کیا وزیراعلیٰ عثمان بزدار سرائیکیوں کی تقدیر بدل سکتے ہیں؟
سرائیکی خطے کو درپیش مسائل، وہاں موجود محرومیوں اور مشکلات کے حوالے سے سوچا تھا کہ کالموں کی ایک سیریز شروع کی جائے۔ اس سلسلہ کا پہلا کالم تین دن پہلے(منگل، بیس نومبر)کو شائع ہوا۔ دو تین باتیں عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ پنجاب کی سب سے پسماندہ تحصیل تونسہ کے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب کا اہم منصب سرائیکی وسیب کا فرزند ہونے کی وجہ سے ملا۔ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے دور اقتدار میں جہاں تک ممکن ہوسکے، حرماں نصیب، پریشاں حال سرائیکیوں کے مسائل دور کریں، ان کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ عمران خان نے حالیہ الیکشن میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ کیا ہے، انہیں ہر حال میں الگ صوبے کی طرف پیش رفت کرنا پڑے گی۔ ملتان میں ریجنل سیکریٹریٹ بنانے اور اس طرح کے دیگر اقدامات عبوری نوعیت کے لئے مفید ہوسکتے ہیں، مگر اصل کام پنجاب کو تقسیم کر کے سرائیکی علاقوں پر مشتمل نیا صوبہ بنانا ہے جس کا وعدہ الیکشن میں تحریک انصاف کر چکی ہے۔ نیا صوبہ بنانے کے تکنیکی مسائل دور کرنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، لیکن جو کام فوری طور پر کئے جا سکتے ہیں، وہ تو کر لئے جائیں۔ اس حوالے سے بات کی تھی کہ سرائیکی وسیب میں کئی ایسی پرانی اور بڑی تحصیلیں ہیں جنہیں ضلع بنا دینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ احمد پورشرقیہ اور خان پور جیسے شہر اگر سنٹرل پنجاب میں ہوتے تو دس پندرہ برس پہلے ہی یہ ضلع بن چکے ہوتے۔ اسی طرح جام پور ایک اہم تحصیل ہے، اسے راجن پور سے الگ کر ضلع بنانا چاہیے، یہاں شرح خواندگی بھی خاصی ہے اور یہ محروم علاقہ ہے۔ خود وزیراعلیٰ کی تحصیل تونسہ کی حالت ابتر ہے، ڈی جی خان سے تونسہ خاصا دور ہے، ہر کام کے لئے انہیں ادھر جانا پڑتا ہے، اگر ضلع بن جائے گا تو تونسہ کے لوگوں کی زندگی آسان ہوجائے گی۔ پچھلے کالم میں عیسیٰ خیل کا بھی ذکر آیا کہ کس طرح یہ شہر دریا کی پرلی طرف واقع ہونے کی وجہ سے خاصے مسائل کا شکار ہے، اسے الگ سے ضلع بنا یا جا سکتا ہے۔ مظفر گڑھ پنجاب کاخاصا بڑا ضلع ہے، جہاں پانچ تحصیلیں موجود ہیں، ایک دو بڑی تحصیلیوں کو اب تک ضلع بنا دینا چاہیے تھا۔ یاد رہے کہ ان سرائیکی شہروں کو صرف سرائیکی خطہ میں ہونے کی وجہ سے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ سرائیکی خطے کو مجموعی طور پر چار حصوں روہ، روہی، تھل، دامان میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر ایک کے اپنے مسائل ہیں اور اگر کسی نے سرائیکیوں کے لئے کچھ کرنا ہے تو کسی ایک شہر میں وسائل مرکوز کرنے کے بجائے بیک وقت وسیب کے ان چاروں حصوں کے لئے کام کرناپڑے گا۔ نئے اضلاع ہر جگہ بننے والے ہیں۔ روہ یعنی کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کے ساتھ واقع شہروں کا بھی یہ مسئلہ ہے، تھل یعنی صحرائے تھل کے علاقوں ( میانوالی، لیہ، بھکر، خوشاب کے بیشتر علاقوں خاص کر نور پورتھل، چنیوٹ، جھنگ، مظفر گڑھ خاص کر کوٹ ادو تحصیل)میں بھی نئے اضلاع بنانے کی ضرورت ہے۔ جبکہ روہی یعنی بہاولپور ریاست کے شہروں کے مسائل کا اوپر ذکر آ چکا ہے۔ تھل کے مسائل اس قدر گمبھیر ہیں کہ اس پر الگ سے لکھنا پڑے گا۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ تھل کے شہردو تین مختلف ڈویژن میں منقسم ہیں۔ اس کی شدید ضرورت ہے کہ صحرائے تھل کے ان شہروں کو اکٹھا کر ایک تھل ڈویژن بنایا جائے۔ اس سے دو فائدے ہوں گے، ایک تو ان کا ڈویژنل ہیڈکوارٹر ان کے قریب بلکہ درمیان میں ہوگا، دوسرا یہ کہ ان کے بیشتر مسائل مشترک ہیں، وہ حل کرنے کے لئے توانا آواز اٹھائی جا سکے گی۔ جیسے ضلع لیہ ڈی جی خان ڈویژن کا حصہ ہے، وہاں کے لوگوں کو بیشتر کاموں کے لئے خاصا سفر طے کر کے ڈویژنل ہیڈکوارٹر ڈیرہ غازی خان جانا پڑتا ہے۔ میانوالی اور بھکر سرگودھا ڈویژن کا حصہ ہیں، یہاں کے لوگوں کو دو تین گھنٹوں کا سفر کرکے اپنے بیشتر انتظامی کاموں کے لئے ڈویژنل ہیڈکوارٹر سرگودھا شہر جانا پڑتا ہے۔ اسی طرح چنیوٹ اور جھنگ کے کچھ علاقے تھل پر مشتمل ہیں۔ یہ دونو ں اضلاع فیصل آباد ڈویژن کا حصہ ہیں۔ اگر ان شہروں کو اکٹھا کر تھل ڈویژن بنا دیا جائے تو لوگوں کی بہت سی مشکلات حل ہوجائیں گی۔ لیہ، بھکر، میانوالی تو خیر مکمل ہی شامل ہوسکتے ہیں، مظفر گڑھ کی باقی تحصیلیں شائد ڈی جی خان کے ساتھ جانا چاہیں، مگر اس کی تحصیل کوٹ ادو الگ کر کے تھل ڈویژن میں شامل ہوسکتی ہے۔ اسی طرز پر خوشاب سے نور پور تھل اور دیگر تھل کے علاقے الگ ہوسکتے ہیں۔ یہی فارمولا سرگودھا، خوشاب اور جھنگ پرجزوی اپلائی ہوسکتا ہے، تاہم اگر وہ اضلاع اپنے موجودہ ڈویژنز میں رہنا چاہئیں تو ٹھیک ہے۔ مقصد توعوام کی بہتری ہے، کوئی نیا تنازع کھڑا کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے بھکر درمیان میں بنتا ہے، اسے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بنایا جا سکتا ہے، ویسے تو لیہ بھی ماضی میں کمشنری رہ چکی ہے، تعلیمی اعتبار سے یہ شہر خاصا آگے جا چکا ہے، یہاں تین یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں اور شرح خواندگی بہتر ہے۔ میانوالی کو بھی یہ اعزاز دیا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان فرزند میانوالی ہیں، انہوں نے اس بار میانوالی کی نشست ہی اپنے پاس رکھی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب کو تھل ڈویژن بنانے کی ہدایت دیں۔ یہ ایسا کام ہوگا، جسے اس خطے کے لوگ کبھی نہیں بھولیں گے۔ دو تین اور کام تھل کے علاقہ کے لئے کرنے چاہئیں۔ میانوالی مظفر گڑھ روڈ جسے ایم ایم روڈ کہتے ہیں، اس کی حالت خاصی خستہ ہے، اس پر بہت زیادہ بھاری ٹریفک ہے اور ڈبل روڈ نہ ہونے کے باعث جان لیوا حادثات عام معمول ہیں۔ ان حادثات کی شرح بہت زیادہ ہے، جن میں سالانہ ہزاروں اموات ہوجاتی ہیں۔ برادرم رئوف کلاسرا نے وزیراعظم عمران خان سے پہلی ملاقات میں اس روڈ کو بنانے کاکہا، ساتھی اخبارنویسوں نے اس پر ٹھٹھالگایا۔ ان بھلے لوگوں کو اگر لوکل ٹرانسپورٹ میں ایم ایم روڈپر سفر کرنے کا" شاندار روحانی" تجربہ دیاجائے تو قوی امکان ہے کہ لاہور یا اسلام آباد واپس پہنچتے ہی پہلا پروگرام یا کالم اس سڑک کی مرمت اور توسیع کے مطالبے پر کریں گے۔ دریائوں پر پل بنانے بہت اہم ہیں۔ عیسٰی خیل کو میانوالی کے ساتھ پل کے ذریعے جوڑنا بہت ضروری ہے، مقامی آبادی بہت زیادہ تنگ ہو رہی ہے۔ اسی طرح لیہ تونسہ پل کا بننا لازم ہوچکا۔ لیہ کا وزیراعلیٰ کے شہر تونسہ سے صرف بائیس چوبیس کلومیٹرکا فاصلہ ہے، دریا پر پل نہ ہونے کے باعث مقامی آبادی سو کلومیٹر اضافی یعنی 124کلومیٹر کا طویل چکر کاٹ کر جاتی ہے۔ تونسہ کی آدھی سے زیادہ آبادی تعلیم، ملازمت، کاروبار وغیرہ کے سلسلے میں لیہ مقیم ہے، یہ تمام لوگ پل نہ ہونے کے باعث بہت تنگ اور خوار ہوتے ہیں۔ اسی طرح کلورکوٹ ڈیرہ اسماعیل خان پل بھی اہم ہے۔ یہ دونوں شہر آمنے سامنے ہیں، مگر دریا پر پل نہ ہونے کے باعث لمبا چکر لگانا پڑتا ہے، اگر پل بن جائے تو حالات سنور جائیں گے۔ اوپر بیان کئے گئے تمام ترقیاتی منصوبے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ سرائیکی زبان اور کلچر کے حوالے سے بھی خاصا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ چوہدری پرویز الہی کی پنجاب حکومت نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج اینڈ کلچر (پلاک)کے نام سے ایک ادارہ بنایا تھا، قذافی سٹیڈیم میں اس کے پاس شاندار عمارت، ٹھیک ٹھاک سٹاف اور فنڈز ہیں۔ خوشی کی بات ہے۔ افسوس یہ کہ جب یہ ادارہ بنا تو وعدہ کیا گیا کہ ملتان میں بھی پلاک کی بلڈنگ اور ریجنل ادارہ بنایا جائے جس کے پاس فنڈز ہوں گے اورجو سرائیکی زبان، کلچر کے فروغ کے لئے کام ہوگا۔ کیا وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اپنی ٹیم سے اس وعدے کے بارے میں کچھ دریافت کریں گے؟ سندھ میں سندھ لینگوئج اتھارٹی اور سندھ ادبی بورڈ کے نام سے بہت اچھے ادارے موجود ہیں، ان کو فنڈز بھی دئیے جاتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں بھی سرائیکی ادبی بورڈ کے نام سے ایک نیم مردہ، نیم خفتہ ادارہ تو ہے، اس کی نوعیت سرکاری نہیں اور فنڈز نہ ہونے کے باعث یہ عملاً مفلوج ہے۔ پی ٹی وی ملتان کی اپنی ایک دردناک کہانی ہے۔ بلڈنگ تو یہاں جیسے تیسے بن گئی اور اچھی بنی، مگر یہاں کے مسائل شدید تر ہیں۔ اس سے مقامی سرائیکی ادیبوں، فنکاروں کو بہتر کوریج ملنے کے بجائے پہلے سے بھی بدتر حال ہوگیا۔ ٹی وی کے پاس بجٹ نہیں، پروگرام بنتے نہیں، فنکاروں کو مدعو نہیں کیا جاتا، پہلے لاہور ٹی وی کچھ کر لیتا تھا، وہ اب کہتے ہیں کہ ملتان والوں کا اپنا سٹیشن ہے، یہ اس کی ذمہ داری ہے، اس سارے قضیے میں نقصان مقامی فنکاروں، خاص کر تھل کے سرائیکی فنکاروں کا ہے، جنہوں نے پورے وسیب کی تخلیقی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لے رکھی ہے۔ انہیں مناسب کوریج نہیں ملتی، معاشی مسائل حل نہیں ہوپاتے۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ سرائیکی خطے کے جس شعبے پر ہاتھ رکھیں، وہاں حالات دگرگوں نکلتے ہیں۔ آدمی سوچتا ہے کہ اس پر آخر کتنا لکھا جائے؟ مصحفی کا مشہور شعر یاد آتا ہے، مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخمتیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلاوزیراعلیٰ عثمان بزدار کے مسائل اور ان پر موجود بوجھ کا اندازہ ہے، لیکن ان کے پاس وقت زیادہ نہیں، ہمت کر کے جو کچھ کر سکتے ہیں، وہ کر جائیں، سرائیکی تاریخ انہیں یاد رکھے گی۔