کیا دینی سیاسی جماعتیں الیکشن سے کچھ سیکھ پائی ہیں؟
یہ انتخابات کئی اعتبار سے مذہبی سیاسی جماعتوں کے لئے تکلیف دہ اور مایوس کن ثابت ہوئے۔ انتخابات میں تین چار جماعتوں نے حصہ لیا۔ سب سے اہم اور نمایاں جمعیت علما اسلام فضل الرحمن تھی۔ 2018 میں جے یوآئی نے کے پی اور بلوچستان سے درجن بھر قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کی تھیں۔ پختون خوا بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تو جمعیت علما اسلام نے بہت سوں کو حیران کر دیا تھا، پشاور سمیت کئی اہم شہروں کی سٹی میئر شپ جیت لی، مجموعی طور پر ٹھیک ٹھاک شیئر بھی لیا۔ دوسرے مرحلے میں البتہ جے یوآئی کو دھچکا پہنچا، خاص کر اپنے مضبوط علاقہ ڈی آئی خان، ٹانک اور لکی مروت میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
حالیہ انتخابات میں جمعیت علما اسلام اپنی کامیابی کے لئے خاصی پرامید تھی، البتہ مولانا فضل الرحمن ایک ہوشیار سیاستدان کے طور پر بھانپ گئے تھے کہ ڈی آئی خان میں ان کے لئے مشکلات بڑھ چکی ہیں۔ چالیس پنتالیس سالہ سیاسی کیرئر میں وہ پہلی بار بلوچستان سے بھی الیکشن لڑے۔ ڈی آئی خان کے ساتھ پشین سے امیدوار بنے تھے۔ الیکشن نتائج کے مطابق جے یوآئی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن بڑے مارجن سے ہار گئے۔ ان کا بڑا بیٹا اسعد محمود ڈیرہ کم ٹانک سے ہار گیا، دوسرا بیٹا اسجد محمود لکی مروت سے شیر افضل مروت سے شکست کھا گیا۔ مولانا کے کئی قریبی ساتھی بھی ناکام ہوئے۔ بنوں سے اکرم درانی کا بیٹا قومی اسمبلی کی سیٹ ہار گیا۔
مولانا فضل الرحمن البتہ پشین سے جیت گئے، پشاور سے ان کے ٹکٹ پر نورعالم خان جیتے، جن کی کامیابی کی مقامی صحافیوں تک کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کس کرشمے سے انہیں اتنے ووٹ مل گئے، ایک سیٹ شمالی وزیرستان سے ملی، جہاں پر خاصا احتجاج بھی ہوتا رہا، سابق رکن اسمبلی محسن داوڑ اس میں زخمی بھی ہوگئے۔ جے یوآئی کومجموعی طور پر قومی اسمبلی کی پانچ نشستیں ملیں، جس پر مولانا فضل الرحمن خاصے آپ سیٹ اور فرسٹریٹ ہیں۔ وہ اس الیکشن کو دھاندلی قرار دے رہے ہیں۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ ہم سپیکر، وزیراعظم، صدر وغیرہ کے الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے، کبھی کہتے ہیں کہ اس پر بھی غور ہوگا کہ پارلیمانی سیاست کریں یا نہ کریں۔ سوال مگر یہ ہے کہ دھاندلی کہاں اور کس نے کی؟
پختون خوا میں انہیں تحریک انصاف نے بدترین شکست سے دوچار کیا۔ تمام ترقابل اعتماد سرویز، رپورٹس میں یہی تھا کہ پی ٹی آئی پختون خوا میں لینڈ سلائیڈ وکٹری لے گی۔ وہی ہوا۔ تحریک انصاف البتہ احتجاج کر رہی ہے کہ نورعالم خان کی قومی کی سیٹ کے علاوہ پشاور سے صوبائی اسمبلی کی تین چار سیٹیں ان سے چھینی گئی ہیں۔ تحریک انصاف کا یہ مطالبہ درست ہے یا غلط، اس سے قطع نظر بہرحال صوبے میں ان کی کامیابی کا ایک پورا پیٹرن اور تسلسل رہا۔ انہوں نے پورے صوبے میں سوئپ کیا۔ پشاور، نوشہرہ، مردان، چارسدہ، صوابی، کرک، ڈی آئی خان، بنوں، کوہاٹ، ٹانک وغیرہ کے ساتھ مالاکنڈریجن اور ہزارہ ریجن میں بھی صفایا کیا۔ مانسہرہ سے نواز شریف پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سے شکست کھا گئے۔ سوات میں سابق وزیراعلیٰ محمود خان اپنی گھر کی سیٹ بھی نہ بچا پائے اور تحریک انصاف میدان مار گئی۔
بلوچستان میں البتہ جے یوآئی کو نشستیں ملی ہیں۔ انہوں نے اپنی روایتی پاکٹس سے سیٹیں لی ہیں، اگر پی پی پی اور ن لیگ کا گٹھ جوڑ نہ ہوجاتا تو جے یوآئی حکومت میں لازمی شامل ہوجاتی۔ کراچی میں جے یوآئی ویسے ہی صفر تھی، اندرون سندھ کے دو تین سیٹوں پر ان کے امیدواروں نے کچھ مقابلہ کیا، مگر وہاں بھی بڑے مارجن سے ہارگئے۔
مولانا فضل الرحمن کو شکست اپنی پالیسیوں اور عوام کی نبض پر انگلی نہ رکھنے سے ہوئی۔ وہ اپنے صوبے اور آبائی حلقے کے عوام کا موڈ ہی نہیں سمجھ پائے۔ وہ تحریک انصاف کے بیانیہ کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ حکومت کا بوجھ بھی جے یوآئی پر آ گیا، وہ یوں دب گئی کہ نکل ہی نہ پائی۔ مولانا فضل الرحمن نے صوبے میں اپنے سمدھی کو گورنر اور چار وفاقی وزارتیں لے کر عقلمندی نہیں کی تھی۔ جب پچھلے سال سیلاب نے ڈی آئی خان، ٹانک وغیرہ کے دیہی علاقوں کو ہٹ کیا تو وہاں پر امدادی کام میں بہت غفلت ہوئی۔ مولانا کے صاحبزادے اور جانشین اسعد محمود وہاں سے ایم این اے اور وزیر تھے۔ ظاہرہے اس کی ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن کے بیانیہ کو شکست ہوئی ہے۔ پختون خوا میں اس بار تحریک انصاف کا بیانیہ جیتا، باقی سب بیانیے اڑ گئے۔ مولانا کے عمران خان پر لگائے روایتی الزامات بھی بیکار ثابت ہوئے۔
جماعت اسلامی کے ساتھ البتہ یہ نہیں ہوا۔ جماعت اقتدار میں شامل نہیں تھی۔ اس پر کسی کی ناکامی کا کوئی بوجھ نہیں تھا۔ جماعت اسلامی کو اپنی کم ہمتی اور غیر واضح، مبہم پالیسی کا نقصان ہوا۔ وہ اپنے امیر سراج الحق صاحب کی روایتی گومگو والی کنفیوز پالیسی کاشکار ہوئی۔ پچھلے چند ماہ کے دوران جو کچھ ہوا، اس پرجماعت اسلامی کو ایک واضح موقف لینا چاہیے تھا۔ جو کچھ ہو رہا تھا، اس پر ایک موقف تحریک انصاف کا تھا، دوسرا پی ڈی ایم جماعتوں کا۔ پی ڈی ایم کا بیانیہ سمجھ آتا ہے کہ وہ اقتدار میں مست ثمرات سمیٹ رہے تھے۔ جماعت اسلامی کیوں ژولیدہ فکری سے دوچار تھی؟
سچ تو یہ ہے کہ امیر جماعت جناب سراج الحق اور جماعت کی مرکزی شوریٰ اس کنفیوز بیانیہ کی ذمہ دار ہے۔ اس بدترین شکست کی وجہ یہی تھے۔ پنجاب اور پختون خوا میں جماعت اسلامی کا صفایا ہوگیا۔ ذرا لاہور اور دیگر علاقوں سے جماعت اسلامی کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹ گن کر دیکھ لیں۔ کونسلر سطح کے لوگ بھی ان سے زیادہ لے جاتے ہیں۔ پنجاب میں دو صوبائی اسمبلی کے حلقوں بہاولنگر شہرسے ارسلان خان اور بہاولپور شہر سے ڈاکٹر وسیم مرحوم کے بھائی زیشان نے نسبتاً اچھی مہم چلائی، مگر ان کے حاصل کردہ ووٹ بھی جیتنے والے سے تین چار گنا کم تھے۔ پنجاب میں تو جماعت عرصہ ہوا ختم ہوچکی تھی، اس بار جماعت اسلامی کو پختون خوا اسمبلی میں بھی کوئی سیٹ نہیں مل سکی۔
جماعت اسلامی اس شکست کو دھاندلی کا نام دے رہی ہے تو یہ اپنے آپ کو دھوکا ہی ہوگا۔ جماعت کے بعض امیدواروں کو کراچی میں یقینی طور پر مسائل کا سامنا کرنا پڑا، وہاں دھاندلی بھی ہوئی۔ یہ مگر یاد رہے کہ کراچی جماعت اسلامی کا معاملہ پورے ملک کی جماعت اسلامی سا نہیں ہے۔ پورے ملک میں جناب سراج الحق اور جماعت کی شوریٰ کا کنفیوز اور کم ہمتی والا بیانیہ گردش کرتا رہا۔ کراچی میں جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم نے بڑی جارحانہ اور زمین سے جڑی ہوئی پریکٹیکل سیاست کی۔ یہ ماننا ہوگا کہ انہوں نے جماعت کے روایتی تھکے ہوئے کلچر میں جان ڈال دی۔ انہوں نے کنفیوز ہونے کے بجائے یکسوئی کے ساتھ بھرپور انداز میں آواز اٹھائی اور کراچی میں تحریک انصاف کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی۔ وہ میئر کراچی کے الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کے ساتھ رہے اور بعد میں بھی انہوں نے تحریک انصاف کا انتخابی نشان چھینے جانے پر کھل کر آواز بلند کی۔
حافظ نعیم نے اپنی جماعت کی جانب سے فرض کفایہ ادا کرنے کی کوشش کی، لگتا ہے کراچی کی حد تک عوام نے حافظ صاحب کی کاوش کو قبول کیا اور انہیں پزیرائی دی، شفاف الیکشن ہوتا تو چند سیٹیں بھی مل سکتی تھیں۔ البتہ پنجاب اور کے پی کے عوام نے کراچی ڈویژن کے امیر حافظ نعیم کی آواز کو صرف کراچی جماعت کی آواز ہی سمجھا اور مرکزی جماعت کو ان کی بے حس خاموشی کی سزا دی۔ حافظ نعیم کی طرح مولانا ہدایت الرحمن بھی استثنائی کیس ہیں، سینیٹر مشتاق احمد خان بھی، کاش امیر جماعت بھی اس نکتے کو پالیتے۔
ٹی ایل پی نے اس الیکشن میں اپنے ووٹ بینک سے بہت سوں کو حیران کر دیا۔ کہا جارہا ہے کہ انہوں نے اٹھائیس لاکھ کے قریب ووٹ لئے۔ پنجاب کے بیسیوں حلقوں میں لبیک کے امیدوار بیس، تیس پینتیس ہزار ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے، اٹک سے حافظ سعد رضوی نے نوے ہزار ووٹ لئے۔ لبیک کو اگرچہ صرف ایک پنجاب اسمبلی کی سیٹ ملی مگر اپنے ووٹ بینک سے وہ اہم قوت بن کر ابھری۔ اگر وہ عقلمندی کرکے کسی بڑی جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیتے یا چند حلقوں پر پورا فوکس کرتے تو شائد ان کی سیٹیں بڑھ جاتیں۔
جے یوپی کے مختلف دھڑے اس الیکشن میں بری طرح پٹ گئے، ان کا صفایا ہوگیا۔ راہ حق پارٹی کو بھی جھنگ سمیت کراچی وغیرہ سے بھی شکست ہوئی، البتہ انہیں بلوچستان سے ایک صوبائی کی سیٹ مل گئی یا دلوا دی گئی۔
مجموعی طور پر دینی جماعتوں نے اس الیکشن میں خاصا کچھ گنوایا ہے۔ ان کا بھرم کم ہوا۔ حکومت سازی کے عمل میں وہ کسی بھی جگہ شریک نہیں۔ ہر ایک کو اپنے انداز میں اپنی غلطیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ یہ عمل شروع بھی ہوچکا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس بار اپوزیشن میں بیٹھنے کا سوچ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر نے استعفا دیا، اگرچہ وہ واپس کرا لیا گیا۔ تاہم جماعت میں اس وقت نئے امیر کے لئے انتخابی عمل شروع ہے، ممکن ہے کوئی غیرمتوقع نتیجہ سامنے آئے۔ لبیک کو بھی اپنی غلطیوں اور قوت کا تجزیہ کرنا چاہیے۔