قومی کرکٹ ٹیم میں سرجری ضروری ہے مگر کہاں؟
پاکستان کی انڈیا سے بدترین شکست کے بعد اس میں تو کوئی شک نہیں کہ قومی کرکٹ ٹیم میں سب ٹھیک نہیں۔ کئی مسائل نظر آ رہے ہیں، کہیں صلاحیت اور تکنیک کی کمی اور خودغرضی جھلکتی ہے جبکہ گروپنگ کا اندازہ بھی ہو رہا ہے، کپتانی کمزور ہے، دیگر ایشوز بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ جیسی نوزائیدہ ٹیم سے بھی شکست ہوگئی، حالانکہ وہ میچ آرام سے جیت لینا چاہیے تھا، بھارت سے بھی جیتا ہوا میچ ہم ہار گئے۔ اس میں بھارتی ٹیم کی اعلیٰ کارکردگی سے زیادہ ہماری کمزور اور ناقص کارکردگی ذمہ دار ہے۔
چیئرمین کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے اس بارے میں ایک بیان دیا ہے کہ ٹیم میں بڑی سرجری کی ضرورت ہے، اب باہر بیٹھے ٹیلنٹ کو موقعہ دینا ہوگا۔ محسن نقوی نے یہ بھی کہا کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ٹیم میں کیا چل رہا تھا اور ہارنے کی وجوہات کیا تھیں؟
چیئرمین کرکٹ بورڈ کے اس بیان پر بھی تنقید ہو رہی ہے، لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر معلوم تھا تو پہلے ٹھیک کر لینا چاہیے تھا، ایسی ذلت آمیز شکست کے بعد یہ بات کیوں کہی گئی؟ سیاسی جماعت جے یوآئی نے تو باقاعدہ مطالبہ کر دیا ہے کہ سرجری کے بجائے خود سرجن یعنی محسن نقوی ہی مستعفی ہوں۔ خیر اس بحث سے ہٹ کر صرف محسن نقوی صاحب کے بیان تک ہی محدود رہتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیم میں کسی چھوٹی موٹی یا کاسمیٹک سرجری کے بجائے ایک میجر یعنی بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ جسم کے ناکارہ اور ناسور زدہ حصے کو کاٹ پھینکنے اور پھر جسم میں صحت بخش ڈرپس اور انجیکشنز کے پورے کورس کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لئے مگر ضروری ہے کہ پہلے اپنے گھر سے آغاز کیا جائے۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ کو اپنے قریبی حلقے سے آغاز کرناپڑے گا۔
ایسی کسی بھی سرجری یا آپریشن میں سب سے پہلے موجودہ سلیکشن کمیٹی اور خاص کر اس کے روح رواں اورغیر رسمی سربراہ وہاب ریاض کو رخصت دینا ہوگی۔ نقوی صاحب نے نگران وزیراعلیٰ بنتے ہی وہاب ریاض کو پہلے سپورٹس منسٹر بنانے کی کوشش کی، وہ ابھی کرکٹ کھیل رہے تھے، انکاری ہوئے اور کچھ عرصہ بعد مشیر برائے کھیل کا حلف اٹھایا۔ پھر جب سلیکشن کمیٹی بنائی تو اس میں بھی وہاب ریاض کو شامل کیا گیا اور تاریخ میں پہلی بار ایک ایسی سلیکشن کمیٹی بنی، جس کا سربراہ ہی نہیں۔
یہ عجیب وغریب معاملہ تھا۔ دنیامیں کسی ملک میں بھی ایسا نہیں۔ ہر جگہ ایک چیف سلیکٹر ہوتا ہے۔ پاکستان میں شائد اس لئے کیا گیا کہ وہاب ریاض کو سربراہ بنانا مقصود تھا، مگر محمد یوسف جیسے سینئر کھلاڑیوں کی سلیکشن کمیٹی میں موجودگی کے باعث یہ ممکن نہیں تھا، اس لئے سربراہ بنایا ہی نہیں گیا اور اسے اوپن رکھا گیا۔ تاہم کہا یہی جا رہا ہے کہ عملی طور پر وہاب ریاض ہی سربراہ ہیں۔ دوسرا عجیب وغریب فیصلہ یہ کیا گیا کہ ٹیم کے ساتھ کوچنگ ٹیم اور باقاعدہ ٹیم مینیجر کے ہوتے ہوئے وہاب ریاض کو ٹیم کا سینئر مینئجر بنایا گیا، دلیل یہ دی گئی کہ وہ ٹیم کے ساتھ رہتے ہوئے باولرز کے ورک لوڈ پر نظر رکھیں گے۔ یہ بذات خود ایک حیران کن بات ہے کہ کوچنگ ٹیم اور کپتان پھر کس مرض کی دوا ہیں؟ اپنے باولروں کو کس طرح استعمال کرنا ہے، یہ دراصل کوچنگ ٹیم اور کپتان کے کرنے کا کام ہے۔
خرابی کی انتہا یہ ہوئی کہ وہاب ریاض ان ذمہ داریوں کو نبھانے میں بری طرح ناکام رہے جو انہیں دی گئی تھیں۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ نے اگر وہاب ریاض پر بھروسہ کیا، ان کو اختیار دیا تو وہاب ان توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔ انہیں اب جانا چاہیے۔ اس لئے کہ جو سلیکشن کمیٹی ورلڈ کپ سکواڈ میں ایسے آئوٹ آف فارم کھلاڑیوں کو بھیجتی ہے جنہیں ٹیم مینجمنٹ باہر بٹھانے پر مجبور ہوگئی تو پھر یہ سلیکشن کا قصور ہوا۔ وہاب ریاض اور ان کی سلیکشن کمیٹی نے اعظم خان کو ٹیم کے ساتھ بھیجا جو کہ ایک بھیانک غلطی اور بہت بری چوائس ثابت ہوئے۔ اعظم کی فٹنیس خوفناک حد تک کمزور ہے اور ان سے رنز نہیں ہو رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ پچھلے کئی ماہ سے مسلسل کھلائے گئے میچز میں ناکام ہو رہے ہیں، ایسا نہیں کہ اچانک ناکام ہوئے۔
کم وبیش یہی حال عثمان خان اور صائم ایوب کا ہے۔ عثمان خان کو جب سے انٹرنیشنل میچز میں مواقع ملے ہیں، وہ بری طرح ناکام ہوئے۔ صائم ایوب کے ٹیلنٹ کی ہر کوئی تعریف کرتا ہے مگر ذہنی ناپختگی یا تکنیکی کمزوریاں ہیں کہ وہ انٹرنیشنل میچز میں تسلسل سے رنز نہیں کر پا رہے۔ پندرہ رکنی سکواڈ میں ان تینوں کو اگر باہر بٹھایا جائے تو میچ الیون چننا مشکل ہوجاتی ہے۔ شاداب خان کی سلیکشن پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ شاداب کی باولنگ ٹی ٹوئنٹی کے لیول کی نہیں۔ وہ چار اوور کرانے والے سپنر نہیں رہے، اکثر فل ٹاس گیندیں کرا کر لمبے چھکے کھاتے ہیں۔ شاداب کو بطور سپیشلسٹ بلے باز کھلانے کا ناکام تجربہ بھی انڈیا کے خلاف میچ میں سب نے دیکھ ہی لیا۔
وہاب ریاض نے باقاعدہ کوشش کرکے محمد عامر اور عماد وسیم کوریٹائرمنٹ ختم کرا کر ٹیم میں شامل کیا۔ بابر اعظم اور عماد وسیم کے درمیان دیرینہ مسائل اور اختلافات ہیں۔ انڈیا کے خلاف میچ میں عما د وسیم نے جس طرح بیٹنگ کی، اس پر سلیم ملک جیسے سابق کرکٹر بول اٹھے کہ یہ دانستہ میچ ہرانے کی کوشش لگ رہی ہے۔ ممکن ہے ایسا نہ ہو، مگر بہرحال عماد وسیم کی فٹنیس کے مسائل چلتے رہے۔ ان کے ٹیم میں آنے سے گروپنگ بڑھی ہے۔
ویسے اس گروپنگ کی ابتدا تب ہوئی، جب شاہین شاہ آفریدی سے کپتانی واپس لے کر پھر سے بابراعظم کو کپتان بنایا گیا۔ اس عجیب وغریب فیصلے کی کوئی تک یا منطق نہیں تھی۔ پچھلے سال ون ڈے ورلڈ کپ میں بری اور کمزور کپتانی کی وجہ سے بابر اعظم سے کپتانی لی گئی۔ تب شاہین شاہ کو کپتان بنانا شائد غلط فیصلہ ہو، مگر بہرحال صرف ایک سیریز کے بعد شاہین سے کپتانی لے لینا اس سے بھی بدتر فیصلہ ہے۔ اس سے ٹیم میں شاہین اور بابر کے الگ گروپ بنتے نظر آئے۔
سوال یہ بھی ہے کہ جو دو تین ماہ بابر کپتان نہیں رہا، آخر اس عرصہ میں اس نے کیا ایسی عمدہ کپتانی کی کہ کرکٹ بورڈ نے فیصلہ واپس لے لیا۔ پی ایس ایل میں بابر کی کپتانی بھی اوسط درجے کی رہی۔ البتہ محمد رضوان کی پی ایس ایل میں مسلسل تینوں سال کپتانی ایسی رہی کہ وہ بہتر امیدوار ہوسکتے تھے۔ بابر کو کپتان بنانے کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ پشاور زلمی کی طرف سے کھیلتے ہیں اور وہاں وہاب ریاض ان کے زیرقیادت کھیلتے رہے تو بابر وہاب ریاض کنکشن ہی شائد وجہ بنا۔ یہ مگر غلط فیصلہ تھا، اس نے بائونس بیک کیا۔
وقت پر درست فیصلے کرنے کی صلاحیت سے عاری کپتان بابراعظم کی بڑی خامی اپنے دوستوں پرغیر ضروری انحصار ہے۔ بابر نے پہلے ایک چلے ہوئے کارتوس حسن علی کو ٹیم میں لانے کی کوشش کی، آئرلینڈ کے خلاف حسن ناکام ہوا تو اس سے جان چھوٹی۔ اسی طرح بابر مسلسل شاداب کو مواقع دیتے رہے ہیں اور ان سے زیادہ بہتر سپیشلسٹ سپنر ابرار احمد کو نجانے کیوں بالکل ہی چانس نہیں دے رہے۔ ورلڈ کپ کے سپر ایٹ مرحلے اور بعد کے میچز ویسٹ انڈیز میں ہونا ہے جہاں پچیں سپنرز کو سوٹ کرتی ہیں۔
بابر اعظم کو نیوزی لینڈ، آئرلینڈ اور انگلینڈ کے خلاف مسلسل ابرار کو چانسز دینے چاہیے تھے تاکہ اس میں اعتماد آتا اور وہ ورلڈ کپ کے اہم میچز میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا۔ اس کے بجائے بابر نے ابرار کو مسلسل باہر بٹھا کر شاداب خان کو چانسر دئیے۔ عامر جمال کی صورت میں ایک اچھا جینوئن آل رائونڈر ابھرا تھا، اس کی پی ایس ایل میں کارکردگی ٹھیک رہی، اسے بھی مواقع دینے چاہیے تھے تاکہ فاسٹ باولنگ ال رائونڈر کی آپشن بنتی۔ عامر جمال کو سلیکشن کمیٹی نے سلیکٹ ہی نہیں کیا۔ محمد حارث ہر لحاظ سے اعظم خان سے زیادہ فٹ، پھرتیلے وکٹ کیپر اور اچھے ہٹر ہیں۔ انہیں بھی سلیکشن کمیٹی نے ورلڈ کپ سکواڈ کے لئے زیرغورنہیں رکھا۔ آوٹ آف فارم افتخار کی جگہ حارث، عامر جمال یا حسیب اللہ کو موقعہ دیا جا سکتا تھا۔ اس سے ٹیم زیادہ بیلنس ہوجاتی۔
محسن نقوی صاحب اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے وہاب ریاض جیسے اپنے قریبی ساتھیوں سے نجات پائیں، انہیں سلیکشن کمیٹی میں بھی تبدیلیاں لانا ہوں گی اور ایک اچھا بااختیار چیف سلیکٹر بھی دینا ہوگا۔ کوچنگ ٹیم سے گیری کرسٹین کو اتنا جلد باہر کرنا مناسب نہیں ہوگا، انہیں وقت دینا چاہیے، البتہ اظہر محمود کے متبادل پر غور ہوسکتا ہے۔ ٹیم کے لئے باہر بیٹھے ینگ ٹیلنٹ کو میرٹ پر مواقع ملنے چاہئیں۔
ایک اور بات ذہن میں رہے کہ بعض کھلاڑی ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے لئے فٹ نہیں مگر ون ڈے ٹیم میں ان کی جگہ بنتی ہے، تو اس کا بھی خیال رکھا جائے۔ ہر فارمیٹ کے لئے موزوں ٹیم سلیکٹ کی جائے۔ مزید براں اگر چیئرمین کرکٹ بورڈ کرکٹ کے معاملات سدھارنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں اس طرف فل ٹائم آنا چاہیے۔ وزارت داخلہ کے ساتھ نیشنل کرکٹ کو چلانا مشکل کام ہے۔ نقوی صاحب کو پاکستانی کرکٹ کے لئے بڑے فیصلے کرنے ہیں تو اپنے کردار کابھی ازسرنو تعین کرنا ہوگا۔