ان لکھی ڈائری کے چند اوراق
ہماری نسل کے لوگ جو آج جوان ہیں نہ بڑھاپے کی سرحد میں داخل ہوئے، ان کے اپنے ہی مسائل اور اپنی ہی دنیا ہے۔ گزرتے وقت نے بہت کچھ چھین لیا، دل تو خیرابھی تک نوخیزی اور نوجوانی کے درمیان میں کہیں بھٹکتا پھرتا ہے، مگر دماغ اسے بے قابو نہیں ہونے دیتا۔ اب تو سر کے بالوں میں چاندی جھلکنے لگی اورایسے گستاخ دکانداروں سے واسطہ پڑنے لگ گیا ہے جو خاصی بے شرمی سے منہ بھر کر انکل کہہ دیتے ہیں۔ اوروں کا پتہ نہیں، ہمارے سینے میں یہ منحوس لفظ خنجر بن کر لگتا ہے۔ ماضی میں کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ انکل جیسابظاہر نرم وملائم لفظ بھی ایسا کھردار، نوکدار اور کٹیلا ہوسکتا ہے؟ خود پر گزری ہے تب اس لفظ کی تباہ کاری کا حقیقی اندازہ ہوا۔ چار پانچ سال پہلے پہلی بار یہ لفظ سنا، ایک دکان سے دہی خریدا، پچیس چھبیس سال کا کوئی نوجوان بیٹھا تھا، اس نے تیزی سے گاہک نمٹاتے ہوئے ہماری طرف ایک نظر ڈالی اور پھر دہی کا لفافہ تھما کر بولا، انکل اس کے پیسے دے دیں۔ ایک لمحے کے لئے تو ہم سکتے میں آ گئے، پھر لگا کہ شائد پیچھے کوئی بزرگ کھڑے ہیں، انہیں مخاطب کیا ہے۔ مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔ اتنے میں اس ناہنجار نے ایک بار پھر انکل کہہ کر پکارا اور پیسے مانگے۔ گھر پہنچنا تھا، جلدی تھی، اس کا سر پھوڑنا بھی خطرناک تھا، خون کے گھونٹ بھرتے ہوئے اسے پیسے تھمائے اور عہد کیا کہ آئندہ اس نامعقول دکاندار سے دہی نہیں خریدنا۔ یہ اندازہ نہیں تھا کہ آغازہوچکا۔ اس کے بعد ایسے بدقسمت واقعات پے درپے ہونے لگے۔ کچھ عرصہ تک تو ہم مزاحمت کرتے رہے، دو چار بار دکانداروں کو لیکچر بھی دیا کہ ایسے منہ پھاڑ کر نہیں بول دیتے، تمہاری میری عمر میں پانچ سات سال کا فرق ہی ہوگا، یہ تو ہم ذرا "صحت مند " زیادہ ہوگئے تو زیادہ لگتے ہیں، ورنہ چہرے کی معصومیت سے اندازہ لگا لو۔ جلد ہی معلوم پڑ گیا کہ یہ تو اینٹوں کی دیوار بنا کر سونامی روکنے والی حرکت ہے، جس نے ہمیشہ ناکام ہی ہونا ہے۔ اس عمر میں صرف انکل کہلوانا ہی مصیبت نہیں، دوسرا بڑا مسئلہ ناسٹلجیا یعنی پرانی یادیں بن گیا۔ ہماری نسل یعنی پینتیس سے پنتالیس سال یا دو تین سال آگے پیچھے والے لوگوں کا یہ مسئلہ بھی ہے کہ وہ دو الگ الگ دنیائوں کے باسی ہیں۔ دو مختلف تہذیبیں انہوں نے دیکھیں اور اب تیزی سے بدلتے وقت کے ساتھ وہ خود کو ہم آہنگ کرنے کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ موجودہ پاکستان یعنی سابقہ مغربی پاکستان میں سقوط پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی نسل بھی اپنے پچھلوں سے مختلف ہے۔ ہم نے مشرقی پاکستان نہیں دیکھا، بنگالیوں کی یادیں ہمارا حصہ نہیں۔ بچپن بھٹو دور، لڑکپن جنرل ضیا اور نوجوانی محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی لڑائیاں دیکھتے گزری۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں البتہ ہماری ایج گروپ کے لوگ اپنی پروفیشل لائف میں داخل بلکہ کسی حد تک سیٹل بھی ہوگئے۔ پچھلے دس برسوں کے سیاسی اور ملکی حالات کا جائزہ نسبتاً غیر جانبداری اوربلاتعصب لینا ممکن ہوگیا۔ بات پھر سیاست کی طرف جا رہی ہے، حالانکہ غیر سیاسی موضوع دانستہ منتخب کیا۔ ہماری نسل کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے کچھ رومانس سرے سے ختم ہوگئے۔ ان کا اب وجود ہی نہیں رہا۔ اگر چاہیں بھی تو اپنے بچوں کو ان کا تجربہ نہیں کرا سکتے۔ کون کافر ہے جو خط کے رومانس اور خوبصورتی سے انکار کرے۔ خط لکھنے کااپنا ہی لطف اور مزہ تھا۔ ضروری نہیں کہ خط کسی خاص رومانی حوالے سے لکھے جائیں۔ ویسے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، یہ بھی زندگی کا ایک فیز ہی ہے۔ اپنے والدین، عزیز واقارب اور دوستوں کو لکھے گئے خط بھی کچھ کم تخلیقی اور دلچسپ نہیں تھے۔ مشہور بھارتی شاعر جاوید اختر کے والد جانثار اختر کے اپنی اہلیہ صفیہ کے نام خطوط اوربیگم صفیہ کے جوابی خطوط پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں اپنے پرانے کاغذات میں سے بیس پچیس سال پرانے کچھ خط ملے جو لاہور آنے کے شروع کے برسوں میں والدہ کو لکھتا رہا۔ میری امی (اللہ انہیں زندگی اور صحت عطا فرمائے، آمین)لکھنے کا شوق رکھتی تھیں، شادی سے پہلے وہ بعض نسوانی جریدوں کے لئے لکھتی بھی رہیں۔ ان کے خطوط پڑھے تو وہ پورا زمانہ نظروں کے سامنے آ گیا۔ والد کا انتقال ہوچکا تھا۔ ایک بیوہ جس کا کل اثاثہ اس کے دو بیٹے ہیں، پانچ سو میل دور جانے والے اپنے بیٹے کو خط لکھتے ہوئے امید کی شمع جگائے رکھنے، اپنے روزمرہ کے مسائل، دکھ درد شیئر کرنے اور کہیں کہیں پر حالات کے گلے شکوے بھی کرتی ہے۔ یہ خیال ذہن میں کہ کوئی ایسا جملہ نہ لکھا جائے جس سے بیٹا اداس ہوجائے، اپنے دکھ سکھ بھی بتانے ضروری ہیں، موسم کا حال، گھر میں لگے درختوں، پودوں، نئے کھلے پھولوں کا تذکرہ اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ مجھے اپنے لکھے کچھ خط یاد آئے جو اس زمانے میں دوستوں کو لکھے، پڑھنے کا چسکہ، تحریروں میں تخلیقی ٹچ دینے کے ساتھ بے شمار حوالے رقم کر ڈالتے۔ کاش ان کی نقل محفوظ کر لیتا۔ مشفق خواجہ ممتاز محقق اور ادیب تھے، ان کے لکھے خطوط کے کئی مجموعے اب شائع ہوچکے ہیں۔ خواجہ صاحب اپنا ہر خط کاربن کاپی رکھ کر لکھتے اور ایک نقل محفوظ رکھتے۔ خیر وہ تو بڑے تخلیق کار تھے، ہم لوگ تو نئے نئے لکھنے کے چسکے سے روشناس ہوئے تھے، وہی مزا لیتے۔ ان دنوں ڈائجسٹوں کو خطوط لکھنے کا بھی بڑا رواج تھا، مجھے یاد ہے کہ کراچی کے دو ڈائجسٹوں میں میرے خط کو انعام بھی ملا، اگرچہ وہ انعام کبھی مل نہ سکا۔ ہم اسی پر خوش ہوگئے کہ انعام کا اعلان تو ہوا۔ عیدکارڈز کا رومانس کچھ کم تھا۔ عید سے پہلے کئی چکر لگا کر بامعنی، خوبصورت کارڈز منتخب کئے جاتے پھر انہیں بروقت روانہ کرنا۔ آج میرے بچوں کا یہ ایشو بھی نہیں۔ کسی دوست کو پیغام بھیجنا ہو تو جھٹ سے واٹس ایپ بھیج دیا، اب تو وائس میسجز بھی عام ہوگئے، یا پھرویڈیو ریکارڈ کر کے سینڈ کر دی، قصہ تمام۔ پی ٹی وی کے ڈراموں اور سنہری زمانے کا گواہ ہونا بھی کچھ کم اہم یاد نہیں۔ پی ٹی وی کے سحر کا ہم سے پہلی والی نسل نے بھرپور استفادہ کیا، ستر کا عشرہ جب بعض غیر معمولی ڈرامے بنے، بلیک اینڈ وائٹ میں بھی انہیں دیکھنا دیدنی تھا۔ ہم نے تو انہیں نشرمکرر میں دیکھا اور سحرزدہ رہ گئے۔ آنگن ٹیڑھا، انکل عرفی، شہزوری وغیرہ۔ ان کہی سے تنہائیاں بلکہ دھوپ کنارے تک کے سفر کا مشاہدہ کرنے والے بھی اپنے ناسٹلجیا کو نہیں بھول سکتے۔ وارث، سونا چاندی، ففٹی ففٹی اور الف نون جس نے نہیں دیکھا، اس نے بہت کچھ مس کیا۔ ہماری روزمرہ کی گفتگو، تحریروں میں بہت کچھ ان ڈراموں کا عکس ہے۔ جنرل ضیاء کے دور میں تاریخی کاسٹیوم ڈرامے شروع ہوئے، آخری چٹان اور پھر شاہین۔ نسیم حجازی کے یہ دونوں ناول ہیں، جنہیں بڑی خوبصورتی سے کم وسائل کے باوجود ڈرامائی تشکیل دی گئی۔ ان دونوں ڈراموں کی نہایت حسین یادیں ذہن میں ہیں۔ پچھلے برس ایک دکان سے پرانے ڈرامے لے آیا۔ ان کہی کی دو تین قسطیں ایک ہی دن دیکھ ڈالیں۔ محسوس ہوا کہ پہلے جیسا مزا نہیں آیا، جی چاہا کہ کوئی مشاق ڈائریکٹر اسے ایڈٹ کر کے چند قسطیں کم کر دے تاکہ تیز ٹیمپو کے ساتھ دیکھنا ممکن ہو۔ پھر خیال آیا کہ ہفتے کے بعد ایک گھنٹے کے لئے ڈرامہ دیکھنا اور بات تھی اور اب اسے اکٹھا کر مسلسل دیکھنا ظاہر ہے وہ کیفیت نہیں پیدا کر سکتا۔ طریقہ وہی ہے کہ ہر ہفتہ یا کم از کم ہر روز ایک قسط دیکھی جائے، اتنا ٹمپرامنٹ نہیں کہ صبر کر کے گھونٹ گھونٹ یہ ذائقہ لیتے، بے مزا ہوکر چھوڑ دیا۔ اس زمانے میں شام آٹھ بجے پی ٹی وی ڈرامہ دیکھنا بھی شاندار تفریح تھی۔ یہ حقیقی معنوں میں فیملی انٹرٹینمنٹ تھی۔ ڈراموں میں بھی پاکستان کے مختلف علاقوں کا کلچر دیکھنے کو ملتا۔ کوئٹہ اور پشاور کے ڈراموں سے وہاں کے سماج کے بارے میں بہت کچھ جانا، کراچی کے ڈراموں میں حسینہ معین کی تخلیق کردہ حسین معاشرتی زندگی کے علاوہ اندرون سندھ کے بارے میں بڑے جرات مندانہ ڈرامے دیکھے۔ پی ٹی وی لاہور پر اشفاق احمد، بانو قدسیہ کا جادو دستیاب تھا، منو بھائی اپنے عوامی انداز اور امجد اسلام امجد اپنے مخصوص انداز میں ایک سے ایک بھرپور ڈرامہ سیریلز سے لطف اندوز کراتے۔ ابھی بہت کچھ رہ گیا، جیسے ریڈیو کمنٹری، کھیلوں کے مقابلے، کھاناپینا، وہ بہت کچھ جو آج سرے سے موجود ہی نہیں۔ یہ وہ یادیں ہیں جو اپنے بچوں سے شیئر نہیں کر سکتے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ شام کو پی ٹی وی ڈرامہ دیکھنا کیا معنی رکھتا تھا؟ نو بجے کے خبرنامہ کی کیا اہمیت تھی اور صبح کی نشریات میں چاچا جی مستنصر تارڑ کی گفتگو کیا جادو دکھاتی تھی؟ یہ سب گئے گزرے زمانوں کی باتیں لگتی ہیں۔ آج جب کیبل پر ڈیڑھ دو سو چینل دستیاب ہیں، بچوں کے لئے آٹھ دس کارٹون چینل موجود ہیں، انہیں کیسے صبح کی خبروں کے بعد پانچ منٹ کے کارٹون کی اہمیت کا پتہ چل سکتا ہے؟ یہ ہمارے زمانے کی باتیں، اپنی ہی یادیں ہیں، ہم ہی ان سے حظ اٹھا سکتے، اپنے ہم عصروں سے بات کر سکتے ہیں، ہمارے بعد کی نسلوں کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، ان کا اپنا ناسٹلجیا، اپنی یادیں ہوں گی۔