غزہ کے بیٹے کو نوبیل پرائز مبارک ہو

پہلے فلسطینی، پہلے سعودی اور عرصے بعد ایک مسلمان سائنسدان کو انسانیت کی خدمت پر کیمسٹری کا نوبیل پرائز مبارک ہو۔ یہ کہانی غزہ میں پیدا ہونے والے اس لڑکے کی ہے جس نے ایک مہاجر کیمپ میں تپتی لو کے موسم میں خلا میں گھورتے ہوئے سوچا تھا کہ اس کے اندر کیا راز چھپے ہیں اور پھر برسوں بعد، اس نے مادے کے اندر ایسے کمرے تعمیر کر دیے جو صحرا کی ہوا سے پانی کھینچ لاتے ہیں۔
عمان کے ایک مہاجر کیمپ میں ایک بھیڑ بھرے کمرے میں پرورش پانے والا ایک لڑکا، جہاں پانی اور بجلی کی قلت زندگی کا حصہ تھی۔ ایک فلسطینی خاندان جو غزہ سے بے دخل ہو کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی جدوجہد کررہاتھا۔ لیکن اس لڑکے کی آنکھوں میں غربت نہیں، تجسس تھا۔ اس نے اپنی محرومیوں کو اپنی طاقت بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ سفر اسی ایک کمرے سے شروع ہوا اور کائنات کے ذروں تک جا پہنچا۔
1965 میں عمان میں پیدا ہونے والے عمر یاغی کے لیے زندگی آسان نہیں تھی۔ انگریزی زبان اور پیسہ، دونوں دیر سے ملے۔ پندرہ سال کی عمر میں وہ امریکہ منتقل ہو گئے۔ بغیر کسی خاص تیاری کے، انہوں نے اپنی لگن سے کمیونٹی کالج میں داخلہ لیا، پھر کیمسٹری میں ڈگری حاصل کی اور ہارورڈ جیسے ادارے سے پوسٹ ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ اس کی زندگی کا ایک ہی اصول تھا: درستگی کے ساتھ تعمیر کرو، پھر اسے دنیا کے لیے پھیلا دو۔
عمر یاغی نے دنیا کو ایک نیا علم دیا، جسے انہوں نے "ریٹیکولر کیمسٹری" کا نام دیا۔ آسان الفاظ میں، یہ مالیکیولز کو مضبوط دھاگوں سے بُن کر کھلے، کرسٹل جیسے ڈھانچے بنانے کا فن ہے۔ تصور کریں کہ یہ ایسے خول ہیں جن کے اندر بے تحاشا خالی جگہ ہے۔ ان کے بنائے ہوئے مٹیریل (MOFs) کا ایک چینی کے دانے کے برابر ٹکڑا اپنے اندر ایک فٹ بال کے میدان جتنی سطح رکھ سکتا ہے!
یہ کوئی معمولی ایجاد نہیں تھی۔ یہ ایک ایسا دروازہ تھا جس سے ہم کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پکڑ سکتے ہیں، زہریلے مادوں کو قید کر سکتے ہیں، ہائیڈروجن ذخیرہ کر سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر، خشک ترین ہوا سے پانی حاصل کر سکتے ہیں۔
اور پھر دنیا نے ان کی بصیرت کو تسلیم کیا۔ 2025 میں، کیمسٹری کا نوبل انعام عمر یاغی اور ان کے دو ساتھیوں کو "میٹل آرگینک فریم ورکس (MOFs) کی تیاری" پر دیا گیا۔ یہ صرف ایک انعام نہیں تھا، بلکہ اس انقلاب کا اعتراف تھا جس کی بنیاد عمر یاغی نے رکھی تھی۔ آج ہزاروں قسم کے MOFs موجود ہیں، کچھ زہریلے کیمیکلز کو صاف کرتے ہیں، کچھ آلودگی کو توڑتے ہیں اور کچھ آسمان سے پانی نچوڑ لاتے ہیں۔
یہ کامیابی آسانی سے نہیں ملی۔ زبان کی رکاوٹیں، پیسے کی تنگی، امیگریشن کے مسائل اور ابتدائی دنوں میں درجنوں بار مسترد کیے جانے کا درد۔ اسے خود کو منوانے کے لیے دوسروں سے دگنی محنت کرنی پڑی۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ بچپن میں مہاجر کیمپوں میں پانی کی جو کمی عمر یاغی نے محسوس کی تھی، وہی اس کی زندگی کا سائنسی ہدف بن گئی: ایک ایسی مشین بنانا جو صحرا کی ہوا سے، جہاں نمی نہ ہونے کے برابر ہو، روزانہ کئی لیٹر پانی نکال سکے اور اس نے یہ کر دکھایا۔
عمر یاغی نے 2021 میں سعودی شہریت قبول کی اور وہ نوبل انعام جیتنے والے پہلے سعودی شہری بن گئے۔ وہ سائنس میں نوبل انعام جیتنے والے پہلے فلسطینی نژاد سائنسدان بھی ہیں۔ مدتوں بعد کسی مسلمان کو سائنس میں نوبیل پرائز کا اعزاز ملا ہے۔ ان کی شناخت کی کئی پرتیں ہیں، لیکن ان کی سائنس ایک ہے اور وہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔
عمان کے ایک بھیڑ بھرے کمرے سے نکلنے والا ایک نوجوان آج دنیا کو مادے کے اندر کمرے بنانا سکھا رہا ہے۔ اس نے وہاں جگہ بنائی جہاں کوئی جگہ نہیں تھی، پہلے اپنے لیے، پھر ایٹموں کے لیے اور آخر میں ان تمام انسانوں کے لیے جنہیں صاف ہوا، پانی اور صنعت کی ضرورت ہے۔
بات تو پھر وہی ہے۔ اگر ایک دربدر بھٹکتا ہوا مہاجر کیمپ میں اپنی زندگی کا آغاز کرنے والا شخص، اپنے خوابوں کا تعاقب کرتے ہوئے، نوبیل پرائز جیت سکتا ہے تو پھر تمہارے پاس اپنے خوابوں کو پورا نہ کرنے کا بہانہ کیا ہے؟

