پانچ سوال ،جو ووٹ سے پہلے خود سے پوچھیں
الیکشن بالکل سر پر آن پہنچا۔ صرف تین چار دن رہ گئے۔ سوموار کو نئے ہفتہ کا آغاز ہوگا تو صرف دو دنوں بعد ہی الیکشن ڈے آ جائے گا۔ آج کل دو تین سوال ہی پوچھے جا رہے ہیں۔ ووٹ کسے دے رہے ہو؟ کسے ووٹ دیا جائے؟ جیت کون رہا ہے؟ ہمارے ہاں یہ بتانا قانوناًجرم نہیں کہ ہم کسے ووٹ دے رہے ہیں؟ یار لوگ الیکشن کمپین میں چھاتی پر اپنے امیدوار کا بیج لگائے گھومتے ہیں۔ اگلے روز جنوبی کوریا سے ایک فیس بک فرینڈ محمد عبدو ملنے آئے۔ خاصی گپ شپ رہی۔ ایک دلچسپ بات انہوں نے بتائی کہ جنوبی کوریا میں قانوناً آپ کسی کو یہ ظاہر نہیں کر سکتے کہ میں کسے ووٹ ڈالوں گا۔ کورین عوام کا خیال ہے کہ اس سے آپس میں بحث مباحثہ اور تلخ کلامی کا خدشہ رہتا ہے۔ اس لئے خاموشی سے ہر کوئی جائے اور اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ ڈال کر چلتا بنے۔ بتا رہے تھے کہ زندگی اتنی تیزرفتار اور مصر وف ہے کہ عام آدمی ووٹ ڈالنے کے بعدکسی دوسرے سیاسی مسئلے میں دلچسپی نہیں لیتا۔ اسے معلوم ہے کہ ادارے مضبوط ہیں، وہ کرپٹ حکمرانوں کا احتساب کر لیں گے جبکہ اپوزیشن بھی مک مکا کے بجائے حکومت پر نظر رکھے گی۔ دوران گفتگو جنوبی کوریا کی سابق خاتون صدر کا تذکرہ آیا، جنہیں کرپشن کے جرم میں چوبیس سال قید سنائی گئی، حالانکہ وہ براہ راست بدعنوانی میں ملوث نہیں تھیں۔ ان کے تمام قریبی رشتہ داروں پر بھی پابندی لگ گئی ہے کہ وہ کوئی حکومتی عہدہ نہیں سنبھال سکتے۔ کورین عوام پر بڑا رشک آیا۔ ہمارے ہاں تو یہ حال ہے کہ کرپشن کے الزام میں جیل جانے والے سیاستدان ہیرو بن جاتے ہیں۔ انہیں شرم آتی ہے نہ ان کے حامی کچھ احساس کرتے ہیں۔ الٹا وہ سیاستدان جیل سے باہر آ کر تمام زندگی قوم پر احسان جتاتے ہیں کہ دیکھو ہم نے جیل بھی کاٹی ہے۔ بات ووٹ دینے سے شروع ہوئی تھی۔ یہ بڑا اہم اور بنیادی نوعیت کا سوال ہے کہ ووٹ کسے ڈالا جائے؟ اس بارے میں بھی ملکی قانون خاموش ہے کہ ایسا مشورہ دیں یا نہ دیں۔ چند سال قبل جماعت اسلامی کا آئین پڑھا تو ایک دلچسپ شق کا علم ہوا کہ کوئی رکن جماعت کسی دوسرے رکن کو اپنے پسندیدہ امیدوار کے بارے میں بتا سکتا ہے نہ مشورہ دے سکتا ہے۔ اگر اسے رہنمائی کرنے کا بہت ہی شوق ہے تو پھر تین نام بتائے کہ ان میں سے کسی ایک کو ووٹ ڈال دو۔ حیرت ہوئی کہ اتنی پابندیاں، ایسی سختی۔ پھر خیال آیا کہ شائد 1957ء کے ماچھی گوٹ واقعے کے بعد یہ قواعد بنائے گئے، اس اجتماع میں جماعت اسلامی ٹوٹتے ٹوٹتے بچی، نائب امیر جماعت مولاناامین احسن اصلاحی اور کئی دوسرے اہم اراکین جماعت چھوڑ گئے، وہاں بھی یہی ووٹنگ اور ووٹروں پر اثرانداز ہونے کی بحثیں چھڑ گئی تھیں۔ ہم جماعت اسلامی کے رکن ہیں اور نہ یہ امیر جماعت کا انتخاب، ملک کے عام انتخابات ہیں، ملکی قانون ہم پر ایسی کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ اس کے باوجوداپنے قارئین کو براہ راست مشورہ دینے کے بجائے بنیادی اصول بیان کرنے پر اکتفا کریں گے۔ اس وقت ملک میں تین چار بڑی سیاسی قوتیں انتخاب لڑ رہی ہیں۔ بڑی تین جماعتوں میں سے دو پرانی ہیں، تین چار عشروں سے زائد کا انہیں سیاسی تجربہ حاصل ہے، کئی بار حکومتیں ملیں، نصف درجن کے قریب عام انتخابات بھگتا چکی ہیں۔ پچھلے دس برسوں سے وہ اپنے اپنے سیاسی گڑھ سمجھے جانے والے صوبوں میں صوبائی حکومت چلاتے رہے ہیں۔ اس لئے ان کے انتخابی وعدوں کا ان کے عمل سے موازنہ بہت ضروری ہے۔ دس سال بہت طویل عرصہ ہے، اگر کوئی پارٹی اس عرصے کے دوران اصلاحات نہ لاسکی، تو اس کے مستقبل کے وعدوں پر یقین کیسے کیا جا سکتا ہے؟ تیسری پارٹی نئی ہے کہ اس میں جان صرف سات سال پہلے پڑی، پانچ سال اسے بھی ایک چھوٹے صوبے میں حکومت ملی۔ دعوے اگرچہ یہ کر رہے ہیں، مگر ڈیلیور یہ بھی زیادہ نہیں کر پائے۔ ناتجربہ کاری آڑے آئی، احتجاج میں بہت وقت ضائع کر دیا گیا یامعاملات کی سمجھ بعد میں آئی۔ بہرحال جو کچھ دال دلیہ اس نے کیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ایک فرق البتہ ہے کہ اس پارٹی کی قیادت نظام بدلنے کا نعرہ تو لگا رہی ہے، سٹیٹس کو وہ توڑ پائے یا نہیں، خواب تو دکھا رہی ہے کہ سرنگ کے آخر میں روشنی موجود ہے۔ (ویسے میرے جیسے بندے تو کنفرم تاریک راستوں پرجانے کے بجائے روشنی کی امید والی سرنگ کو ٹرائی کرنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔ ) انتخابات میں چوتھی قوت مذہبی جماعتوں کا اتحا دہے، جن میں کوئی نکتہ مشترک نہیں۔ ایک جماعت فاٹا کے خیبر پختون میں ادغام کو عالمی سازش کہتی ہے، دوسری بڑی جماعت اسے اپنا کریڈٹ گنواتی ہے۔ ایک سابق وزیراعظم کی کرپشن کیس میں نااہلی کا کریڈٹ لیتی ہے تو دوسری اسے غلط اور ملک کے خلاف سازش سمجھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف انتخابات میں چند نشستیں جیتنے کے ارادے کے سوا ا س اتحاد میں کچھ موجود نہیں۔ خالصتاً پاور پالیٹیکس کے لئے اسے تشکیل دیا اور ظلم یہ کہ سب کچھ دین کے نام پر کیا گیا۔ باقی ماندہ علاقائی پارٹیا ں اور اتحاد ہیں، قوم پرست یا لسانی بنیاد پر سیاست کرنے والے، مذہبی شدت پسندی کا ایجنڈا یا پھر اندرون سندھ مختلف دھڑوں کا ایک اتحاد۔ ووٹ ڈالنے یا اس کے فیصلہ کرنے سے پہلے پانچ منٹ لیں اوراپنے آپ سے پانچ سوال پوچھیں۔ صرف پانچ منٹ۔ یہ سوچیں کہ اگر اس پارٹی کو ووٹ دیا تو کیاہمارے تھانے اور پولیس بدل جائے گی؟ دوسرا سوال کہ کچہری، پٹوار، سرکاری دفتروں، سرکاری ہسپتالوں میں غریب اور سفید پوش آدمی کے ساتھ جو ظلم اور استحصال ہوتا ہے، کیا اس میں کمی آ ئے گی؟ تیسرا سوال کہ کیا آئندہ پانچ سال بھی غیر ضروری، مہنگے میگا پراجیکٹ بنتے رہیں گے؟ جس شہر میں ضرورت نہ ہو، وہاں پر بھی ایسی مہنگی بس سروس، جس کی سب سڈی پر اربوں روپے سالانہ ضائع ہوں۔ عام آدمی ویسے دکھوں، غربت کے بوجھ تلے دبتا رہے اور حکمران جگمگاتے پراجیکٹ بنانے کے ڈرامے کریں، اپنے کمیشن، کک بیکس جیب میں ڈالیں اور عوام کو الو بنائیں۔ سندھ کے عوام زیادہ مظلوم ہیں، وہاں کے ظالم حکمرانوں نے تو ڈرامہ بازی کی زحمت بھی نہیں کی۔ دیہی سندھ اور شہری سندھ کے مکین اس تیسرے سوال کی جگہ یہ سوچیں کہ کیا اگلے پانچ سال یہی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے رہیں گے؟ گلیاں، سڑکیں بدستور خراب اور تباہ شدہ رہیں، یوں قبروں کے نام پر بلیک میلنگ جاری رہے گی؟ چوتھا اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ کون سی پارٹی ملکی معیشت سنوار سکتی ہیں۔ جس کے لئے ٹیکس نیٹ بڑھانا، طاقتور طبقات سے ٹیکس وصول کرنا، ہر سال تین چار سو ارب روپے کرپشن کو روکنا اور بیک وقت زراعت اور صنعتی شعبوں کو رواں رکھ سکتی ہیں؟ ان سوالوں کے جواب پر اپنے ووٹ کا فیصلہ کر ڈالیں۔ ٹھیرئیے، جلدی نہ کریں، پانچواں سوال تو رہ گیا، حالانکہ وہ کم اہم نہیں۔ ووٹ ڈالتے ہوئے اپنے مقامی امیدوار کے بجائے اس جماعت کے قومی ایجنڈے کو دیکھیں۔ ملک کو ہماری سابقہ حکومتوں نے اس نوبت تک پہنچا دیا کہ اب اچھا اور درست سمت میں کام کرنے والے قومی ایجنڈے کے ساتھ ہی عوام کی مشکلات کم ہوسکتی ہیں۔ ممکن ہے مقامی امیدوار نے آپ کے علاقے میں سڑکیں بنائی ہوں، وہ خوش اخلاق ہو، لوگوں کی خوش غمی میں شریک ہوتا ہو، تھانے کچہری کے کاموں میں آپ کو اس کا آسرا ہو، لیکن اگر اس کی جماعت کا قومی ایجنڈا درست نہیں، وہ نظام کی اصلاح کے بجائے اسے پہلے جیسی حالت میں چلانا چاہتی ہے تو ایسی جماعت اپنے اچھے امیدوار کے باوجود ووٹ کی مستحق نہیں۔ یوں سمجھیں کہ اگر قومی سطح پر کرپشن نہ روکی گئی، ٹیکس ریونیو نہ بڑھا تو ہم مزید مہنگے غیر ملکی قرضے لینے پر مجبور ہوجائیں گے، معیشت ہماری مزید جکڑ جائے گی، ڈالر مزیدمہنگا، نتیجے میں قرضوں کا بوجھ بڑھے گا اور آخر ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔ کمزور معیشت کے ساتھ ہم آزادانہ خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتے۔ امریکہ کے آگے جھک جائیں، بھارت کے آگے لیٹنا پڑے گا یا پھر چین کا غلام بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ تب آپ کا خوش اخلاق، شریف، سڑک، گلی ٹھیک کرانے والا رکن اسمبلی آپ کے یا ملک وقوم کے کسی کام نہیں آئے گا۔ اسی طرح تھانہ کچہری میں کسی رکن اسمبلی کی سفارشی چٹھی یا فون کا آسرا کرنے کے بجائے ایسی پارٹی ہو جو اس ظالمانہ نظام کو بدلے اور تھانہ کچہری، پٹوار میں ہونے والا ظلم ہی ختم ہوجائے، عام آدمی کو روٹین میں بغیر سفارش کے ریلیف ملے۔ اصل کام یہ کرنے والا ہے اور یہ وہی جماعت کر سکے گی جس کی نیت نظام بدلنا ہو۔ ضمنی مشورہ بھی ساتھ ہی حاضر ہے۔ پنجاب میں مقابلہ دو ہی بڑی جماعتوں میں ہیں جنہوں نے ایک دوسرے کو چیلنج کر رکھا ہے، کسی تیسری پارٹی، گروپ یا اتحاد کو ووٹ دینے کا مقصد اسے ضائع کرنا ہے۔ اصل فیصلہ یہیں ہونا ہے، بہتر ہے کہ کسی ایک بڑی جماعت کا انتخاب کریں تاکہ جو جیتے اسے مناسب اکثریت حاصل ہو۔ معلق پارلیمنٹ سے اراکین اسمبلی کی بلیک میلنگ بڑھتی ہے جبکہ کمزور حکومت اپنے ایجنڈے پر کام بھی نہیں کر پاتی۔ ملک مسائل کا شکار ہے، ہمیں بڑے فیصلے کرنے والی مضبوط حکومت چاہیے۔ اپنا ووٹ ضائع کرنے کے بجائے درست جگہ پر استعمال کریں۔