پہلے سو دن، کامیابیاں، ناکامیاں
یہ اعتراف کرنا ضروری ہے کہ پہلے سو دنوں کی کارکردگی پر کسی حکومت کے حوالے سے فیصلہ دینا آسان نہیں اور کسی قدر غیر منصفانہ بھی لگتا ہے۔ مغربی جمہوریت میں پہلے سو دنوں کو ہنی مون پیریڈ سمجھاجاتا ہے، ایسے دن جن میں دلہن کے ناز اٹھائے، چونچلے سہے جاتے ہیں، اس کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر نہیں رکھی جاتی۔ سودنوں کے بعد البتہ محاسبہ کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ پہلے سو دن البتہ حکومت کی ترجیحات اور حکمران کے سیاسی ایجنڈے کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا کیا جائے گا؟ بل کلنٹن جب صدر بنے تو امریکہ کا سب سے بڑا مسئلہ بجٹ خسارہ تھا۔ امریکی معیشت دبائو کا شکار تھی اور خسارہ غیر معمولی حد تک بڑھ چکا تھا۔ ممتاز امریکی صحافی باب وڈورڈ کی کتاب" ایجنڈا" کلنٹن کے صدر بننے کے شروع کے دنوں کا احاطہ کرتی ہے۔ باب وڈورڈ نے بتایا کہ کس طرح کلنٹن اور اس کے قریبی ساتھیوں نے جنونیوں کے سے انداز میں اچھی ٹیم سلیکٹ کی، صدر کے سر پر یہی دھن سوار تھی کہ معیشت سنوارنی ہے۔ الیکشن مہم کے دوران بھی ایک دلچسپ نعرہ استعمال ہوتا رہا " بدھو، یہ معیشت ہے (It، s the economy stupid)، یعنی معیشت کے بارے میں کچھ فیصلہ کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ڈیموکریٹ اس فقرے کو مخالف امیدوار جارج بش سینئر پر طنز کے لئے استعمال کرتے۔ عمران خان کے پاس اب تو وقت نہیں ہوگا، مگر کاش وہ الیکشن سے پہلے یا بعد میں باب وڈورڈ کی یہی کتاب The Agenda: Inside the Clinton White House پڑھ سکتے۔ انہیں اندازہ ہوتا کہ جس لیڈر نے جوہری نوعیت کی تبدیلی لانی ہو، وہ کس طرح کے مشیر منتخب کرتا اور کس نہج پر کام کرتا ہے؟ عمران خان اور تحریک انصاف نے خود ہی اپنے لئے ایک مشکل اور کڑا معیار مقرر کرتے ہوئے پہلے سو دنوں کے ایجنڈے پر خاص زور دیا۔ اب انہیں اس حوالے سے عوام اور مبصرین کو مطمئن کرنا ہے۔ حکومتی ٹیم مسلسل تیاری کر رہی ہے اور توقع ہے کہ ایک دو دنوں میں وزیراعظم خود اپنی ٹیم کے ساتھ اپنی کامیابیاں بیان کریں گے۔ اس کی تفصیلات آ جانے کے بعد ان پر تبصرہ کرنا آسان ہوجائے گا، اس لئے ہم حکومتی کامیابی کے دعوئوں اور ان کے جائزے کو ابھی رہنے دیتے ہیں۔ آج کی نشست میں یہ دیکھتے ہیں کہ حکومت نے اپنے پہلے سو دنوں میں کیا کچھ کھویا، کون سی ناکامیاں ان کے حصے میں آئیں اور کیا وہ ڈیمیج کنٹرول کر پائی یا نہیں؟ عمران خان اور ان کی جماعت کو پہلا بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ حکومت چلانے کے لئے ان کی ناکافی تیاری، انتہائی ناقص ہوم ورک اور ناتجربہ کاری پوری طرح ایکسپوز ہوگئی۔ یہ ثابت ہوگیا کہ پی ٹی آئی کے پاس حکومت چلانے کی اچھی ٹیم موجود تھی اور نہ ہی وہ اتنی بڑی ذمے داری کے لئے تیار تھی۔ تحریک انصاف نے پچھلے پانچ برس مرکز اور پنجاب میں بطور اپوزیشن کام کیا۔ اس وقت تجزیہ نگار یہ لکھتے اور کہتے رہے کہ خان صاحب اپنے نوجوان ساتھیوں کو پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں کا رکن بنا کر کچھ تجربہ دلوائیں، انہیں اندازہ ہو کہ حکومت کیسے کام کرتی ہے اور کس طرح کے آڈٹ اعتراضات سامنے آتے ہیں تاکہ کل کو جب یہ حکومت میں آئیں تو ان غلطیوں سے بچ سکیں۔ عمران خان نے نجانے کیوں پارلیمنٹ کے لئے تحقیر آمیز رویہ اپنائے رکھا۔ خود وہاں جاتے رہے نہ اپنے ساتھیوں کو اس کی ہدایت کی۔ یہ سب کمزوریاں اب حکومت ملنے پر آشکار ہو رہی ہیں۔ عمران خان نے اپوزیشن میں بڑ ے بلند وبانگ دعوے لگائے تھے، وزیراعظم بننے کے بعد انہیں تقریباً سب دعوئوں سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ شائد وہ سمجھتے تھے کہ اپنی کرشماتی شخصیت کے زور پر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اب اندازہ ہوگیا ہوگا کہ خواب دکھانے اور ان پر عمل میں بہت فرق ہے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ وزیراعظم بنیں گے تو اوورسیز پاکستانی ڈالروں کی بارش کر دیں گے۔ یہ سپنا پاش پاش ہو کر بکھر چکا ہے۔ انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کی تھی کہ ڈیم کی تعمیر کے لئے ایک ہزار ڈالر فی کس چندہ دیں۔ کبھی وزیراعظم نے معلومات لینے کی کوشش کی ہے کہ کتنے لوگوں نے ان کی اپیل کے بعد رقم بھجوائی؟ نتائج افسوسناک حد تک مایوس کن نکلے۔ وجہ یہی کہ خان صاحب نے اس کام کو سلیقے سے کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اب تولگتا ہے خان صاحب کو یاد بھی نہیں کہ انہوں نے ایسی کوئی ویڈیو ریکارڈ کرائی تھی؟ پہلے تین ماہ کے حوالے سے اقتصادی اعداد وشمار تو بہت ہی پریشان کن ہیں۔ وجوہات بھلے سے جو بھی ہوں، مگر اگست 2018 اور نومبر2018کا موازنہ نہایت مایوس کن تصویر پیش کرتا ہے۔ اگست میں برآمدات 2، 09 بلین ڈالر تھی، اکتوبر میں 2.06ہے، درآمدات اگست میں 4.46 بلین ڈالر جبکہ اکتوبر میں 4.72 بلین ڈالر ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر اگست اٹھارہ میں 10.15 ارب ڈالر جبکہ سولہ نومبر اٹھارہ کوذخائر 7.29ارب ڈالر تھے۔ بیرون ممالک موجود پاکستانیوں کی طرف سے بھیجا گیا زرمبادلہ اگست 2018 میں 2.04 بلین ڈالر تھا جبکہ اکتوبر اٹھارہ میں یہ 2 بلین ڈالر رہا۔ ان کی حکومت کے آنے سے معمولی سا اضافہ بھی نہیں ہوا بلکہ ہلکی سی کمی ہوئی۔ سترہ اگست اٹھارہ کو 124روپے کا ڈالر تھا جبکہ بائیس نومبر اٹھارہ تک 133.99روپے کا ایک ڈالرتھا۔ اشیائے خوردونوش، میڈیکل اور ٹرانسپورٹیشن کی افراط زر یعنی کنزیومر پرائس انڈیکس CPI Inflation اگست اٹھارہ میں 5.8% تھی، اکتوبر اٹھارہ میں خاصا اضافہ ہوا اور یہ% 6.8پر پہنچ گئی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگوں کو اپنے کھانے پینے، ادویات اور سفر کرنے کے حوالے سے زیادہ پیسے خرچ کرنے پڑرہے ہیں۔ یہ تمام اشاریے منفی اور خراب حکومتی کارکردگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی کابینہ میں تال میل نظر نہیں آتا، ہر کوئی ہیرو بننے کے چکر میں بلاوجہ تنازعات کو دعوت دیتا ہے۔ جن وزیروں کاکام ماحول ٹھنڈا کرنا ہونا چاہیے، وہ ہر روز شعلے اگلتے اور دہکتی آگ سے مسرت کشید کرتے ہیں۔ ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اہم ایشوز پر کن وزرا نے کلام کرنا ہے؟ یوٹرن کا الزام عمران خان پر لگتا ہے، حالانکہ حکومت کے نصف سے زیادہ یوٹرن ان کے وزرا کے اوور کانفیڈنس اور"پھرتیوں "کی وجہ سے لینے پڑے۔ ہر کوئی اس چکر میں ہے کہ میں کوئی انوکھا کام کر کے میڈیا کوریج حاصل کروں۔ پنجاب میں انہوں نے جو ٹیم لیڈر منتخب کیا، ابھی تک وہ موجودگی کا احساس نہیں دلا سکا۔ خیبر پختون خوا میں اس بار جسے وزیراعلیٰ بنایا گیا، اس کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے البتہ عثمان بزدار نسبتاً بہتر لگنے لگے ہیں۔ پشاور کے اخبارنویس حیران ہے کہ ان کے صوبے کا وزیراعلیٰ کئی کئی دنوں کے لئے غائب سا کیوں ہوجاتا ہے، صوبے میں حکومت کہیں نظر نہیں آ رہی۔ نئے وزیراعلیٰ کا ایک کریڈٹ البتہ ہے، انہوں نے پرویز خٹک کے سخت ناقدین کو بھی یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ محمود خان سے توخٹک بہتر ہی تھا۔ عمران خان کو اپنے حوالے سے غیرمعمولی مردم شناسی کا دعویٰ ہے، وہ ہمیشہ فخریہ کہتے ہیں میں نے ہی انضمام اور وسیم اکرم جیسے لڑکوں کو منتخب کیا تھا، بعد میں انہوں نے کمال کر دکھایا۔ انضمام کی حد تک دعویٰ درست، یہ بات مگر غلط ہے کہ عمران خان وسیم اکرم کو ٹیم میں لائے۔ وسیم اکرم غالباً لحاظ میں اس بات کی تردید نہیں کرتے، مگر یہ تو ریکارڈ کا معاملہ ہے۔ وسیم اکرم کو خان محمد نے اپنے ٹیلنٹ ہنٹنگ کوچنگ کیمپ میں منتخب کیا اوراس لڑکے پر محنت کی۔ جس سیریز میں وسیم اکرم پہلی بار کھیلے، اس میں تو عمران خان کپتان ہی نہیں تھے، وہ کھیلے بھی نہیں۔ وسیم اکرم نے پاکستان آئی نیوزی لینڈ کی ٹیم کے خلاف تین روزہ میچ میں عمدہ بائولنگ کرائی اور آٹھ وکٹیں لیں، اس پر انہیں ون ڈے میں شامل کیا گیا، اس وقت جاوید میانداد کپتان تھے۔ اس لحاظ سے وسیم اکرم کی سلیکشن کرنے والے عمران نہیں بلکہ میانداد تھے، البتہ عمران خان کی شاگردی نے وسیم اکرم کو گروم کیا اور بڑا فاسٹ بائولر بنایا۔ عمران خان ظاہر ہے گریٹ کرکٹر ہیں، مگر ان سے غلطیاں سرزد ہوتی رہی ہیں۔ منصور اختر جیسے کھلاڑی پر عمران خان نے بہت زیادہ محنت کی، مگر وہ ناکام ہوئے۔ زاہد فضل کو عمران بڑا ہائی ریٹ کرتے تھے، آج کوئی اس کا نام بھی نہیں جانتا۔ بھارت کے دورے میں عمران خان نے ماضی میں طویل عرصہ پابندی کا شکار رہنے والے بلے باز یونس احمد کو خاص طور سے بلایا، مگر وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوئے۔ الٹا بعد میں خود عمران خان پر ہی الزامات جڑ دئیے۔ اسی دورے میں عمران خان اقبال قاسم جیسے سلو لیفٹ آرم سپنر کو ساتھ لے کر نہیں گئے، وہ شائد اقبال قاسم کو اچھا بائولر نہیں سمجھتے تھے۔ اقبال قاسم کو بعد میں بورڈ نے بھیجا، یاد رہے کہ بنگلور ٹیسٹ جیسی تاریخی جیت اقبال قاسم کی مرہون منت ہے۔ ہر انسان غلطیاں کرتا ہے، لیڈر بھی مستثنیٰ نہیں۔ غلطیوں پر اصرار البتہ تباہ کن ہے اور بڑا لیڈر کبھی ایسا نہیں کرتا۔ عمران خان نے جو حکومتی ٹیم منتخب کی، اس میں بہت سی خامیاں ہیں، خو دانہیں بھی احساس ہوچکا ہوگا، دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی غلطیاں سدھارنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر اپنے سیاسی "منصور اختروں " کو بدستور سپورٹ کرتے رہیں گے؟