جذبات زندگی کا جوس ہیں

کیا آپ کے آس پاس کوئی شاہ جذبات یا ملکہ جذبات موجود ہے؟ زندگی بھر ہمیں یہی سمجھایا جاتا ہے کہ اپنے جذبات پر قابو پاؤ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہی زندگی کا جوس ہیں۔ پیار، محبت، جھگڑا، وگڑا، سب آپ کے اندر کا اظہار ہیں۔ اگر ان کے منہ پر تھوبڑا چڑھا دیں گے تو اندر مرنا شروع ہو جائے گا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں انسان کو مشین بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ اگر زندگی ایک پھل ہے تو جذبات اس کا رس ہیں۔ سوچیے کہ آپ کے سامنے ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی سیب رکھا ہو، وہ باہر سے بے داغ اور چمکدار ہو، لیکن جب آپ اسے کاٹیں تو اندر سے وہ خشک لکڑی کی طرح نکلے، کیا آپ اسے کھائیں گے؟ ہرگز نہیں۔ بالکل اسی طرح، ایک ایسی زندگی جس میں منطق کے ستون تو مضبوط ہوں، بینک بیلنس بھی پورا ہو اور معاشرتی رتبہ بھی بلند ہو، مگر جس میں محسوس کرنے کی صلاحیت نہ ہو، وہ اس خشک سیب کی طرح بے ذائقہ ہے۔ ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ منطق ہمیں یہ تو بتا سکتی ہے کہ زندگی "کیسے" گزارنی ہے، لیکن صرف جذبات ہی ہمیں بتاتے ہیں کہ زندگی "کیوں" گزارنی ہے۔
جدید نیورو سائنس نے صدیوں پرانے اس فلسفے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے کہ عقل اور جذبات دو الگ الگ خانوں میں بٹے ہوئے ہیں اور عقل کا کام جذبات کو کچلنا ہے۔ اب سائنسدان ایف ایم آر آئی (fMRI) اسکینز کے ذریعے ہمیں دکھا رہے ہیں کہ ہمارے فیصلے کرنے کی صلاحیت کا مرکز خالصتاً منطقی دماغ نہیں، بلکہ وہ حصہ ہے جہاں جذبات جنم لیتے ہیں۔ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ جن لوگوں کے دماغ کا جذبات محسوس کرنے والا حصہ کسی حادثے میں ناکارہ ہو جاتا ہے، وہ اپنی روزمرہ زندگی کے معمولی ترین فیصلے کرنے سے بھی قاصر ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ یہ بھی طے نہیں کر پاتے کہ کھانے میں کیا کھائیں یا کون سا قلم استعمال کریں۔ یہ دریافت ہمیں بتاتی ہے کہ جذبات ہمارے وجود کا بوجھ نہیں، بلکہ وہ "جی پی ایس" سسٹم ہیں جس کے بغیر ہماری عقل اندھی ہے۔
مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم اس "زندگی کے جوس" کو بوتل میں بند کرکے ٹائٹ ڈھکن لگا دیتے ہیں۔ ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ رونا کمزوری ہے، غصہ جہالت ہے اور ڈرنا بزدلی ہے، لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ جذبات توانائی ہیں اور توانائی کبھی فنا نہیں ہوتی، یہ صرف شکل بدلتی ہے۔ جب ہم اپنے احساسات کو دباتے ہیں، تو ہم دراصل اپنی زندگی کی شریانوں میں خون کا بہاؤ روک رہے ہوتے ہیں۔ نفسیات کی تازہ ترین تحقیق، جسے "جذباتی تعمیر" (Constructed Emotion) کا نظریہ کہا جاتا ہے، یہ بتاتی ہے کہ ہمارے جذبات ہمارے ردعمل نہیں بلکہ ہمارے دماغ کی پیشین گوئیاں ہیں۔ ہمارا دماغ جسمانی سنسنیوں کو معنی دیتا ہے، اگر آپ کے پیٹ میں گڑبڑ ہو رہی ہے، تو یہ آپ کا دماغ طے کرتا ہے کہ اسے "خوف" کا نام دینا ہے یا "جوش" کا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے جذبات کے غلام نہیں بلکہ ان کے معمار ہیں۔
زندگی کا اصل لطف بے حسی میں نہیں، بلکہ شدت میں ہے۔ وہ لوگ جو درد سے بچنے کے لیے خود کو جذباتی طور پر سن کر لیتے ہیں، وہ انجانے میں خوشی محسوس کرنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ آپ خوشی کے لیے کھڑکی کھول کر غم کے لیے دروازہ بند نہیں کر سکتے، ہوا آئے گی تو دونوں طرف سے آئے گی۔ زندگی کا جوس اسی کھٹے میٹھے امتزاج کا نام ہے۔ جب آپ اداس ہوتے ہیں تو وہ اداسی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے اندر کچھ ٹوٹا ہے جس کی مرمت ضروری ہے اور جب آپ خوش ہوتے ہیں تو وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آپ کا وجود کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ یاد رکھیں ایک بھرپور زندگی وہ نہیں جو صرف مسکراہٹوں سے بھری ہو، بلکہ وہ ہے جس میں انسان اپنے ہر جذبے، چاہے وہ خوف ہو، محبت ہو، یا غم، کو پوری گہرائی کے ساتھ محسوس کرے اور اسے اپنے وجود میں سے گزرنے دے۔
لہٰذا، اگلی بار جب آپ کا دل کسی بات پر زور سے دھڑکے، آنکھ بھر آئے، یا خوشی سے جھومنے کا دل کرے، تو اسے منطق کی لگام ڈالنے کی کوشش نہ کریں۔ انسان اور مشین میں واحد فرق یہی ہے کہ مشین صرف کام کر سکتی ہے، مگر انسان محسوس کر سکتا ہے۔ اپنے اس "جوس" کو خشک نہ ہونے دیں، کیونکہ آخر میں لوگ آپ کی باتیں بھول جائیں گے، آپ کے دلائل بھول جائیں گے، لیکن وہ کبھی یہ نہیں بھولیں گے کہ آپ نے انہیں "محسوس" کیسا کروایا۔ زندہ ہونے کا مطلب صرف سانس لینا نہیں، بلکہ اپنے وجود کے ہر خلیے میں زندگی کی لہر کو محسوس کرنا ہے۔

