ضمنی انتخابات، چند اہم پہلو
تحریک انصاف کے حامی چاہے جتنے مرضی دلائل تراش رکھیں، یہ حقیقت ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج عمران خان اور پارٹی کے لئے اپ سیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق ویک اپ کال، جاگ جانے کا سندیسہ۔ کہتے ہیں فتح کے سو وارث بن جاتے ہیں، جبکہ ناکامی یتیم ہوتی ہے، اسے قبول کرنے پر کوئی تیار نہیں ہوتا، ہر ایک دوسرے کی طرف شکست کی پوٹلی اچھال دیتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق عمران خان نے پارٹی قیادت کا اجلاس طلب کیا ہے، جس میں وجوہات پر غور کیا جائے گا۔ ایک دلچسپ واقعہ یاد آیا، 1997 کے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، اسلام آباد میں پارٹی کا اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا گیا، بی بی ابھی اجلاس میں نہیں آئی تھیں، پانچ سات مرکزی لیڈر موجود تھے، سب افسردہ اور فرسٹریٹ، انہوں نے آصف زرداری کو اس شکست کا ذمہ دار ٹھیرایا کہ ان کی وجہ سے پارٹی کی شدید بدنامی ہوئی اور ایسی شکست دیکھنا پڑی۔ تمام اس پر متفق تھے کہ آج محترمہ بے نظیر بھٹوکو کھل کر یہ بات کہہ دیں گے۔ جنوبی پنجاب کے ایک معروف مخدوم صاحب کو دوسروں نے کہا کہ بی بی آپ کی بات کو غور سے سنتی ہیں اور عزت کرتی ہیں، آپ یہ باتیں آج کہہ دیجئے گا۔ مخدوم صاحب تجربہ کار، گرم سرد چشیدہ آدمی تھے، چپ کر کے سنتے رہے، پھر بولے کہ ٹھیک ہے بی بی آتی ہیں تومیں یہ سب باتیں ان کے نوٹس میں لے آئوں گا اور یہ کہوں گا کہ اس کمرے میں موجود تمام لوگ یہی سمجھتے ہیں۔ اس پر سب بوکھلا گئے، کہنے لگے کہ آپ اپنی طرف سے بات کیجئے گا، ہمارا حوالہ نہ آئے۔ مخدوم صاحب مسکرائے اور بولے آپ مجھے اتنا بے وقوف سمجھتے ہیں؟ پھر وہی ہوا، محترمہ بے نظیر آئیں، ہر ایک نے باری باری سب الزام دھاندلی پر دھر دیا اور کہا کہ ایسا نہ ہوتا تو ہم الیکشن یقیناً جیت جاتے۔ حق گوئی کے سب دعوے اڑنچھو ہوگئے۔ برسوں پرانا یہ واقعہ پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں کے مائنڈ سیٹ کا غماز ہے۔ معلوم نہیں تحریک انصاف کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں شریک لوگوں کو یہ کہنے کی جرات ہوگی یا نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ عمران خان خود اس شکست کے ذمے دار ہیں۔ انہوں نے کئی ایسی غلطیاں کیں، جن کے نتائج پارٹی کو بھگتنا پڑے۔ نتائج اس سے بھی زیادہ برے آ سکتے تھے، یہ تو خان صاحب کو ووٹرز کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ان کا کسی حد تک بھرم رکھ لیا۔ عمران خان نے پے درپے کئی غلطیاں کیں۔ سب سے پہلے تو انہیں اپنی چاروں چھوڑی ہوئی سیٹوں پر خود جا کر ووٹرز کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا۔ حیرت ہے کہ ان کے کسی مشیر نے یہ تجویز نہیں دی؟ اخلاقیات کا سادہ ترین تقاضا یہ تھا کہ وزیراعظم لاہور، کراچی، بنوں اور اسلام آباد کے ان چاروں حلقوں کا دورہ کرکے عوام کا شکریہ ادا کرتے، انہیں بتاتے کہ سیٹ مجبوراً چھوڑنا پڑ رہی ہے، لیکن میرا حلقے سے رابطہ رہے گا، جو امیدوار میں دے رہا ہوں، وہ آپ کے کام کرے گا وغیرہ وغیرہ۔ ضمنی انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہونے سے پہلے یہ کام ہوسکتا تھا، اگر مصروفیت کی وجہ سے نہیں کر پائے تو کم از کم شکریہ کی ایک ویڈیو ہی جاری کر دیتے۔ عمران خان دیوتائوں کی طرح اپنے سنگھاسن پر بیٹھے رہے، انہوں نے ایسا کچھ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ ن لیگ کی قیادت ہمیشہ ضمنی انتخابات کو سیریس لیتی رہی ہے، شریف برادران لیگی رہنمائوں کومختلف حلقوں کے ٹاسک دیتے اور ان پر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے دبائو ڈالے رکھتے۔ مقامی تنظیموں کے باہمی اختلافات عام بات ہے، کئی بار ناراض کارکن یا رہنما الیکشن میں آزاد کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ن لیگ ہمیشہ ایسے لوگوں کو منانے، بٹھانے کی ذمہ داری مختلف لوگوں کو سونپتی، انہیں کسی اور جگہ اکاموڈیٹ کرنے کے وعدوں پرراضی کر لیا جاتااور الیکشن کا نتیجہ حسب منشا نکلتا۔ عمرا ن خان حکومت میں ابھی آئے ہیں، ان پر دبائو بہت زیادہ ہے، اس کے باوجود یہ کام انہیں ہی کرنے پڑیں گے۔ وہ اگر ایک مہینہ پہلے مختلف لوگوں کو ذمہ داری دیتے اور کابینہ میں اضافے کو انتخابی نتائج سے مشروط کر دیتے تو شائد اٹک، بنوں اور لاہور میں نتیجہ مختلف ہوتا۔ ن لیگ کا یہ پرانا اور کامیاب حربہ رہا ہے۔ غلط امیدواروں کا انتخاب بھی عمران خان کی کمزوری ہے۔ شریف خاندان نے یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ ڈیٹا اکٹھا کرتے اورہر فیصلہ خود کرتے۔ خان صاحب کو بھی یہ ہنر سیکھنا پڑے گا۔ ایک بڑا نقصان غیر متحرک اور سست وزرااعلیٰ کی وجہ سے پہنچا۔ عمران خان کا یہ بوجھ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ ہلکا کر سکتے تھے، مگر وہ اپنا بوجھ ہی نہیں اٹھا پا رہے۔ نواز شریف صاحب کی حکومت میں شہباز شریف کا بڑا اہم حصہ تھا، پنجاب کے سیاسی معاملات یہ خود ہی نمٹا لیتے تھے۔ تحریک انصاف کے پنجاب کا ہر ایشو اسلام آباد میں وزیراعظم ہائوس ہی کو نمٹانا پڑ رہا ہے، عثمان بزدار صاحب کہیں نظر ہی نہیں آ رہے۔ کم وبیش یہی صورتحال وزیراعلیٰ کے پی محمود خان کی ہے۔ ان کے علاقہ سوات سے پارٹی دونوں نشستیں ہار گئی۔ عمران خان کی کمزور میڈیا پالیسی نے بھی کچھ حصہ ڈالا۔ گیس مہنگی ہونے، ڈالر کی قیمت بڑھنے اور دیگر معاشی اقدامات کا مناسب دفاع آج تک نہیں ہوسکا۔ سیاست میں "عوامی تاثر " بہت اہم عنصر ہے، تحریک انصاف اس میں بری طرح ناکام نظر آ رہی ہے۔ ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ حکومت نے مہنگائی بہت کر دی ہے اور ناکام ہو گئی ہے۔ ظاہر ہے بات یہ نہیں، مہنگائی صرف دو مہینوں کی وجہ سے نہیں، ناکامی کا اتنے مختصر عرصے میں کوئی اندازہ ہی کیسے لگا سکتا ہے؟ یہ بات مگر عوام اور ووٹرز کو عمران خان نے بتانی ہے،۔ ان کا مقدمہ لڑنا اخبارنویسوں کی ذمہ داری نہیں۔ اپنے منفی تاثر کی وجہ سے تحریک انصاف نے سوئنگ ووٹرز کا ایک حصہ ضرور کھو دیا ہے۔ اگر یہ تاثر ٹھیک ہوتا تو عین ممکن تھا کہ نتائج مختلف ہوتے۔ ضمنی انتخابات کے بعض پہلو ایسے بھی ہیں جو تحریک انصاف کے حق میں گئے۔ دیانت داری کا تقاضا ہے کہ ان کا اقرار بھی کیا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں پہلے ایسے ضمنی انتخابات دیکھے، جس میں صوبائی حکومت سو فی صد غیر جانبدار رہی۔ ایک فیصد بھی انوالمنٹ نہیں تھی۔ عام تاثر یہی ہے کہ ضمنی انتخاب حکومتی جماعت جیتتی ہے، مگر یہ تاثر اس لئے بنا کہ ہمیشہ حکومت انتظامیہ کی مدد سے الیکشن مینیج کرتی ہے۔ اس بار وزیراعلیٰ نے پولیس اور انتظامیہ کو مکمل طور پر الگ رکھا۔ اس پر عثمان بزدار تحسین کے مستحق ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے مخصوص سیاسی کلچر میں یہ سب بذات خود ایک خوشگوار تبدیلی ہے۔ یہ تاثر بھی دور ہو گیا کہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کو جتوایا گیا۔ مولانا فضل الرحمن ڈی آئی خان کی دونوں نشستوں سے ہارے تو اسے دھاندلی قرار دیا۔ اب ضمنی انتخاب میں ڈی آئی خان کی دونوں صوبائی نشستیں پی ٹی آئی نے بڑے مارجن سے جیت لیں۔ مولانا کے بھائی عبیدالرحمن امیدوار تھے، مگر پھر دانستہ دستبردار ہوگئے کہ اگر شکست ہوئی تو رسوائی ہوگی۔ انہوں نے جس امیدوار کی حمایت کی، پی ٹی آئی کے امیدوار نے اس سے تین گنا زیادہ ووٹ لئے۔ کیا فرماتے ہیں مولانا" تہتر کے آئین کے تناظر" میں اس پر؟ بنوں سے اکرم درانی کا صاحبزادہ جیتا، اس میں درانی صاحب کی شخصیت کا بڑا حصہ ہے۔ پچھلے الیکشن میں وہ کمپین پر بھی نہیں نکلے تھے، اس بار وہ بیٹے کے لئے گھر گھر گئے۔ اس کے باوجود اگر تحریک انصاف اپنے ناراض امیدوار ناصر خان کو منا کر بٹھا لیتی تو نتیجہ مختلف ہوسکتا تھا۔ کراچی میں ایم کیوایم کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مہاجر حلقے سے تحریک انصاف نے ایک پشتون عالمگیر خان کو ٹکٹ دیا، اس نے ایم کیو ایم کے امیدوار سے دوگنا زیادہ ووٹ لئے۔ یہ واضح ہوگیا کہ کراچی کا مینڈیٹ پچھلی بار بھی عمران خان ہی کو ملا تھا، ابھی تک اہل کراچی تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ انہیں چاہیے کہ کراچی والوں کے زخموں پر مرہم رکھیں اور دل جیت کر لسانی سیاست کے چنگل سے ہمیشہ کے لئے آزاد کرا دیں۔ ن لیگ نے اچھی کارکردگی دکھائی۔ لاہور ان کا مضبوط سیاسی مستقر ہے، پھر ثابت ہوگیا۔ لاہور میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک تو ہے، یہ اس نے اس بار بھی ثابت کیا، مگر ن لیگ کو ہرانے کے لئے زیادہ محنت کی ضرورت پڑے گی۔ ن لیگ نے فیصل آباد کی نشست جیت کر پی ٹی آئی کو دھچکا پہنچایا۔ اٹک کی شکست مقامی اختلافات کی وجہ سے ہوئے، تاہم پنڈی والوں نے ایک بار پھر تحریک انصاف کا ساتھ دیا۔ جنوبی پنجاب میں غلط امیدوار کے انتخاب سے شجاع آباد، ملتان کی سیٹ ہار دی گئی، ڈی جی خان میں جعفر لغاری گروپ کے دوسری طرف چلے جانے سے مقصود لغاری ہار گئے، تاہم رحیم یار خان اور مظفر گڑھ میں پی ٹی آئی جیت گئی۔ ن لیگ کے لئے موقعہ ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کی حمایت کر کے وہاں اپنے لئے دوبارہ سے جگہ بنائے۔ گیم پھر سے اوپن ہو رہی ہے، سمجھداری سے کھیلنے پر انہیں فائدہ ہوسکتا ہے۔ تحریک انصاف کو سمجھنا ہوگا کہ اگر وعدے پورے نہ کئے توجنوبی پنجاب سے اگلی بار ہزیمت اٹھانا پڑے گی۔