پہلا دن (3)
نئے سال کا آغاز ہوگیا۔ پچھلا سال اپنے تمام کھٹے، میٹھے ترش ذائقوں ساتھ رخصت ہوگیا۔ گزشتہ روز جو سال کا آخری دن تھا، اس میں ہر ایک نے اپنے اپنے انداز سے بیتے تین سو پینسٹھ دنوں کا تجزیہ، محاسبہ اور احتساب کیا ہوگا۔ کرنا بھی چاہیے، زندگی کا ہر سال ایک معرکہ کی مانند ہوتا ہے، ہر معرکے کے اختتام پرسمجھ دار کمانڈر اپنی حکمت عملی کا جائزہ لیتے، غلطیوں کو نوٹ کرتے، آئندہ کے لئے ان سے بچنے اور مثبت پہلوؤں کو زیادہ نمایاں کرنے کاعہد کرتے ہیں۔
برسوں پہلے ایک ماہرنفسیات نے مجھے دلچسپ نصیحت کی، وہ پرسنل مینجمنٹ کے ماہر تھے۔ ان دنوں ہمیں ڈائری خریدنے کا شوق ہوا کرتا تھا۔ ہر سال ذوق شوق سے ڈائری خریدتے، پھر سال بھر اس میں اپنے پسندیدہ اشعار، اقوال وغیرہ لکھتے، کسی خاص تاریخ پر کوئی نشان ڈال دیتے کہ فلاں دن کسی تقریب میں جانا ہے وغیرہ وغیرہ۔ وہ صاحب ڈائری لینے کے حامی تھے، لیکن ان کے خیال میں ڈائری کو اگلے سال کی منصوبہ بندی کے لئے استعمال کر لینا چاہیے اور سمجھ دار وہی ہے جو اکتیس دسمبر تک اگلے سال کی مکمل منصوبہ بندی کر لے، جنوری سے لے کر اگلے اکتیس دسمبر تک کی تمام تاریخوں پر اپنی پلاننگ لکھ لے، اپنی ڈیڈ لائن، کمٹمنٹ۔۔ کس دن کیا کرنا ہے، کس مہینے تک کون کون سے کام ہر صورت مکمل کر لینے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
اس وقت یہ بات عجیب اور کچھ اجنبی سی لگی۔ ہم سرائیکی ویسے بھی ڈے بائی ڈے پلاننگ کے قائل ہیں، مستقبل کے بارے میں سوچنے کی زیادہ عادت نہیں، اس لئے ایک سال ایڈوانس ڈائری مکمل کر لینے کی بات سن کر حیرت ہوئی۔ بعد میں اس موضوع پر بہت کچھ پڑھا، کچھ تجربہ بھی کیا تو اندازہ ہوا کہ دنیا بھر میں کامیاب لوگ ایسے ہی کرتے ہیں۔ بلکہ کامیاب کی اصطلاح استعمال نہیں کرتا کہ کامیابی ہر ایک کی نظر میں مختلف ہوسکتی ہے، یہ کہنا چاہیے کہ جو لوگ اپنے اگلے دنوں، مہینوں اور سال کی ایڈوانس پلاننگ کر لیتے ہیں، ان کے کاموں میں برکت پڑ جاتی ہے، سپیڈ اور پرفارمنس دونوں بہت بڑھ جاتے ہیں۔
آج کل تو اس کی ضرورت ویسے بھی بڑھ گئی ہے۔ اگلے روز ایک دوست کا فون آیا۔ کہنے لگے، " یوں لگتا ہے جیسے چار پانچ ماہ پہلے تمہیں فون کرکے نئے سال کی ایڈوانس مبارک باد دی تھی اور اب پھر نیا سال آگیا۔ "ان کی بات سے اتفاق کرنا پڑا کہ واقعی وقت کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے یا پھر ہماری زندگی اس قدر مشینی ہوچکی ہے کہ چند لمحے رک کر سانس لینے، سوچنے کا وقت ہی نہیں۔ اسی وجہ سے مہینے، ہفتوں اور ہفتے دنوں کی رفتار سے گزر رہے ہیں۔
نیا سال اپنے ساتھ بہت کچھ لاتا ہے، نئے چیلنجز، نئی مشکلات، نئی آزمائشیں اور ان کے ساتھ اللہ کی نئی رحمتیں، نئے مواقع۔ اس لئے نئے سال کو خوشگوار امیدوں، اچھی تمناؤں اور بھرپور جذبوں کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ زندگی کے کیلنڈر کا ہر نیا سال یہ بتاتا ہے کہ قدرت کے پیڑوں میں اس کے لئے رس بھرے پھلوں کے خوشے موجود ہیں۔ مہلت ابھی موجود ہے، اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔
ذاتی طور پر میں ہر نئے سال کو نئی عادتوں کی تشکیل کے حوالے سے دیکھتا ہوں۔ ہر سال کچھ نیا سیکھنا چاہیے۔ کوئی اچھی عادت، کسی منفی بات کا چھوڑنا، اپنے ذہنی تناظر، سوچ اور فکر کو وسیع کرنے والے نئے خیال، نئی کتابیں، دل ودماغ کو متاثر کرنے والی نئی فلمیں، اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزارے سنہری لمحات کی خوشگوار یادیں، اپنی مالی یا جسمانی مدد سے کسی مصیبت زدہ کی تکلیف دور کرنا، کچھ ایسے کام جوکمزور شکستہ اعمال کو تقویت پہنچائیں۔ یہی میرے نزدیک نئے سال کی پلاننگ ہے۔
نیو ائیر نائٹ یا سال کے پہلے دنوں میں نیو ائیر ریزولوشن یعنی "نئے سال کے عہد" تحریر کرنے کی روایت مغرب میں تو خاصی مشہور ہے، ہمارے ہاں بھی یہ ٹرینڈ آ چکا ہے۔ ایک زمانے میں اس کی خاصی عادت ہوگئی تھی، ہر بار ایک طویل فہرست بنا لیتا کہ یہ کرنا ہے، وہ کرنا ہے۔ بعد میں تجربات سے اندازہ ہوا کہ بنیادی چیزوں کو اہمیت دینی چاہیے۔ عادتیں اگر بدل جائیں تو نیو ائیر ریزولوشن بھی کارآمد بن جاتے ہیں۔ ان پر الگ سے بات ہوگی، ان کی ایک خاص اہمیت تو ضرور ہے، مگر سردست دو تین بنیادی نوعیت کی عادات پر بات کرتے ہیں۔ نئے سال کے پہلے دن اگر یہ عہد کر لیا جائے اور پھر اس پر استقامت برتی جائے کہ دو تین چھوٹی چھوٹی عادتیں شخصیت کا حصہ بنانی ہیں تو یہ سال ضائع نہیں جائے گا بلکہ شخصیت میں ارتقا کا باعث بنے گا۔
سب سے پہلے تو ہمیں اپنی زندگیوں میں کچھ تحمل لانا ہوگا۔ پاکستانی معاشرے کے بڑے مسائل میں سے ایک برداشت اور تحمل کی کمی ہے۔ آئے روز انفرادی یا اجتماعی طور پر تند وتیز ردعمل کی وجہ سے نئے مسائل جنم لیتے اور بسا اوقات صورتحال خوفناک حد تک بگڑ جاتی ہے۔ اگر ہم اپنے فوری ردعمل سے پہلے دس بیس سکینڈز کا توقف کر لیں تو بہت کچھ سنور جائے گا۔ جس طرح نیوز چینلز نے لائیو پروگراموں میں چند سکینڈز کا ڈےلے ٹائم لگایا ہوتا ہے، فون کال کرنے والے کی گفتگو چند سکینڈ کی تاخیر سے نشر ہوتی ہے۔
اس کا مقصد یہی ہے کہ اگرکالر کوئی فضول یا غیر اخلاقی بات کر دے تو پروڈیوسر اسے فوری ایڈٹ کر سکے، وہ غیر محتاط جملہ آن ائیر نہ چلا جائے۔ اس طرح کے ڈیلے ٹائم (Delay Time)کی غیر مرئی ڈیوائس ہمیں اپنے ذہنوں میں فٹ کرانی چاہیے۔ کسی بات، واقعے یا تنقید سے آگ بگولا ہوجانے کے باوجود چند سکینڈیا ایک آدھ منٹ کا توقف کر لیا جائے، بات کہنے سے پہلے اسے تول لینے، سوچ لینے کی عادت ڈال دی جائے تو نہ صرف شخصیت کا تاثر زیادہ مثبت، گہرااور موثر ہوجائے گابلکہ بہت سی تکلیفوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
اس تاخیر والے "آلے"میں اگر ایک چیز مایوسی کے حوالے سے ڈال دی جائے تو پھر اس کی افادیت دوچند ہوجاتی ہے۔ بحیثیت قوم ہم بہت بے صبرے اور جلد مایوس ہوجانے والے ہیں۔ معمولی سی بات پر ہمت ہار دیتے اور مایوسی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ اس کالم کے لکھنے جانے کے دوران ایک دوست ملنے آئے۔ میں لکھنے میں مشغول تھا، چند لمحے توجہ ہٹا کر ان سے علیک سلیک کیا۔ موصوف کے چہرے سے مایوسی ٹپک رہی تھی، بیٹھتے ہی انہوں نے دو چار سیر صلواتیں حکومت کی شان میں بکھیر دیں۔ تان اس پرٹوٹی کہ اس ملک میں کہیں پر خیر نہیں ہے، تباہی لگتا ہے ہمارا مقدر بن چکی ہے۔
خاکسار نے مودبانہ عرض کی "آپ ایک اچھے انسان ہیں، لوگوں کی خدمت، دین کی خاطر جتے رہتے ہیں۔ ایسے برے ہم بھی نہیں، کچھ نہ کچھ ہم بھی اچھا سوچتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ ہیں جو اچھا کر رہے ہیں، سوچ رہے ہیں، نیک نیتی سے معاملات سنوارنے کی کوشش کر رہے ہیں، انشااللہ خیر رہے گی۔ ویسے بھی اگر ایک فرد بھی ٹھیک ہوجائے تو معاشرے میں بہتری تو شروع ہوجاتی ہے، افراد ہی نے معاشرہ بنانا ہے"۔ ان چند جملوں نے ان کے چہرے کا رنگ بحال کر دیا، یکا یک کرسی سے اٹھے اور بولے "آپ کے ان بول نے میرے جذبے کو دوبارہ سے جگا دیا ہے، میری مایوسی بالکل ختم ہوگئی"۔ اتنا جلد مایوس ہونے اور صبر کا دامن چھوڑ دینے کا رویہ انفرادی اور اجتماعی طور پر بدلنا ہوگا، نئے سال کو اس حوالے سے ٹریننگ کا سال بنانے کا سوچنا چاہیے۔
دوسری عادت ڈالنی بڑی آسان ہے۔ کسی اچھائی کے حوالے سے آنے والے پہلے خیال کو اپنا لیا جائے، اس پر عمل کر گزرنے سے آدمی اپنی دنیا اور آخرت کے حوالے سے نفع حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح برائی یا منفی حوالے سے آنے والے پہلے خیال کو نظر انداز کر دیا جائے۔ اس کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ نیکی کا پہلا خیال ہمیشہ فطرت کی جانب سے آتا ہے، جبکہ اس کے بعد شیطان اس میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ برائی یا شر کا ہر پہلا خیال شیطان کی جانب سے وارد ہوتا ہے، اگر اس پر کچھ مزاحمت کی جائے، توقف کیا جائے تو پھر قدرت کی جانب سے مدد شروع ہوجاتی ہے، ضمیر جاگ اٹھتا ہے اور آدمی کئی بڑی غلطیوں سے بچ جاتا ہے۔
عین ممکن ہے اس کالم کو وعظ ونصیحت قرار دیا جائے، لیکن اس رسک کے باوجود میں اپنی چند پسندیدہ دعائیں قارئین کے لئے نقل کرتا ہوں۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے اور آسانیاں عطا فرمائے۔ آمین۔
اے اللہ! بے شک میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع نہ دے، اس دل سے جو نہ ڈرے، اس نفس سے جو سیر نہ ہواور اس دعا سے جو قبول نہ ہو۔ (مسلم)
اے اللہ! بے شک میں تیری پناہ مانگتا ہوں، تیری عطا کردہ نعمتوں کے زوال سے، تیری عطا کردہ عافیت کے بدل جانے سے، تیری سزا کے اچانک وارد ہوجانے سے اور تیری ہر قسم کی ناراضی سے۔ (مسلم)
اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں بلا کی مشقت، بدبختی کے پالینے، بری تقدیراور دشمنوں کے خوش ہوجانے سے۔ (بخاری)
اے اللہ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں برے اخلاق، اعمال اور خواہشات سے۔ (ترمذی)