معاشی ماڈل جسے کامیاب ہونا چاہیے
دو دن پہلے شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا کہ پاکستان میں دو طرح کے معاشی ماڈل یا سکول آف تھاٹ اہمیت رکھتے ہیں۔ پہلا وہ جو کلاسیکل کیپیٹل ازم کاحامی ہے یعنی ملک میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دیاجائے، سرمایہ داروں کی حوصلہ افزائی ہو، حکومت کاروبار نہ کرے اور مارکیٹ کو آزاد چھوڑ دے۔ بڑھتی ہوئی معاشی سرگرمی سے نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی، معیشت ترقی کرے گی جس کے ثمرات نچلی سطح تک بھی پہنچ جائیں گے۔ یہ وہ ماڈل ہے جسے فالو کر کے پورے مغرب نے ترقی کی، ملائشیا، برازیل، بھارت جیسی ابھرتی بڑی معیشتیں بھی بڑی حد تک اسی پٹڑی پر سفر کر رہی ہیں، چین نے البتہ مختلف چیزیں مکس کر کے اپنا ایک الگ معاشی ماڈل بنایا، جس میں حکومتی کردار اہم ہے۔ پاکستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور ن لیگ سمیت بیشتر سیاسی قوتیں اسی ماڈل کی حامی ہیں۔ ایک دوسرا ماڈل بھی ہمارے ہاں پیش کیا جاتا ہے بلکہ ماڈل کیا، نقطہ نظر یا سکول آف تھاٹ کہہ لیں۔ اس کی بنیاد ایک سادہ منفی نظریے اور سوچ پر ہے کہ سب کچھ لوٹ لیا گیا اور ہر طرف استحصالی بھیڑیے دانت نکوسے رقص کر رہے ہیں۔ سرمایہ دارقرضے لے کر کھا گئے، ملکی دولت لوٹ لی گئی، ملز مالکان مزدوروں، کسانوں پر ظلم کر رہے، ترقیاتی منصوبوں میں فراڈ اور کک بیکس لئے جا رہے ہیں، اربوں روپے بے جا رعایتوں یعنی سبسڈی پر خرچ ہو رہے، اس لئے ملکی معیشت مفلوج ہوگئی وغیرہ وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے چند ایک باتیں درست ہیں، بعض جزوی درست اور ایسی بھی جو محض غلط فہمی اور مغالطے پر مبنی ہے۔ خرابی اس ضرورت سے زیادہ سادہ سوچ میں ہے جو اپنے مفروضوں کی بنیاد پرپوری معیشت کو ڈیل کرنا چاہتی ہے۔ دراصل اس کے پیچھے وہی پرانا لیفٹ والا، ترقی پسندوں کا نظریہ ہے کہ سرمایہ دار استحصالی ہیں اور مزدور، کسان کی حق تلفی ہو رہی ہے، سب کچھ ریاست اپنی ملکیت میں لے کر انصاف کے ساتھ عوام میں تقسیم کرے۔ لیفٹ کے اس نظریے کا جو حال ہوا، وہ سب کو علم ہے؟ جو ریاستیں مساوات اور استحصال ختم کرنے کی علم بردار بنیں، بعد میں وہاں کس طرح استحصالی ٹولے بنے اور انہوں نے ظلم میں اضافہ ہی کیا، کمی نہیں۔ آج وہ سب کچھ الٹ چکا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ سب نعرے چلتے رہے، بائیس خاندانوں کی اصطلاح ایک نیک نام ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق نے ایوب خان دور میں وضع کی۔ آج ماہرین اس پر متفق ہیں کہ ڈاکٹر محبوب الحق نے منفی اصطلاح اور سوچ پیش کی۔ پاکستان میں ایک المیہ یہ ہوا کہ میاں نواز شریف کی صورت میں ایک مل اونر اور خالص بزنس مین اقتدار میں آ گیا، کاروباری شخصیات کے سیاست میں آنے کا رستہ کھل گیا، ہر جماعت میں یہ داخل ہوئے اور ٹاپ تک جا پہنچے۔ یہاں پر ایک اور مسئلہ پیدا ہواکہ جب کاروباری سیاستدان پر تنقید ہوئی تو وہ صرف اس کی طرز سیاست تک محدود نہ رہی بلکہ اس کے معاشی ماڈل تک پھیل گئی۔ شریف خاندان نے اپنے سیاسی مفادات کے تحت ہر شعبے میں گہرا اثرورسوخ حاصل کیا اور ایک طرح سے پورے سسٹم کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ انہوں نے اپنی مخالف سب سے بڑی سیاسی قوت پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی مفاہمت قائم کی اور ایک دوسرے کے ساتھ باری باری کھیلنے پر راضی ہوگئے۔ دیگر چھوٹے سیاسی کھلاڑیوں کے لئے زیادہ آپشن نہیں تھیں، انہوں نے اسی مفاہمتی ماڈل کو قبول کیا اور اپنے حصے کی پیسٹری پر راضی ہوگئے۔ کسی بھی مقابلے میں اگرسب پہلوان نورا کشتی لڑنے لگیں توکچھ ہی دیر میں شائقین بور ہو کر کسی حقیقی پہلوان کو بلانے کے نعرے لگائیں گے۔ ایسا ریسلر یا لڑنے والا جو اس نورا کشتی کا خاتمہ کر کے حقیقی لڑائی کا لطف دے۔ پاکستانی سیاست میں بھی ایسا ہی ہوا، اپوزیشن نہ ہونے کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا تھا، اسے تحریک انصاف نے پر کیا۔ عمران خان نے وہ عوامی مقبولیت اور کشش حاصل کی، جس کی وجہ سے بعض دوسرے سیاسی رہنما بھی ان کی طرف متوجہ ہوئے اور یوں ایک مقبو ل اور پڑھے لکھے حلقے میں نسبتاً زیادہ پذیرائی رکھنے والی جماعت نے سیاست میں اپنی الگ شناخت بنائی۔ مئی 2013ء کے انتخابات میں یہ واضح ہوگیا کہ پنجاب میں اب پیپلزپارٹی کا خاصے عرصے تک کوئی مستقبل نہیں، اس لئے تحریک انصاف نے اگر جیتنا ہے تو اسے ن لیگ کو شکست دینا ہوگی۔ عمران خان جو پہلے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو ہدف بناتے تھے، اب انہوں نے اپنا اصل فوکس میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کو بنا لیا۔ دھرنے کے دنوں اور اپنے جلسوں جلوسوں کے دوران عمران خان اور تحریک انصاف نے وہ بیانیہ دیا جو شریف خاندان اور مسلم لیگ ن کے نہ صرف مخالف تھا، بلکہ اس کا ہدف وہ معاشی ماڈل بھی بنا جس پر میاں صاحب اور ان کے ساتھی کاربند تھے۔ الیکشن جیتنے کے بعد تحریک انصاف نے جارحانہ انداز میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی بات کی، انہوں نے ن لیگ کی غلط پالیسیوں کو بدلنے اور معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کااعلان کیا۔ اگرچہ اس میں سابقہ معاشی ماڈل الٹانے کی تجویز ہرگز شامل نہیں تھی، مگر ایک تاثر ضرور ملا کہ وزیراعظم عمران خان معلوم نہیں کس کس کو پکڑ کر کیا کر ڈالیں گے۔ صنعتی، تاجر، کاروباری حلقے کسی حد تک خائف یا یوں سمجھئے کہ سہم سے گئے کہ نجانے کیا ہونے جا رہا ہے؟ ان میں سے کچھ تو وہ کاروباری حضرات جو شریف خاندان کے پرانے ساتھی تھے، جنہیں نجکاری کے نام پر کوڑیوں کے بھائو پر بینک، سیمنٹ فیکٹریاں، ملیں دی گئیں۔ انہوں نے دانستہ طور پرتحریک انصاف کی حکومت کے خلاف غلط پروپیگنڈہ بھی کیا۔ ایک بڑا حلقہ اگرچہ ن لیگ کا حامی نہیں تھا، مگر عمران خان اور ان کے بعض پرجوش ساتھیوں کے غیر ضروری بیانات سے پریشان ہو کر انہوں نے سوچا کہ نجانے یہ ناتجربہ لوگ کیا کر ڈالیں؟ بعض ایسے بھی جنہیں معیشت کا منظم ہونا پسند ہی نہیں، اس سے ان کی غلط کاریوں پر زد پڑتی اور کالے دھندے ختم ہوجاتے ہیں۔ وجوہات جو بھی ہوں، کاروباری دنیا میں ایک افراتفری اور غیر یقینی پیدا ہوئی، جس نے مسائل زیادہ گمبھیر بنا دئیے۔ عمران خان نے دراصل چند سنہری باتوں پر یقین کر لیا تھا۔ وہ یہ بھول گئے کہ دنیا اقوال زریں پر نہیں چلتی۔ ان کا خیال تھا کہ اگر حکومت ایمانداری، مستعدی سے کام کرے تو لوگ ٹیکس دینے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر وزیراعظم چھوٹے گھر میں رہے، گاڑیوں کا لشکر ساتھ نہ لے کر چلے، دیانت داری اور سادگی کو شعار بنائے تو پھر اوورسیز پاکستانی اسے دیوتا مان کر اس پر ڈالروں کی بارش کر دیں گے، زرمبادلہ کے ذخائر دگنے ہوجائیں گے، کسی سے مدد مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ برادر ہمسایہ ممالک سے اگر سمجھداری سے بات کی جائے تو وہ بھی نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھول دیں گے، آئی ایم ایف کی طرف دیکھنے کی پھر کیا پڑی ہے؟ وہ سمجھتے تھے کہ بیوروکریسی کے حق میں چند تقریریں کرنے، ان کی پشت تھپتھپانے سے سب اچھا ہوجائے گا، کروڑوں کی دیہاڑیاں لگانے والےبیوروکریٹ بھی شریف بچوں کی طرح چپ کر کے ایمانداری سے کام کرنا شروع کر دیں گے۔ وہ سوچتے تھے کہ اگر کوئی ایماندار شخص وزیراعظم بن گیا اور وہ چاہے تو ملک سے لوٹی گئی اربوں ڈالر کی دولت واپس لائی جا سکتی ہے اور یہ کام چند دنوں میں نہ سہی، ہفتوں میں ہوجائے گا، یوں قرضے ا تر جائیں گے، معیشت اچانک ہی عروج پر چلی جائے گی۔ ان کا خیال تھا کہ ایک مضبوط، دیانت دار اور دلیر وزیراعظم بننے سے خارجہ امور بھی سدھر جائیں گے، بھارت مسکرا کر بات کرنے لگے گا، امریکہ مہربان ہوجائے گا، دنیا بھر میں پاکستان کی بلے بلے ہوجائے گی۔ افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ایسا ہونا بھی نہیں تھا اور نہ ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کو یہ سمجھنا چاہیے کہ معاشی ماڈل تو وہی ہے جو دنیا بھر میں بڑی حد تک کامیاب ہے۔ جسے سمجھنا، چلانا آسان اور جس کا ایک باقاعدہ ٹریک موجود ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اصلاحات کے ذریعے اس میں درآنے والی خرابیاں دور کی جائیں۔ سرمایہ داروں کو اعتماد دیا جائے، ان کی راہ میں رکاوٹیں دور ہوں، حکومتی ادارے سپورٹ کریں تاکہ معیشت بحال ہوسکے۔ ٹیکس مشینری کو درست کیا جائے، کاروبار کرنے والو ں کو جو حلقے، ادارے تنگ کرتے ہیں، انہیں ٹھیک کریں، ان کے اختیارات پر نظر ثانی کریں۔ ایسے چیک رکھے جائیں جس سے لوٹ مار ممکن نہ ہوسکے۔ ادارے مضبوط ہوں، کسی کو تنگ نہ کریں، مگر کسی کو سسٹم ہائی جیک نہ کرنے دیں۔ منی لانڈرنگ ختم ہو اور متوازی معیشت بتدریج دم توڑ جائے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو موٹی ویٹ کرنے کے لئے نئے طریقے سوچے اورپرکشش سکیمیں شروع ہوں۔ سرکاری محکموں سے کئی سو ارب سالانہ کی کرپشن ختم کی جائے، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بیوروکریسی کی کمر توڑ ڈالی جائے۔ اچھے برے ہر قسم کے لوگ موجود ہیں، اچھے افسروں کی حوصلہ افزائی ہو، بدنام اور کرپٹ لوگوں کو ایک سائیڈ پر کیا جائے تاکہ ان کے خلاف کارروائی ہوسکے۔ یہ سب کام مگر بڑے سلیقے، سمجھداری اور ہنرمندی سے کرنا ہوگا۔ جذباتی نعروں، بڑھکوں اور( بغیر لکھی )جذباتی فی البدیہہ تقریروں سے یہ الجھی گرہیں نہیں کھولی جا سکتیں۔