کیاطیب اردوان کے ماڈل کو پاکستان میں دہرایا جا سکتا ہے
ترکی میں طیب اردوان کی شاندار کامیابی کے بعد دنیا بھر میں ان کی شخصیت، سیاسی ماڈل اور وژن کے حوالے سے گفتگو ہو رہی ہے۔ مغربی میڈیا میں انہیں زیادہ پسند نہیں کیا جاتا، حالیہ الیکشن میں ان کے خلاف بھرپور مہم چلائی گئی۔ ممتاز امریکی اور یورپی اخبارات وجرائد نے طیب اردوان کے خلاف بہت سے آرٹیکل شائع کئے اور ان کے مدمقابل اپوزیشن لیڈر محرم انجے سے توقعات وابستہ کی گئیں۔ انتخابی نتائج نے ان سب کو بری طرح مایوس کیا۔
یورپ اور امریکہ ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو کس انداز میں چلائے گا اور ترکی روس کے ساتھ قربت کے باوجود مغرب کو کس انداز میں ہینڈل کرے گا، اس کا اندازہ کچھ عرصے میں ہوجائے گا۔ ہمارے ہاں طیب اردوان ماڈل کوسیاسی حوالوں سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستانی رائٹ ونگ کے لوگ یا پاکستانی اسلامسٹ طیب اردوان کو پسند کرتے ہیں اور ان کی خیرہ کن کامیابیوں سے ایک خاص انداز کی ترغیب وتحرک یا موٹی ویشن(Motivation)لیتے ہیں۔
دراصل طیب اردوان جیسا کوئی شخص جس کا بیک گرائونڈ مذہبی ہو، جو مغرب خاص کر امریکہ کو الفاظ چبائے بغیر للکار کر مخاطب کرتا ہو، فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت میں شعلہ بیانی کرے، جس کی اہلیہ سر پر حجاب لیتی ہو، ان کا لائف سٹائل روایتی مذہبی ہو، ایسے سیاسی لیڈر کی کامیابی دنیا بھر کے اسلامسٹوں کے لئے فطری طور پر امیدافزا ہوگی۔ وہ اسلامسٹ جنہیں اپنے ممالک میں طیب اردوان جیسے بیانات دینے اور ویسی آرا رکھنے کی پاداش میں رجعت پسند، ناکام اور آئوٹ آف ڈیٹ سمجھا جاتا ہے، یہ اگر طیب اردوان کی فتح پر جشن منائیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ اپنے کسی نظریاتی ساتھی کی کامیابی پر خوشی فطری امر ہے۔
حیرت ان لبرل، سیکولر حلقوں پر ہے، جنہوں نے طیب اردوان سے خواہ مخواہ کا بیر پال رکھا ہے اور ترک لیڈر کی انتخابی کامیابی پر پیچ وتاب کھا رہے ہیں۔ یہ چڑکرپاکستانی اسلامسٹوں خاص کر جماعت اسلامی والوں کو طعنے دیتے ہیں کہ طیب اردوان سیکولر ہے، اس نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں، ملک میں شراب خانوں پر پابندی نہیں لگائی وغیرہ وغیرہ۔ بھائی سیدھی بات ہے کہ اگر آپ واقعی طیب اردوان کو سیکولر سمجھتے ہو تو پھر تو آپ کو اس کے جیتنے پر خوش ہونا چاہیے نہ کہ اس نتیجے سے آپ کے حلقے میں صف ماتم بچھ جائے۔
بات مگر وہی ہے کہ طیب اردوان کا تمام تر اعتدال اور ترک سٹائل کا سیکولرازم اور مذہب کا امتزاج بھی پاکستانی سیکولرز کے لئے قابل قبول نہیں۔ یہاں سند قبولیت صرف مذہب بیزاری ہے۔ جو مذہب کا کسی بھی حوالے سے نام لے، اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ترکی میں کامیاب ہونے والا طیب اردوان ماڈل کیا پاکستان میں بھی کارآمد ہوسکتا ہے؟ ترکوں سے سیکھے گئے سبق کس حد تک ہمارے ہاں استعمال کئے جا سکتے ہیں؟ جواب زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ پاکستانی اسلامسٹ ترکی کے اسلامسٹوں سے مختلف ہیں، ان کے ہاں طیب اردوان جیسی کرشماتی شخصیت تو کیا ہونی، ترکی کے سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان جیسا بھی کوئی نہیں۔
اربکان میں ایک خاص انداز کی بے لچک سوچ اور جذباتی پن ضرور تھا، مگر انہوں نے مشکل ترین حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور نظریاتی کارکنوں کی بڑی تعداد تیار کی، وہ اگر نہ ہوتے تو شائدترکی طیب اردوان کے عہد تک نہ پہنچ پاتا۔ ترکی کے مشہور صوفی دانشور اور مفکر بدیع الزماں سعید نورسی نے وہ فکری فصل کاشت کی، جس کا ثمر بعد میں ایک طرف نجم الدین اربکان اور ان کے ساتھیوں کی شکل میں سامنے آیا، دوسری طرف سید فتح اللہ گولن کی شکل میں گولن موومنٹ بنی، جس نے ترکی کے مختلف شعبوں خاص کر تعلیم کے حوالے سے گراں قدر کام کیا اورطیب اردوان کو مشکل وقت میں مدد بہم پہنچائی۔ آج کے ترکی کے منظرنامے پر نجم الدین اربکان کی پارٹی نہایت غیر اہم اور غیر موثر پوزیشن میں موجود ہے، پارلیمانی انتخابات میں وہ بمشکل دو فیصد ووٹ لے پائے۔
دوسری طرف فتح اللہ گولن اور ان کے حامیوں کو آج ترکی میں غدار کے روپ میں دیکھا جا تا ہے۔ ان کا پورا نیٹ ورک تباہ ہوگیا، سرگرم کارکن اسیر ہیں اور بظاہر خاصے عرصے تک گولن موومنٹ کی واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔ ترکی کے انتخابات میں بھی گولن موومنٹ کا کردار زیادہ اہم اور موثر نہیں رہا۔ ان کا اپنا کوئی سیاسی گروپ پہلے بھی نہیں تھا، اب تو شائد بنانا ممکن بھی نہیں۔ بعض اردوان حامی تجزیہ کاروں نے الزام لگایا ہے کہ خاتون صدارتی امیدوار میریل اکشنیر کے پیچھے گولن کی فنڈنگ اور سپورٹ تھی، انہوں نے اکشنیر کو ملی حرکت پارٹی (MHP)میں لانچ کیا، مگر وہاں پارٹی قیادت نے انہیں آگے نہیں دیا تو مبینہ طور پر گولن کے مشورے ہی سے اکشنیر نے اپنی نئی پارٹی بنائی، یہ اور بات کہ انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اردوان حامی ترک پریس کے مطابق اس الیکشن کے سب سے بڑے شکست خوردہ (Loser) فتح اللہ گولن ہی ہیں۔ پاکستان میں سید ابولاعلیٰ مودودی کو کسی حد تک ترک دینی سکالر سعید نورسی کے کردار کا حامل سمجھ سکتے ہیں، اگرچہ میرے خیال میں سید مودودی زیادہ بڑے اور وسیع علمی اثرورسوخ کے حامل تھے، ان کے مڈل ایسٹ اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں پر گہرے اثرات پڑے، ترک صوفی دانشور سعید نورسی کے اثرات ترکی تک محدود ہیں۔ پاکستان میں مگر کوئی نجم الدین اربکان نہیں آیا، قاضی حسین احمد میں جھلک ضرور تھی، افسوس کہ جماعت کے اولڈ گارڈز نے انہیں ناکام بنا دیا۔
اسلامک فرنٹ کا تجربہ اگر آگے بڑھتا تو ممکن ہے پاکستان میں جماعت اسلامی زیادہ بڑا اور اہم کردار ادا کر پاتی۔ جو حالت جماعت کی پچھلے الیکشن اور بعد کے ضمنی انتخابات میں ہوئی، کم از کم ویسی تو ہرگز نہیں ہونی تھی۔ طیب اردوان جیسی کرشماتی شخصیت کی پاکستانی اسلامسٹ ہمیشہ خواب ہی دیکھتے رہے، جو ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کیلئے دو بڑے نیگیٹو فیکٹرزاور بھی ہیں۔ یاد رہے کہ جب ہم مذہبی جماعتوں کی بات کرتے ہیں تو بنیادی طور پر جماعت اسلامی ہی مراد ہوتی ہے کہ باقی تمام تو مسلکی گروہ ہیں، اپنے مسالک اور ان کے مدارس کے تحفظ کے لئے کام کرتے اور چند مخصوص پاکٹس سے ووٹ لے کر دو چار ارکان اسمبلی منتخب کرا لیتے ہیں۔ پاکستان میں متناسب نمائندگی کا نظام نہیں ہے۔
ترکی میں کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ متناسب نمائندگی کا نظام ہے، جس کے تحت جو پارٹی جتنے ووٹ لے، اسی حساب سے اسے پارلیمنٹ میں نشستیں مل جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں نظریاتی جماعتوں کو فائدہ ملنے کا امکان ہوتا ہے، جن کے پاس طاقتور مقامی شخصیات یا الیکٹ ایبلز نہ ہوں، تب بھی وہ اپنے نظریے اور پروگرام کی بنیاد پر ووٹ لے سکتی ہیں۔ پاکستان میں جب تک انتخابی نظام تبدیل نہیں ہوگا، انتخابی اخراجاتمیں کمی نہیں آئے گی اور الیکٹ ایبلز کی اہمیت برقرار رہے گی، تب تک کوئی بھی نظریاتی جماعت تبدیلی نہیں لاسکتی۔
تحریک انصاف کے پاس عمران خان جیسا کرائوڈکو کھینچنے والا کرشماتی لیڈر ہے، اسے بھی الیکٹ ایبلز پر انحصار کرنا پڑا۔ دنیا میں جہاں کہیں نظریاتی جماعتیں جمہوری طریقے سے کامیاب ہوئیں، وہاں الیکٹ ایبلز کا فیکٹر زیرو اور متناسب نمائندگی کا انتخابی نظام موجودہے۔ مصر میں اخوان المسلمون بھی اسی وجہ سے کامیاب ہوپائے، وہاں متناسب نمائندگی کا سسٹم ہے بلکہ مصر میں تو کسانوں، مزدوروں کا باقاعدہ کوٹہ موجود ہے، جہاں صرف چند ایکڑاراضی والے ہی الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ اس نظام میں طاقت اور پیسے کے زور سے الیکشن خریدا نہیں جا سکتا۔ تیونس میں بھی متناسب نمائندگی کا نظام موجود ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں انتخابی نظام بدلے بغیر اسلامسٹوں کا میدان مارنا آسان نہیں۔
اسلامسٹوں کی ناکامی کی ایک اور وجہ ان کا عوام سے دور رہنا اور گراس روٹ لیول پر زیادہ بہتر کام نہ کرنا ہے۔ آج بیشتر دینی جماعتیں اپنا تمام تر زور سیاسی چالوں، جوڑ توڑ اور اتحاد بنانے میں صرف کرتی ہیں۔ دعوت وتربیت اور نظریاتی کام ان کی ترجیح نہیں رہا۔ ہر قیمت پر انہیں پارلیمنٹ کی نشستیں چاہیئیں، اس کے لئے خواہ کچھ بھی کرنا پڑے۔ نظریاتی محاز پر کام نہ ہونے کے برابر ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنشیا، میڈیا اور علمی حلقوں میں مذہبی جماعتوں کا اثرورسوخ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماضی میں یہی حلقے ان اسلامسٹوں کا بیس کیمپ تھے۔ کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کی طرح کی پارٹیاں سوشل کلب بن چکی ہیں، آپس میں رشتے ناتوں، کاروبار اور تعلق تک محدود۔ ان کے اہم عہدے داروں کو سماج میں نمایاں مقام مل جاتا ہے، وہ اسی پر قانع ومطمئن ہیں۔
طیب اردوان یا دنیا کے کسی اور خطے میں کسی مذہبی شناخت رکھنے والے لیڈر کی کامیابی پر بھنگڑے ڈالنا اور سوشل میڈیا پر جشن منانا ہی ان کا معراج ہے۔ اس سے بڑھ کر سوچنے کی ہمت ہے نہ سکت۔