فروش" ہے، جس کے بغیر یہ جنگ لڑی نہیں جا سکتی۔ لیکن یہ کہانی صرف ٹیکنالوجی کی نہیں ہے۔ یہ اُس شخص کے "کردار" کی کہانی ہے جس نے اِسے ممکن بنایا۔

"کامیابی کا امکان: صفر فیصد"۔

یہ الفاظ جینسن ہوانگ کے ہیں، جب اُس نے 1993 میں این ویڈیا کی بنیاد رکھی۔ اُس کے پاس صرف 40,000 ڈالرز اور ایک "ناممکن" خواب تھا۔ وہ ایک ایسی مارکیٹ میں داخل ہو رہا تھا جہاں بڑے کھلاڑی پہلے ہی موجود تھے اور وہ ایک ایسی ٹیکنالوجی (GPU) بنا رہا تھا جسے اُس وقت کوئی "فنڈ" دینے کو تیار نہیں تھا۔

صرف تین سال بعد 1996 میں، کمپنی تباہی سے صرف 30 دن دور تھی۔

اُن کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینے کے لیے صرف ایک مہینے کا کیش تھا۔ اُن کی پہلی چپ (NV1) ٹیکنالوجی کی ایک فاش غلطی ثابت ہوئی۔ مائیکروسافٹ نے اپنے سافٹ ویئر کی سمت بدل دی اور این ویڈیا کا پورا بزنس ماڈل راتوں رات زمین بوس ہوگیا۔

یہ وہ لمحہ تھا جہاں 99 فیصد لوگ ہمت ہار دیتے ہیں۔

لیکن قیادت کا جنم ہی بحران میں ہوتا ہے۔ ہوانگ نے ہمت نہیں ہاری۔ اُس نے ایک آخری، سب سے بڑا جوا کھیلا۔ اُس نے اپنی آدھی ورک فورس (50 لوگ) کو فارغ کر دیا اور باقی تمام سرمایہ ایک ایسی نئی چپ (RIVA 128) پر لگا دیا جو ابھی تک ٹیسٹ بھی نہیں ہوئی تھی۔

یہ جوا کامیاب ہوا۔ اُس ایک چپ نے چار مہینوں میں 10 لاکھ یونٹس فروخت کیے اور کمپنی کو بچا لیا۔

یہ تجربہ این ویڈیا کے ڈی این اے کا حصہ بن گیا۔ اسی لیے آج بھی ہوانگ ہر میٹنگ کا آغاز ایک ہی جملے سے کرتا ہے:

"ہماری کمپنی تباہی سے 30 دن دور ہے"۔

یہ ایک ذہنیت ہے۔ یہ ایک فلسفہ ہے کہ کبھی پُرسکون مت بیٹھو۔ کبھی یہ مت سمجھو کہ تم جیت چکے ہو۔

یہ فلسفہ اُس کی ذاتی زندگی سے آیا ہے۔

ہوانگ کی پیدائش تائیوان میں ہوئی۔ خاندان ویتنام جنگ کے خطرے کے پیشِ نظر تھائی لینڈ اور پھر امریکہ منتقل ہوا۔ اُس کی ماں، جسے انگریزی کا ایک لفظ نہیں آتا تھا، روز ڈکشنری سے 10 الفاظ چنتی اور اپنے بیٹوں کو رٹواتی تھی۔

امریکہ میں اُسے کینٹکی کے ایک بورڈنگ اسکول بھیج دیا گیا۔ یہ کوئی ایلیٹ اسکول نہیں تھا۔ یہ ایک ملٹری ریفارم اکیڈمی تھی۔ ہوانگ کا پہلا کام بچپن میں اپنے سکول کے ٹوائلٹ صاف کرنا تھا۔ ہوانگ، جو ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولتا تھا، وہاں مار پیٹ کا شکار ہوا۔ لیکن اُس نے اس تکلیف کو اپنی طاقت بنایا۔

اُس کا 17 سالہ روم میٹ اَن پڑھ تھا۔ ہوانگ نے اُسے پڑھنا سکھایا اور بدلے میں اُس لڑکے نے ہوانگ کو "بینچ پریس" (ویٹ لفٹنگ) سکھائی۔

جینسن ہوانگ آج کہتا ہے: "عظمت ذہانت سے نہیں آتی۔ عظمت کردار سے آتی ہے اور کردار ہوشیاری سے نہیں بنتا، یہ کشٹ کاٹنے سے بنتا ہے، درد بھوگنے سے بنتا ہے"۔

اُس کی پہلی نوکری ایک مقامی ڈائنر (Denny's) میں برتن دھونا اور ویٹر کا کام کرنا تھی۔

اُس نے وہیں سیکھا کہ دباؤ (pressure) میں کیسے کام کیا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے، "جب حالات انتہائی کشیدہ ہوتے ہیں، تو میری دل کی دھڑکن کم ہو جاتی ہے۔ میں اپنا بہترین کام تبھی کرتا ہوں جب داؤ پر سب کچھ لگا ہو"۔

یہ سبق اُسے اسٹینفورڈ کی ڈگری سے نہیں، اُس ڈنر کے "رش آور" سے ملا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ جب اُس نے 1993 میں این ویڈیا کی بنیاد رکھی، تو وہ کوئی عالیشان دفتر نہیں تھا، بلکہ وہی ڈائنر تھا جہاں اُس نے اپنے دوستوں کے ساتھ کافی پیتے ہوئے مستقبل کا نقشہ کھینچا۔

جینسن ہوانگ نے این ویڈیا میں باسوں والی روایتی "ہائرارکی" کو ختم کر دیا ہے۔ وہ مینیجرز سے نہیں، براہِ راست انجینئرز سے بات کرتا ہے۔

اُن کے کلچر میں ناکامی جرم نہیں ہے۔ یہ سیکھنے کا عمل ہے۔ جب کوئی پروجیکٹ ناکام ہوتا ہے، تو ذمہ دار شخص کو "ناکامی کی پریزنٹیشن" (Failure Presentation) دینا ہوتی ہے، تاکہ سب سیکھ سکیں کہ غلطی کہاں ہوئی۔

وہ جانتا تھا کہ AI کا انقلاب آ رہا ہے۔ جب باقی دنیا گیمنگ پر مرکوز تھی، ہوانگ نے خاموشی سے CUDA (ایک کمپیوٹنگ پلیٹ فارم) ایجاد کیا۔۔ وہ ہتھیار جس نے این ویڈیا کو گرافکس کمپنی سے AI کمپنی بنا دیا۔ 2016 میں، اُس نے ذاتی طور پر پہلا AI سپر کمپیوٹر OpenAI (چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی) کو ڈلیور کیا۔

ہوانگ کی کہانی کا سبق واضح ہے: آپ کی سب سے بڑی کمزوری، آپ کی سب سے بڑی تکلیف، آپ کا سب سے بڑا بحران۔۔ ہی آپ کی سب سے بڑی طاقت بن سکتا ہے۔ جیسا کہ ہوانگ خود کہتا ہے:

"میں نے میزیں صاف کی ہیں۔ میں ہر قسم کی یکی سے نپٹنے کے لیے تیار ہوں"۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed