مسلم لیگ ن کی بلوچستان میں "فتوحات"
یہ مسلم لیگ ن کا زمانہ ہے، ہر چیز ان کے حق میں جا رہی ہے۔ اردو محاورے کے مطابق ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف آج کل مٹی کو بھی ہاتھ لگائیں تو سونا بن جاتی ہے۔ کبھی وہ سونے کو بھی چھوتے تھے تو وہ مٹی ہوجاتا۔ وقت وقت کی بات ہے۔ ہم اخبارنویسوں کو صحافت میں ایسا بہت کچھ دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے کہ حیرت کا عنصر کم ہوگیا۔ حیران وپریشان ہونے کے لئے کسی "شدید" قسم کے غیر معمولی واقعے کی ضرورت پڑتی ہے۔ البتہ میاں نواز شریف اور ن لیگ کے جو آج کل جگمگاتے رنگ ڈھنگ ہیں، اس نے اچھے بھلے تجربہ کار صحافیوں کو ششدر کر ڈالا ہے۔ صرف دو برس پہلے تک کون یہ تصور کر سکتا تھا؟
میاں نواز شریف کی حالیہ کامیابیاں بلوچستان کے حوالے سے ہیں۔ آنجناب نے اس چھوٹے صوبے کا دورہ کیا، جہاں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے تعلق رکھنے والی بہت سی اہم شخصیات نے ان سے ملاقات کی اور ن لیگ میں شامل ہوگئے۔ اخبارات کی لیڈسرخیوں کے مطابق جام کمال کے ساتھ تیس کے قریب شخصیات شامل ہوئیں۔ ان میں سے بعض نسبتاً نمایاں الیکٹ ایبلز تھے، جو مختلف ادوار میں مختلف اہم جماعتوں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ ان سب کی شمولیت کے پیچھے ایک ہی اہم فیکٹر ہوتا کہ اقتدار میں کون سی جماعت آ رہی ہے۔ اس بار تو اندھے کو بھی پتہ چل جائے کہ اقتدار کا اساطیری پرندہ ہما جناب نواز شریف کے سر پر بیٹھنے والا ہے بلکہ درحقیقت تووہ بیٹھ چکا ہے۔ جام کمال سمیت ان تمام لوگوں کا ن لیگ میں شامل ہونابنتا ہے۔
جام کمال لسبیلہ کے معروف جام خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے دادا جام میر غلام قادر خان جنرل ضیا الحق کے ساتھی تھے اور غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے۔ جام کمال کے والد جام یوسف بھی بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ ایسا ایک اور ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ہوا۔ وہ ق لیگ کی جانب سے وزیراعلیٰ تھے۔ تب جام کمال دو بار لسبیلہ کے ضلع ناظم رہے۔ جام کمال لسبیلہ کے تیرھویں جام ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جام کمال نواز شریف حکومت میں وفاقی وزیر مملکت رہے ہیں۔ دو ہزار تیرہ سے سترہ تک میاں نواز شریف اور پھران کے بعد لیگی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ کا حصہ رہے۔
دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل بلوچستان کی صوبائی حکومت بدلنے کی منصوبہ بندی ہوئی، کہا جاتا ہے کہ جناب آصف زرداری اس ایڈونچر کے روح رواں تھے۔ ن لیگ کے وزیراعلیٰ نواب ثنااللہ زہری کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت الٹ دی گئی، تب کی ن لیگی صوبائی پارلیمانی پارٹی کے ایک آدھ کے سوا تمام ارکان اسمبلی باغی ہوگئے۔ انہی دنوں ایک نئی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی یعنی باپ کی بنیاد ڈالی گئی۔ موجودہ نگران وزیراعظم انوار کاکڑ بھی باپ پارٹی کے قیام کے وقت بہت متحرک اور فعال تھے۔
جام کمال ن لیگ چھوڑ کر باپ میں شامل ہوئے اور اس کے پہلے سربراہ بنے۔ تب کچھ مدت کے لئے عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنے تھے، تاہم دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے بعد جام کمال بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے۔ جام صاحب تین برس تک چیف منسٹر رہے، حتیٰ کہ ان کی پارٹی میں بغاوت ہوئی اورایک بار پھر سے عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنے۔ جام کمال تب سے باپ پارٹی سے ناراض اور کشیدہ رہے۔ اب وہ باقاعدہ طور پرن لیگ میں شامل ہوگئے۔
آپ چاہیں تو وہ مصرع دہرا سکتے ہیں ع
پہنچی وہاں پر خاک جہاں کا خمیر تھی۔
البتہ بلوچستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے شائد اختلاف کریں، کیونکہ وہاں بعض جگہوں کی خاک ایسی ہے جسے ہواؤں میں اڑنا اور اقتدار کے نئے بام ودر ڈھونڈنا مرغوب ہے۔
اب جام کمال، عبدالرحمن کھیتران اور بہت سے دوسرے مسلم لیگ ن کا حصہ بن چکے ہیں، عین ممکن ہے کہ چند ایک دیگر بڑے الیکٹ ایبلز بھی ن لیگ کے دروازے پر دستک دیں۔ میاں نواز شریف نے اپنے دورہ بلوچستان میں مختلف جماعتوں کی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ان سے باپ پارٹی کے صدر خالد مگسی بھی ملے۔ محمود اچکزئی صاحب بلوچستان میں کئی برسوں سے ن لیگ کے حلیف اور سیاسی دوست ہیں، ان کی پارٹی کے اہم رہنما بھی میاں صاحب سے ملے۔ جے یوآئی کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بھی میاں صاحب کے اتحادی اور سیاسی دوست ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ بلوچستان میں اس بار ایک بڑا انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے الیکشن لڑا جائے گا۔
مقامی تجزیہ کار اندازہ لگا رہے ہیں کہ ن لیگ، باپ اور نیشنل پارٹی وغیرہ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے، ممکن ہے جے یوآئی بھی شامل ہوجائے۔ جے یوآئی اور محمود اچکزئی کی پختون خواہ ملی عوامی پارٹی آپس میں حریف ہیں کہ پشتون بیلٹ میں اصل مقابلہ ان میں ہوتا ہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں ان دونوں جماعتوں کے مابین کشیدگی خاصی کم ہوئی اور یہ قریب آ چکے ہیں۔ دیکھیں اگلے چند دنوں میں بلوچستان کے حوالے سے کون سا بڑا انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فارمولا سامنے آتا ہے۔ یہ بہرحال طے ہے کہ محور پیپلزپارٹی نہیں بلکہ ن لیگ ہوگی۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو دلچسپ بھی ہے اور ایک طرح سے عبرت کی مثال بھی۔ پاکستانی سیاست کے عروج وزوال کی چند ڈرامائی داستانوں میں سے ایک کا تعلق بلوچستان کی حالیہ سیاسی پیش رفت سے ہے۔
اخبارات کے قارئین کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال جناب زرداری بلوچستان کے حوالے سے بڑے پراعتماد تھے۔ وہ اپنی نجی محفلوں اور میڈیا سے گفتگو میں دعوے کرتے رہے کہ بلوچستان میں ان کی پارٹی کی حکومت ہوگی۔ تب الیکٹ ایبلز اور اہم قبائلی شخصیات بلاول ہاؤس کراچی سے رابطے میں تھیں۔ عبدالقدوس بزنجو سمیت بہت سے لوگ پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کے لئے پرتول رہے تھے۔ زرداری صاحب پرامید تھے کہ وہ بلوچستان میں دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنا لیں گے جبکہ وزیراعلیٰ کا تعلق ان کی جماعت سے ہوگا۔ تب صوبائی سیاسی منظرنامے پر ن لیگ سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔
لندن میں بیٹھے میاں نواز شریف نے البتہ کچھ اور ٹھان رکھی تھی۔ انہوں نے کچھ ڈوریاں ہلائیں، اپنے مہرے آگے بڑھائے۔ پھر اخبار نویس حیرت زدہ رہ گئے کہ وہ تمام لوگ جو پی پی پی میں شامل ہونے جا رہے تھے، یکایک رک گئے اور ان میں سے کچھ نے باپ پارٹی کے پلیٹ فارم سے آئندہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور بہت سے ن لیگ میں جا شامل ہوئے۔ زرداری صاحب کی بساط ہی الٹ گئی۔ وہ سندھ کے بعد بلوچستان کی صوبائی حکومت ہتھیانے اور جنوبی پنجاب کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا میں کچھ نشستیں لینے کے خواہش مند تھے۔ حالات اب ایسے ہوگئے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو سندھ کی صوبائی حکومت میں واضح اکثریت لینے کے لئے خاصی محنت کرنا پڑے گی۔ اس بار شہری اور دیہی سندھ میں ایم کیو ایم، جی ڈی اے، جے یوآئی اور ن لیگ کا انتخابی اتحاد بننے جا رہا ہے جو پیپلزپارٹی کو شکست تو شائد نہ دے سکے، مگر بہرحال آسانی سے اسمبلی میں اکثریت بھی نہیں لینے دے گا۔
میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) پر چند سال پہلے خاصی برہم اور برافروختہ تھیں۔ اپنے سیاسی جلسوں میں مریم نواز باپ پارٹی کے خلاف شعلے برساتی تقریریں کرتی رہیں، شیم شیم کے نعرے لگواتی رہیں۔ آج کل ان کے وہ ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پرگردش کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما تلملا کر میاں نواز شریف پر حملے کر رہے ہیں۔ انہیں طعنے دے رہے ہیں۔ شکوے شکایات کر رہے ہیں۔ بعض گستاخ تو تھوکا چاٹنے جیسے عامیانہ جملے بھی کس رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ سب غیر ضروری ہے۔ پاکستان کی سیاست یہی ہے بھیا۔ اقتدار کا ہما جس کے سر پر بیٹھتا نظر آئے، بیشتر لوگ ادھر کا رخ ہی کرتے ہیں۔
جوش ملیح آبادی نے اپنی کتاب "یادوں کی برات" میں اپنے ایک عزیز کا تذکرہ کیا جو اونچی ناک والے تھے اور اپنا ذکر ہمیشہ تفاخر سے کرتے تھے۔ ایک بار وہ کسی وجہ سے دیوار سے نیچے کودتے ہوئے ٹخنہ زخمی کرا بیٹھے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ دیوار سے کیوں کودے تھے۔ اس پر وہ برہم ہو کر بولے، میں کودا نہیں بلکہ اترا تھا، کودتے تو جاہل گنوار لوگ ہیں۔
اہل سیاست کو خبر ہو کہ ن لیگ اور میاں نواز شریف نے بھی رجوع نہیں کیا، نہ ہی انہیں یا ان کی صاحبزادی کو اپنا پچھلا کہا ہوا واپس لینے کی حاجت ہے۔ میاں نواز شریف آج کل خوش بختی کی جس کیفیت میں ہیں، اس میں وہ جو بھی کریں گے، وہ درست اور حق ہوگا۔ جس چیز کو بھی چھوئیں گے وہ سونا بن جائے گی۔ اس لئے تنقید کرنے کے بجائے کوئی اچھی سی اصطلاح تلاش کریں۔ آپ بلوچستان میں ان کی حالیہ سرگرمیوں کو" فتوحات" قرار دے سکتے ہیں۔