مسلم لیگ ن کے پگھلنے کا عمل شروع ہوگیا؟
مسلم لیگ ن کو اقتدار سے باہر آئے ابھی تین ماہ نہیں گزرے، مگر اس میں ٹوٹ پھوٹ اورشکست وریخت کے اثار نظر آنے شروع ہوگئے ہیں۔ کیا یہ جماعت پانی میں رکھے نمک کے ڈلے کی مانند تحلیل ہوجائے گی، جیسا کہ بعض تجزیہ کار پیش گوئی کر رہے تھے؟ جواب اتنا سادہ نہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق کئی اِف اینڈ بٹس (ifs and buts) درمیان میں آتے ہیں۔ سب سے پہلے تو مسلم لیگ ن کی قیادت کے بارے میں سوال پیدا ہوگا کہ وہ اس انتخابی شکست کے بعد اپنی غلطیوں کو کس حد تک سدھارتی اور اپنے آپ کو کتنا تبدیل کرتی ہے؟ دوسرا شریف خاندان کی سزائوں اور ممکنہ سزائوں کا ایشو ہے، وہ کتنا جلد سلاخوں سے باہر آتے اور قانونی مسائل سے جان چھڑا کر سیاست پر فوکس کر پاتے ہیں؟ تیسرا تحریک انصاف کی نومنتخب حکومت کا کردار بڑا اہم اور کلیدی ہے۔ عمران خان اگر ڈیلیور کرتے ہیں اور اپنے ووٹروں کی توقعات کوکسی حد تک پورا کر دیتے ہیں تو پھر اگلے انتخاب میں وہ پنجاب سے دو تہائی اکثریت لے پائیں گے، تب ن لیگ کی سیٹیں اور حلقہ اثر مزید سکڑجائے گا۔ ن لیگ کے اجزائے ترکیبی اور اس کے سدابہار فارمولے کو سمجھنا ضروری ہے جو طویل عرصے تک کارگر ہوا۔ میاں نواز شریف 85ء کے انتخاب کے بعد قومی سطح پر نمایاں ہوئے، صوبائی وزیر وہ پہلے رہے، مگر وزیراعلیٰ بننے کے بعد ہی انہیں شناخت ملی۔ پنجاب کے شہری، تاجر طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک طرح کے پہلے وزیراعلیٰ تھے۔ انہوں نے طاقت کے مراکز کو جلد پہچان لیااور ان کے ساتھ وابستہ رہے۔ پنجاب کے روایتی گھسے پٹے سیاستدانوں میں سے وہ ایک نیا، روشن، چمکتا ہوا چہرہ تھے۔ جدید ضروریات کو سمجھنے والے۔ اسی زمانے میں اپنی امیج بلڈنگ کے لئے لاہور کی ایک معروف ایڈورٹائیزنگ ایجنسی کی خدمات حاصل کی۔ وہاں ان سے ایک ملاقات کی دلچسپ روداد منوبھائی مرحوم سناتے تھے۔ سیاستدانوں کی امیج بلڈنگ کیا ہوتی ہے، اس کا تصور بھی شائد ہمارے بیشتر فیوڈلز کو نہیں ہوگا۔ میاں صاحب نے بعد اپنی اور اپنی پارٹی کی امیج بلڈنگ کے لئے ملک کی سب سے بڑی ایڈورٹائزنگ کمپنی کو ہائیر کیا اور برسوں اسی سے کام لیتے رہے۔ صحافت میں لفافہ دینے کی بدعت ایجاد کرنے کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔ میاں صاحب نے ایک ایک کرکے مختلف ادارے کرپٹ کئے اور جڑوں تک ان میں سرائیت کر گئے۔ خصوص حلقوں میں، اپنی برادری کے ہر گھر میں کم سے کم ایک سرکاری ملازمت بانٹی گئی۔ میاں نواز شریف کی کامیابی یہ رہی کہ انہوں نے جہاں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کر رکھی، وہاں کاروباری اور تاجر طبقے کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ مولوی صاحبان، دائیں بازو کی مذہبی رجحان رکھنے والی مڈل کلاس اور دیہات میں بھی ایک خاص حلقہ پیپلزپارٹی کا مخالف اور کسی حد تک خوفزدہ تھا۔ میاں نواز شریف نے خود کو اینٹی بھٹو ووٹ بینک کا نمائندہ لیڈر ثابت کیا اور آئی جے آئی جیسے اتحادوں کی مدد سے متبادل سیاسی قیادت کے طور پر ابھرے۔ میاں صاحب سب سے زیادہ میڈیا پر اثرانداز ہوئے، اپنے حق میں لکھے کالموں، پلانٹیڈ انٹرویوز، یک طرفہ خبروں کے ذریعے ایک قد آور شخصیت کے طور پر امیج بنایا۔ نوے کے عشرے میں پی ٹی وی سے الیکشن مہم کے دوران قومی سیاسی رہنمائوں کے انٹرویوز نشر ہوتے رہے۔ بقول شخصے میاں نواز شریف کو یہ" اعزاز" حاصل ہے کہ ان کے تمام ٹی وی انٹرویو پلانٹیڈ تھے، پہلے سے سوال طے کئے جاتے، ان کی میڈیا ٹیم جواب تیار کرتی، بریف کیا جاتا اور پھر میاں صاحب اپنی فصاحت وبلاغت کا" ہنر" دکھاتے۔ اس وقت کے بڑے دو اخبارات میں سے ایک ان کا بھرپور حامی وکمپین چلانے والا تھا، دوسرے میں انہوں نے کامیابی سے نقب لگائی اور کئی سینئرصحافیوں کی ہمدردیاں مختلف طریقوں سے حاصل کر لیں۔ ان سب کی مدد سے وہ یہ تاثر دینے میں کامیاب رہتے کہ مجھے سب سٹیک ہولڈرز کی سپورٹ حاصل ہے اور" میں آ رہا ہوں "۔ اسے سے انہیں دس پندرہ فیصد سوئنگ ووٹرز کی حمایت بھی حاصل ہوجاتی۔ ادھر پیپلزپارٹی نے اپنی مختلف کمزوریوں کی وجہ سے پنجاب میں پسپائی اختیار کی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پنجاب سے ابھرنے والی سیاسی قیادت کی حوصلہ شکنی کی، جس کے نتیجے میں پارٹی پنجاب میں بتدریج اپنے مضبوط حلقے کھو بیٹھی۔ نوے میں آ کے عشرے کا منظرنامہ آج سے قدرے مختلف تھا۔ دیہی سیاست میں الیکٹ ایبلز غالب تھے، انہیں ساتھ ملا لیا گیا۔ شہرو ں میں کچھ اثر مختلف برادریوں کا تھا، کشمیری، ارائیں، جاٹ، راجپوت، گجر، پٹھان وغیرہ۔ ان برادریوں کو حیران کن مہارت کے ساتھ شریف برادران نے استعمال کیا۔ ایک بڑا حلقہ تاجر، دکانداروں کا تھا، میاں نواز شریف اس طبقے کے فیورٹ بن گئے۔ فورسز کے ریٹائر افراد کا اچھا خاصا حلقہ ہے، میاں صاحب ایک محب الوطن، مضبوط رائٹسٹ نیشنلسٹ کے طور پر موجود تھے، یہ ووٹ بینک بھی ان کی جھولی میں جاتا رہا۔ ان کے اس فارمولے پر مبنی بارہ مسالے کی چاٹ بڑے اچھے طریقے سے بکتی رہی۔ تیرہ میں پہلی بار عمران خان کی صورت میں ایک نیا حریف سامنے آیا، جس نے نہایت کمزور امیدواروں کے ساتھ ستر لاکھ ووٹ لئے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ن لیگ کی قیادت اپنی تمام تر ہوشیاری، تجربے اور سمجھداری کے باوجود اس بڑے پوٹیشنل تھریٹ کو سمجھنے میں ناکام رہی۔ دراصل پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا تھا، سیاسی میدان کی ڈائنامکس تبدیل ہوگئی تھیں۔ 80، 90کے عشرے کی سیاست مختلف تھی۔ اس زمانے کی مڈل کلاس بنیادی طور پر دکانداروں، تاجروں یا قدرے بہتر عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین پر مشتمل تھی۔ دنیا بھر میں یہ طبقات سٹیٹس کو یعنی سب چیزیں جوں کی توں رکھی جائیں کے حامی ہوتے ہیں۔ پچھلے دس پندرہ برسوں کے دوران دنیا بھر کی طرح ہمارے ہاں بھی ایک نئی مڈل کلاس پیدا ہوئی ہے۔ بیشتر سرکاری محکمے پرائیوٹائز ہوگئے۔ نجی شعبے کی وجہ سے پاکستانی تاریخ میں پہلی باریہاں ایک منی کارپوریٹ ورلڈ نے جنم لیا۔ جدید سٹائل کے کاروباری، انٹر پرینوئرز، سرکاری پابندیوں اور دبائو سے آزاد نجی شعبوں میں کام کرنے والے لوگ، ٹیچرز، ڈاکٹرز، انجینئرز، اکائونٹینٹ، سافٹ وئیر ڈویلپروغیرہ وغیرہ۔ تیز رفتار انٹرنیٹ نے ہر ایک کے لئے دنیا بھر کے دروازے کھول دئیے۔ نئے خیالات، نئی سوچ، سٹیٹس کو سے نجات پانے کی خواہش۔ ایک بڑا فیکٹر نئے ووٹر کا بھی ہے۔ ووٹ کی عمر اکیس سےاٹھارہ برس ہوگئی۔ نوے کے عشرے میں دو دو سال بعد الیکشن ہوتے تو نیا ووٹر زیادہ شامل نہیں ہوتا تھا۔ اب یکے بعد دیگر تین اسمبلیوں نے پانچ پانچ سال مدت پوری کی، ہر بار بڑی تعداد میں نیا ووٹر شامل ہوجاتا۔ اوپر بیان کئے گئے دیگر طبقات کے ساتھ یہ نیا ووٹر ماضی کے تعصبات اور اپنے بڑوں کی پسند، ناپسند سے بے نیاز ہے۔ اس میں ابھی رومانویت موجود ہے، چیزوں کو بدل ڈالنے کی بے پناہ خواہش۔ دنیا بھر میں تبدیلیوں پر اس کی نظر ہے، اسے معلوم ہے کہ سٹیٹس کو ہر جگہ ٹوٹ رہا ہے۔ یہ تمام طبقات وہ ہیں جنہیں ن لیگ اپنی طرف نہ کھینچ پائی۔ عمران خان کا ریفارمز لانے کا اعلان، تبدیلی کا نعرہ کارگر ثابت ہوا۔ 2013ء کے انتخابات میں عمران خان نے صرف اسی فیکٹر پر تکیہ کیا اور اسے نقصان کا اندازہ ہوا۔ اس بار عمران نے الیکٹ ایبلز کو بھی ساتھ ملایا تاکہ دیہی ووٹ بینک کو متاثر کیا جائے، طاقت کے مراکز کے ساتھ اس نے ہاتھ جوڑے اور کچھ نہ کچھ ایڈوانٹیج حاصل کیا۔ ایک تصور بن گیا کہ نواز شریف نہیں اب عمران خان کی باری ہے۔ اس کا فائدہ اسے سوئنگ ووٹرز سے ملا۔ اسٹیبلشمنٹ سے نواز شریف کی لڑائی کا فائدہ فورسز کے ریٹائر افراد کے ووٹ بینک کی صورت میں خان کو ملا۔ یوں عمران خان نے میدان مار لیا اور تیس برسوں میں پہلی بار کسی غیر مسلم لیگی جماعت نے پنجاب کو حاصل کیا۔ مسلم لیگ ن شکست کھا چکی ہے، مگر ابھی تک انہیں اپنی اصل غلطیوں کا اندازہ نہیں ہورہا۔ شہباز شریف بیانئے کے حامی یہ سمجھ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کی ضد نے انہیں مروایا۔ بڑے میاں صاحب کے حامی یہ کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف اگر مصلحت پسندی کے بجائے جارحانہ سیاست کرتے تو آج یہ حال نہ ہوتا۔ یہ تضادات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ن لیگ کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس نے بدلتے زمانے کے ساتھ اپنی سیاست کے سٹائل کو نہیں بدلا۔ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ کو شکست کی وجہ سمجھ رہی ہے، حالانکہ اس کا گھسا پٹا سیاسی انداز بھی بڑی وجہ بنا۔ مسلم لیگ ن پر اب دبائو بڑھے گا، نظریاتی جماعت اسے بنایا نہیں گیا، اقتدار میں آنے کا پلیٹ فارم بنا رہا۔ جو لوگ یہ سوچ کر ساتھ ملے رہے کہ شائد شہباز شریف صوبہ بچا لیں، اب وہ ٹوٹنا شروع ہوں گے۔ فارورڈ بلاک بنیں گے اور مقامی دھڑے ن لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی کا رخ کریں گے۔ مسلم لیگ ن کے بارے میں یہ سمجھنا مگر غلط ہوگا کہ یہ تحلیل ہو رہی ہے۔ جو عصبیت اس نے حاصل کی، جن طبقات کو ساتھ ملائے رکھا، جب تک ان کے پاس متبادل آپشن نہیں آئے گی، تب تک وہ ن لیگ کے ساتھ رہیں گے۔ عمران خان اگر ڈیلیور کر گئے تو پھر وہ بہت کچھ مزید بھی سمیٹ لیں گے، و رنہ مایوسی کے عالم میں لوگ واپسی کا سفر بھی شروع کر دیتے ہیں۔ سب عمران کے ہاتھ میں ہے۔ ن لیگ کا سیاسی مستقبل بھی۔